یہ دورِ ترقی ہے دورِ جہالت

ذوالقرنین احمد

 

محترم حضرات آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنے گھر میں دین کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں آج کل جو لوگ حیا سوز، غیر اخلاقی، غیر شراعی حرام عوامل انجام دے رہے ہیں یہ کوئی اجنبی مخلوق نہیں ہے اور نہ ہی معاشرے سے الگ تھلگ ہے جو افراد حرام کاموں کو فروغ دے رہے ہیں یہ بھی کوئی خلائی مخلوق نہیں ہے یہ ہمارے ہی معاشرے کے افراد ہے جو اسی معاشرے میں چھوٹے سے بڑے ہوئیے اور اب نوجوانی کی عمر میں قدم رکھنے کے بعد حرام کاموں کو بڑے ذوق و شوق سے منارہے ہیں یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ ان کی پرورش کس نہج پر کی گئی بچپن میں ہی انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا گیا یا نہیں انہیں کس طرح کے لباس پہنائیں گئے، انہیں کس آئیڈیل کی طرح میک اپ کروا کر اسکول میں بھیجا گیا کس ہیرو ہیروئن کے نام پر ان کا نام رکھا گیا، انکی پرورش کیسی کمائی سے ہوئی، گھروں میں ماڈرنزم اور اسٹیٹس کے نام پر کیسے لباس انھیں زیب تن کرائیں گئے کہی وہ لباس کے دریچوں سے بدن جھانک تو نہیں رہا تھا، کہی مخلوط تعلیمی نظام نے انہیں وقت سے پہلے ہی بلوغت کی باتیں تو نہیں سکھلائی تھی، کہی غیر محرم سے درس حاصل کر‌نے والی بنت حوا حوس بھری نگاہوں کا شکار تو نہیں ہورہی تھی، کہی ٹیوشن کلاس کے نام پر بچپن سے ہی بچے پارکوں میں تو نہیں رنگ رلیاں منارہے تھے، کیا آپ کے اس اندھے اعتماد نے انہیں آج اس موڑ پر لا کھڑا کردیا ہے جو حرام کو حرام نہیں سمجھتے جو حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھے یا انہیں یہ سبق پڑھایا ہی نہیں گیا، جی ہاں والدین اس کے ذمہ دار ہے جن کی لاپرواہی سے آج یہ نوجوان جو معاشرے میں جنسی بے راہ روی کا شکار ہے یہ اسی معاشرے کی نئی نسل ہے یہ کوئی اجنبی مخلوق نہیں ہے جس طرح پرورش ہوگی ویسے ہی نتائج معاشرے پر مرتب ہوگے نئی نسل والدین کی تربیت گھر اور خاندان کا آئینہ ہوتی ہیں ضرور اس میں کوئی کمی رہی ہے جو یہ شاخ نازک آج مضبوط ہونے کے بعد کسی بھی تنقید کو برداشت نہیں کر رہی ہیں۔مغربی کلچر کو اس حد تک فروغ مل چکا ہے کہ عورت کو مرد کے برابر کھڑا کردیا گیا جسے مشین کی طرح کام لیا جانے لگا ہے آفس، اسکول، پرائیویٹ اداروں، سرکاری اداروں، میں کام کرنے والی خواتین دن بھر کام کرنے کے بعد گھر پہنچ کر کیا بچوں کی پرورش کر پائیں گی، کیا وہ شوہر کی ضروریات کا خیال رکھ پائی گی،  جب کے عورت کا مقام اس معاشرے میں اتنا اعلیٰ ہے کہ قوموں کی ترقی و تنزلی میں ان ہی خواتین کا کردار اہم ہے جب مائیں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرتی تھی تو دنیا کو بہترین لوگ ملا کرتے تھے جو پورے معاشرے کے حالات کو تبدیل کردیتے تھے لیکن آج کہاں سے وہ افراد مہیا ہوگے کہ جب ماؤں کے ہاتھوں میں ہی انڈرائیڈ فون ہو اور اپنے بچوں کے ساتھ بے حیا ناچ گانے دیکھنے میں مگن ہوں، اور اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ موسیقی پر ڈانس کرکے اس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر کے خوشی کا اظہار کرنے لگیں کے میرے اتنے ویورز بڑھ گئے ہیں اپنے جسم کی نمائش کرنے لگیں، تو کہاں سے محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ ، صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ، پیدا ہوگے، ہم کس منہ سے ان نوجوانوں کو سمجھائے جو آج بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ماؤں سے پہلے بچوں کو تعلیم دی جائے تبھی یہ معاشرے سے بے حیائی کا خاتمہ ہوگا اور بنت حوا کی عزتیں عصمت محفوظ ہوگی۔

 

«
»

اب دیکھو کیا دکھائے نشیب و فراز دہر

مرثیہ بروفات : استاد گرامی قدرحضرت مولانا سید واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے