اگر داعش کے ان دعووں میں سچائی ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ نہ صرف زمین پر بلکہ فضابھی داعش کے حملوں سے محفوظ نہیں ہے یہ ایک سنگین صورت حال ہے اور دنیا کے سبھی ملکوں کو اس سنگین خطرہ کا احساس کرتے ہوئے اس کے قلعہ قمع کی حکمت عملی واضع کرنی ہوگی۔داعش کی ایک دہشت گرد تنظیم ہیاور اس کے مظالم سے دنیا تھرارہی ہے لیکن اس کے جانب نوجوانوں خصوصاً یوروپی مسلم نوجوانوں جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں راغب ہونا دعوت فکر دیتا ہے کہ اس عفریت سے فوجی اور جنگی سطح پر ہی نہیں بلکہ نظریاتی سطح سے نہ صرف لڑنے بلکہ شکست دینے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ایسی تنظیموں اور نظریات کو طاقت سے دبایا تو جا سکتا ہے لیکن اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔عالمی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آئے گی کہ ایسے مسائل کا حل سیاسی اور سماجی سطح سے ہی نکالا جا سکتا ہے طاقت کے ذریعہ نہیں۔اگر طاقت کے ذریعہ ایسے مسائل حل ہو سکتے تو آج بھی اسرائیل اتناہی غیر محفوظ نہ ہوتا جتنا 1948میں وجود میں آنے کے وقت تھا۔ائرلینڈ کی آزادی کے لئے لڑنے والی آئرش پبلیکن آرمی مارگیٹ تھیچر کی تمام تر سختیوں کے باوجود اپنی کارروائی کرتی رہی تھی اور آئرلینڈ کے مسلہ کا سیاسی حل نکلنے کے بعد ہی وہاں سکون ہو سکا۔ہندوستان میں پنجاب عرصہ درازتک غیر ملکی حمایت یافتہ دہشت گردی کی آگ میں جلتا رہا لیکن طاقت کے استعمال کے ساتھ ہی ساتھ جب وہاں سیاسی عمل شروع ہوا تو رفتہ رفتہ ریاست میں امن قائم ہو گیا۔حالانکہ سردار بینت سنگھ ،ہرچرن سنگھ لونگوال جیسے عظیم سیاست دانوں کو اس کے لئے ایسی جان کی قربانی دینی پڑی تھی۔جموں کشمیر بھی برسوں سے دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے لیکن گذشتہ چند برسوں سے وہاں نسبتاً امن کا ماحول ہے جس کی وجہ وہاں اٹل جی اور من موہن سنگھ کے دور میں شروع ہوا سیاسی عمل ہے دہشت گردی سے لڑنے کے معاملے میں ہندوستان کا ماڈل ساری دنیا کے مشعل راہ ہو سکتا ہے۔جس نے عوامی جذبات اور امنگوں کی قدر کرتے ہوئے سیاسی عمل کے ذریعہ عوام کو راحت پہنچائی اور دہشت گردی کے وجو کا خاتمہ کیا۔آج ہندوستان میں جہاں جہاں دہشت گردی کے سائے پائے بھی جاتے ہیں تو اس میں پاکستان میں بیٹھے ٹھگو ں کی سازش اور خود اپنوں کی ناعاقبت اندیشی شامل ہے ورنہ ہندوستان عالمی برادری کو دیکھا سکتا تھا کہ انسانیت کے ذریعے ہی انسانیت کے سب سے بڑے ناسور دہشت گردی کو ختم کیاجا سکتا ہے۔
امریکی فوجیوں کے ہاتھوں القاعدہ اوسامہ بن لادین کو ہلاک کئے جانے کے امید تھی کہ ا القاعدہ کا شیرازہ بیکھر جائے گا اور دنیا سکون کی سانس لے سکے گی لیکن القاعدہ کے ہی جنگ جو داعش کے جھنڈے کے ساتھ ہو کر القاعدہ سے بھی بڑا خطرہ بن گئے ہیں وہ شام اور عراق علاقوں پر مشتمل خطوں میں اپنی خلافت قائم کرنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں جب کہ روس ،امریکہ اور پڑوسی عرب ملکوں پر مشتمل اتحاد انکے قلع قمع کی کارروائی کر رہا ہے امریکہ کی قیادت میں کئی ملکوں کی فضائیہ داعش کے قبضہ والے علاقوں پر بم باری کررہی ہے لیکن ابھی تک اسکی کمر توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے داعش کو اسلحہ ،سرمایہ،نفری طاقت وغیرہ کہاں سے مل رہا ہے یہ ایک معمہ ہے۔
عمومی خیال ہے کہ اسے سعودی عرب اور دیگر مسلم ملکوں سے درپردہ مدد مل رہی ہے۔لیکن داعش کے خلاف عالمی اتحاد میں سعودی عرب بھی شامل ہے اور خود داعش اور اس سے قبل القاعدہ سعودی حکومت کو غیر اسلامی قرار دیے کر اسے اکھاڑپھینکنے کی بات کرتے رہے ہیں۔حقیقی صورتحال بھلے ہی واضح نہ ہو لیکن داعش کی اسرائیل کی طرف سے مسلسل چشم پوشی اور فلسطینیوں کے حقوق کو لے کر اسکی خاموشی اس الزام کو تقویت تو پہنچاتی ہے کہ وہ صہیونی حمایت یافتہ تنظیم ہے جس کا مقصد مسلم ملکوں کو آپس میں لڑائے رکھ کر اسرائیل کو محفوظ رکھنا ہے۔داعش کا فوجی اعتبار سے مکمل قلع قمع وقت کی اہم ترین ضرورت ہے لیکن دہشت گردی کے عفریت سے انصاف کے قیام تک نجات حاصل نہیں ہو سکتی۔فی الحال فلسطین اور شام عالم اسلام کے سامنے سب سے بڑے سوالیہ نشان کے طور پر کھڑے ہیں۔فلسطین مسلہ کا جب تک منصفانہ اور ابرو مندانہ حل نہیں نکلتا اور جب تک شام کے مسلہ کا قابل قبول سیاسی حل نہیں نکلتا تب تک دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں انسانیت کو یوں ہی آنسو رلاتی رہے گی۔امریکہ اسرائیل کے دفاع کی بات تو بڑے زور دار انداز میں کرتا ہے لیکن کبھی فلسطینیوں کو انکے ہی گھر میں بسانے کی بات اس انداز میں نہیں اٹھاتا اس کا یہ دوغلہ پن صرف فلسطین میں ہی نہیں بلکہ دیگر مسلم ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہے اور یہ فساد کی اصل جڑ ہے۔چچاسام اپنے مفاد میں ملکوں اور ان کے سربراہوں اور متعدد تنظیموں کو استعمال کرتے رہے ہیں۔صہیونیوں کی مکارانہ سیاست اور امریکی عیاری پوری دنیا خصوصاً عالم اسلام کے لئے ہمیشہ خطرہ رہی ہے۔شام کا مسئلہ بھی خاصہ الجھا ہوا ہے گذشتہ دنوں ہوئی عالمی کانفرس میں پہلی بار ایران کو بھی شامل کیا گیا یہ بہت ضروری بھی تھا کیونکہ صدر بشرلااسد کو ایران اور روس کی غیر متزلزل حمایت حاصل ہے۔جب امریکہ دیگر عرب اور یوروپی ممالک بشرلااسد کو ہٹا کر وہاں سیاسی عمل شروع کرنے کی بات کرتے ہیں ظاہر ہے کہ اسی بات پردونوں طرف لوچ دار رویہ کے بغیر یہ مسلہ حل نہیں ہو سکتا۔
پیرس پر اس سے قبل وہاں کے ایک اخبار میں آنحضرتﷺکے کارٹون کی اشاعت کو لے کر اس اخبار کے دفتر پر حملہ ہو ا تھا جس میں متعدد صحافیوں سمیت خاصی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔فرانس ایک کھلامعاشرہ ہے جہاں ہر طرح کی آزادی بھی ہے اور کچھ پابندیاں بھی مثلاً نقاب ،کرپان ،کراس وغیرہ مذ ہبی نشانات و علامات کے استعمال پر لیکن آزادی رائے ، آزادی خواتین کو جمہوریت کی روح سمجھا جاتا ہے۔یہ باتیں بھلے ہی اسلام پسند لوگوں کو پسند نہ آئیں لیکن اس مختلف النو ع دنیا میں اعتدال پسند اور کٹر پسند سبھی طرح کے عناصر کو رکنا کے اس لئے نا پسندیدہ اور قابل نفرت باتوں کو بھی نظرانداز تو کرنا ہی پڑے گا پْر تشدد احتجاج کسی مسلہ کا حل نہیں ہے حسب ضرورت احتجاج کاپرامن راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے اور ضرورت بھی۔پیرس میں مرنے ونے والے بے گناہوں کو ادارہ خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔
جواب دیں