تحریر: جاوید اختر بھارتی
یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے ،دل بسانے کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، دارالعمل ہے یعنی آزمائش اور امتحان کی جگہ ہے،،یہاں ہم جو کریں گے اس کا ریزلٹ میدان محشر میں ملے گا اور سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے گا جس نے دنیا میں اچھا کام کیا ہوگا،اللہ و رسول کی اطاعت کی ہوگی ،رب کے قرآن اور نبی کے فرمان کے مطابق زندگی گذارا ہوگا،کسی کا حق نہیں مارا ہوگا، کسی کا دل نہیں دکھایا ہوگا ، امانت میں خیانت نہیں کیا ہوگا، اسلام ک ارکان پر اور شریعت کے مطابق عمل کیا ہوگا یعنی مکمل طور پر اطیعواللہ و اطیع الرسول کے سانچے میں ڈھل کر اپنی زندگی کو گذارا ہوگا تو اسے داہنے ہاتھ میں سرٹیفکیٹ دیا جائے گا اور وہ سرٹیفکیٹ جنت میں داخل ہونے کا ٹکٹ ہوگا-
اور جو شخص اس سے منھ موڑ کر احکامات الہی اور فرمان رسالت کے خلاف اپنی زندگی کو گذارا ہوگا اور صرف و صرف دنیا کو ترجیح دیتے ہوئے اس رنگ برنگی دنیا میں دل بسایا ہوگا تو اسے بائیں ہاتھ میں سرٹیفکیٹ دیا جائے گا اور اس کا سرٹیفکیٹ اسے جہنم میں لے جائے گا،، کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج کا انسان اور بالخصوص مسلمان اپنے ذاتی مفاد میں ایسا غرق ہوا ہے کہ لگتا ہے کہ اسے یقین ہی نہیں ہے کہ ایک دن مرنا ہے ایک ایک انچ زمین کے لئے لڑائی جھگڑا، گالی گلوج، مار پیٹ، قتل وغارت، مقدمہ بازی، جھوٹی گواہی، جھوٹے دلائل، زور آوری سوچتا ہی نہیں ہے کہ ایک ایسی بھی عدالت کا سامنا کرنا ہے جہاں ثبوت مانگنے والا اور سوال کرنے والا صرف اللہ ہوگا،جزا اور سزا دینے والا صرف اللہ ہوگا جس کی عدالت میں دنیا کے وہ سارے حکمران بھی کانپتے ہوں گے جن کے پاس دنیا میں بڑی بڑی طاقتیں تھیں جن کے ایک اشارے پر دنیا میں نہ جانے کیا سے کیا ہو جاتا تھا، جن کے ہوٹر و سائرن بجتے تھے تو راستے صاف ہوجایا کرتے تھے، جن سے ملاقات کے لیے بڑی جدوجھد کا سامنا کرنا پڑتا تھا، دن رات جن کی حفاظت کے لئے سیکورٹیاں الرٹ رہا کرتی تھیں اس دن میدان محشر میں وہ سارے کے سارے حکمران مجرموں کی طرح رب ذوالجلال کی عدالت میں کھڑے ہوں گے رب العالمین جس سے لفظ کیوں کا سوال کر دے گا تو اس کا جواب نہیں ہو گا ،، اسی لیے بزرگانِ دین نے تاج تخت و حکومت کو ٹھکرایا، دنیا میں ایک مسافر کی طرح زندگی گذارنا پسند کیا تقوی اور پرہیز گاری کو اختیار کیا اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا دنیا کیا ہے اور دنیا کی حقیقت کیا ہے، زمین ، مٹی، اینٹ کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے اٹھائیے رونق المجالس اور اس واقعے پر غوروفکر کریں بنی اسرائیل میں ایک شخص مرگیا اس کے دو بیٹے تھے اور ایک مکان تھا باپ کے مرنے کے بعد دونوں بیٹے مکان کی تقسیم کرنے لگے تو دونوں آپس میں جھگڑ پڑے اور لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو گئے ،، اتنے میں اس مکان کی ایک اینٹ سے انہوں نے یہ آواز سنی کہ اے لڑکوں! میری خاطر نہ لڑو بلکہ میری طرف دیکھو میں بھی کسی وقت میں بادشاہ تھی،، تین سو ستر سال میں نے عمر پائی، پھر مرنے کے بعد ایک سو سال تک قبر میں رہی، حتیٰ کہ میری قبر ایک میدان بن گئی، پھر میری قبر کی جگہ سے مٹی کھودی گئی، اس مٹی میں میں بھی تھی، پھر میری ایک اینٹ بنائی گئی، پھر چالیس سال تک میں اینٹ کی شکل میں رہی، پھر مجھے توڑا گیا،پھر میں ایک روڑے کی شکل میں ایک سو تین سال تک راہوں میں و سڑکوں میں پڑی رہی یہاں تک کہ پھر میری مٹی بن گئی اور دوبارہ مجھے اینٹ بنا دیا گیا اور اس مکان میں لگا دیا گیا اور اس مکان میں میں تین سو سال سے چلی آ رہی ہوں اس لیے اے بچوں تم نہ جھگڑ و تم نہ لڑو تمہارا بھی یہی انجام ہونے والا ہے،، یہ دنیا ہزاروں رنگ بدلتی ہے، یہ دنیا بڑی ناپائیدار ہے، اس کی خاطر لڑنا جھگڑنا عقلمندی کا کام نہیں ہے،، لھذا ایسی نا پائیدار دنیا میں دل نہیں لگانا چاہیے اور اپنی عاقبت سنوارنے کی فکر کرنا چاہیے جہاں کی ہر چیز پائیدار اور ہمیشہ کام آنے والی ہے-
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں