وہ مذاہب ہیں اسلامِ ، عیسائیت، یہودیت، ہندو ازم، سکھ ازم اور بدھ ازم۔ اس کے علاوہ جین مت ، پارسی اور دیگر مذہب بھی ہیں۔لیکن ان تمام مذاہب میں جامع اور کامل صرف اور اسلام مذہب اسلام ہے ۔ یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہ رہی ہوں بلکہ مختلف ادیان کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد دنیا بھر کے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ اور سلیقہ صرف اسلام کی تعلیمات میں موجود ہے۔ جہاں اعتقاد سے لیکر عبادات، معاملات اور اخلاقیات تک ہر پہلو پر راہنمائی موجود ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا خاصہ حصہ سماجی اور معاشرتی زندگی کے درخشاں اصولوں پر مبنی ہے۔ عمومی طور پر اسی کی دلکشی بہت سارے لوگوں کے قبول اسلام کا سبب بنی ہے۔ لیکن جب ہم اپنے مسلم معاشرے پر نظرڈالتے ہیں۔ اپنی بستی اور گاؤں میں تشکیل شدہ سماج پر نظر دوڑاتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسا ہمارا اپنا کلچر ہی نہیں ہے ۔مذہب اسلام کے پاس اپنی کوئی تہذیب و ثقافت نہیں ہے ۔ مذہب اسلام کا کوئی ذاتی شعار نہیں ہے۔یہ مذہب مختلف مذاہب کے کلچر اور ثقافت کا مجموعہ ہے۔ کوئی رسم اِدھر سے لی اور کوئی اُدھر سے اٹھا لی گئی ہے۔ کچھ کلچر انگریزوں سے لے لیا گیا ہے اور کچھ ہندؤوں سے لے لیا گیا ہے ۔باقی بچا کچھا دیگر مذہب والوں سے استعارہ لے رکھا ہے اور اس طرح اپنے معاملات چلا کر گزارہ کر رہے ہیں ۔
زندہ قومیں اپنی ثقافت اور تاریخی ورثہ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ برطانیہ نے تقریبا ایک صدی تک برصغیر پر اپنی حکومت باقی رکھی ۔ اس دوران پانچ چھ نسلیں گزرگئیں۔لیکن انہوں نے اپنی ثقافت، معاشرتی اقدار اور تاریخی ورثہ کی بھرپور حفاظت کی۔ اپنی بہت سی روایات اور عادات و اطوار ہمیں دے گئے لیکن زبان، لباس اور سماجی روایات سمیت خود اپنایا کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادی بیاہ سے لیکر موت تک وہ اپنی سماجی حیثیت کو برقرار رکھتے ہیں اور اسی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آج ہم چند ایسی رسومات کا ذکر کرنے لگے ہیں جو غیر اسلامی ہونے کے ساتھ ساتھ متوسط اور غریب طبقات کے لئے سوہان روح بن چکی ہیں۔ ان رسم کو ادائیگی ان کے لئے مشکل اور اضافی مصیبت معلوم ہوتی ہے اور اگر ان کی ادائیگی نہ کرے تو معاشرہ میں ان کو کمتر اور حقیر جانا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک منگنی کی رسم ہے۔ اگر دو خاندانوں کے درمیان شادی کی بات پکی ہونے کا نام منگنی رکھ بھی لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن اب تو منگنی باقاعدہ طور پر ایک منعقد کی جانے والی رسم بن چکی ہے۔ جس میں اعزہ و اقارب اور دوست احباب کو مدعو کیا جاتا ہے۔ تحفے تحائف دئے جاتے ہیں۔ لڑکا اور لڑکی اس وقت غیر محرم ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں کواکٹھا بٹھایا اور ملایا جاتا ہے۔ زیورات تیار کئے جاتے ہیں اور پھر باقاعدہ شادی کیلئے سالوں کی میعاد طے کر لی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف نئی نسل کا منٹوں اورگھنٹوں میں ذہن بدل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں کئی بچیوں کو منگنی ٹوٹنے کے نام پر ناکردہ گناہ کی سزا دی جاتی ہے۔ کئی ایک بلا ثبوت اوربد اخلاقی پر مبنی جملے کسے جاتے ہیں کہ لڑکی میں کوئی برائی یا خامی ہو گی تو اسی لئے منگنی ٹوٹ گئی ہے۔فضول خرچی کے ساتھ ساتھ مزید برآں یہ کہ منگنی ٹوٹنے کی صورت میں ایسے واقعات خاندانی رنجشوں اور باہمی دوریوں کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ جبکہ اس طرح منگنی کی تقریب منانے کی مستند اسلامی تاریخ اور قرون اولی کے مسلمان معاشروں میں کوئی روایات نہیں ملتی۔ نکاح، ولیمہ اور شادی کے انعقاد کیلئے خوشی کے شادیانے ہماری اسلامی روایات کا نہ صرف حصہ ہیں بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا کہ نکاح میری سنت ہے اور جو کوئی میری اس سنت سے دور رہے گا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
تیل مہندی بھی ایک ایسی رسم ہے جو بہت ہی مشہور و معروف ہے۔ اسلامی روایات میں ہمیں اس کا کوئی حوالہ اور ثبوت نہیں ملتا ہے یہ سب ہندو ازم کی ثقافت کا حصہ ہے جہاں سے ہم نے اسے بصدشوق اسے لے لیا ہے۔ ان کے مذہبی راہنما بھی اکثر اسی رنگ کے لباس کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی طرح شادی بیاہ کے موقع پر بھی تیل مہندی کی رسم اسی کلچر کا حصہ ہے۔ ہمارے معاشرہ میں کچھ لوگ یہ دعوی کرت ہیں کہ ہم شادی اسلامی روایات کے مطابق کرتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ کچھ ایسی غیر اسلامی رسومات کی ملاوٹ کردیتے ہیں جو اس کی حقیقی روح پر بھی قدغن لگا دیتی ہیں۔ غیر اسلامی ہونے کے ساتھ ساتھ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کیلئے یہ بے جا مالی بوجھ بھی ہے۔ نہ کریں تو ناک کٹے گی اور کریں تو جیب اور پیٹ کٹے گا اور قرضوں کا بوجھ مزید بڑھے گا۔ معاشرہ کی ایک اہم برائی ان دنوں جہیزبن چکی ہے۔آج کل یہ جہیز سب سے بڑاوبال جان ہے۔ بعض اوقات تو لڑکے والے باضابطہ سامان جہیز کی لسٹ بنا کر دیتے ہیں اور جہیز کم لانے کی صورت میں عورتوں کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔بعض دفعہ تو جہیز کا مطلوبہ سامان فراہم نہ ہونے پر بارات واپس چلی جاتی ہے ۔ لڑکیوں کو پوری زندگی اس کے لئے زدوکوب کیا جاتا ہے ۔ سسرال والے ہاتھ دھوکر پیچھے پڑجاتے ہیں اور طرح طرح کا جملہ کہتے رہتے ہیں ۔
جہیز کے نام ہمارے معاشرہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ باعث شرم ہے۔ یہ اسراف پر مبنی ایسی فضول رسم بن چکی ہے جس نے غریب اور متوسط طبقے کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ ہماری بہنیں شادی سے محروم ہیں ۔ان کے والدین کے پاس اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ سامان جہیز مہیا کرکے بیٹی کے ہاتھ پیلے کرسکے اور لڑکے جہیز کے بغیر شادی کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ جہیز کے تعلق سے میں تفصیلی مضمون آئند ہ لکھوں گی ۔یہ مضمون اسلام میں مخلوط غیروں کے کلچر کے حوالے سے ہیں اس لئے بات کو وہیں لے کر جاتے ہیں ۔
اسلام سادہ اور پروقارزندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے لیکن ہم نے معاشرے میں بیشمار خود ساختہ پریشانیاں پیدا کی ہوئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اور اسی طرح کی دیگر فضول رسومات سے جان چھڑائی جائے۔ سنت رسول کو اپناتے ہوئے جہیز میں اسراف کو ختم کر کے سادگی کو رواج دیا جائے۔غریبوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے ۔ مسلم سماج اور معاشرہ کو مکمل طور پر اسلامی معاشرہ میں تبدیل کیا جائے ۔ سماج اور معاشرہ میں جو خرابیاں آچکی ہیں اسے ختم کرنے کی کوشش کی جائیں ۔ہندؤوں اور دیگر مذاہب کے کلچر کو اپنانے سے مکمل طور پر فروغ کیا جائے ۔ اسلامی لباس زیب تن کیا جائے ۔ برقعہ کا اہتمام کیا جائے اور وہ تمام چیزیں جو ہم سے ہماری شریعت چاہتی ہے اس پر ہم تمام مسلمان بشمول مردو عورت کو عمل کرنا چاہئے ۔ غیروں کے طریقہ کو اختیار کرنے سے مکمل طور پر گریز کرنا چاہئے ۔
ایسے ہی صورت حال کے بارے میں علاقہ اقبال نے کہاتھاکہ
وضع میں تم ہو نصاری، تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
جواب دیں