تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
اقتدار کا نشہ بے حدخطرناک ہوتا ہے۔ یہ انسان کو بھگوان بنادیتاہے۔ یہ بندے کو خدا بنا دیتاہے۔ اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس کی حکومت دائمی ہے مگریہ اس کی غلط فہمی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے نمرود، شداد، فرعون اور راون بھی اپنے انجام کو پہنچتے ہیں اور ان کے اقتدار کا عبرتناک خاتمہ ہوتا ہے۔آزادی کے بعد بھارت میں کسی بھی حکمراں کو اٹھارہ سال سے زیادہ حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی پانچ سال حکومت کر چکے ہیں اور دوسری ٹرم کی حکومت سنبھالے ہوئے ہیں۔ انھیں عوام نے بہت امیدوں اور تمناؤں کے ساتھ ملک کی باگ ڈور سونپی تھی اور ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘کے نعرے پر بھروسہ کیا تھا مگر اب تک ایسا محسوس نہیں ہورہا ہے کہ ملک میں کہیں بھی ترقی ہورہی ہے۔ ہاں ترقی ہوئی ہے تو مہنگائی میں،بے روزگاری میں، بے کاری اور کساد بازاری میں۔ جو پیاز دس روپے کلو فروخت ہوتا تھاآج اس کی قیمت بعض صوبوں میں دوسوروپئے کلو تک پہنچ چکی ہے۔ جوسبزیاں بازار میں دس روپئے کلو فروخت ہوتی تھیں وہ بھی پچاس، ساٹھ روپے کلو تک پہنچ چکی ہیں۔ کساد بازاری کے سبب لاکھوں افراد اب تک نوکریاں گنواچکے ہیں اور لاکھوں کا روزگار خطرے میں ہے۔ان مسائل سے توجہ پھیرنے کے لئے شہریت قانون لایا گیا ہے اور این آرسی کا راگ چھیڑا گیا ہے مگر پھر بھی جھارکھنڈ میں یہ ٹوٹکا کام نہ آیا اور بھاجپا کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے پہلے وہ ہریانہ اور مہاراشٹر میں نقصان اٹھا چکی ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ جو خود کوناقابل تسخیر سمجھتے تھے،وہ اب قابل تسخیر ہوچکے ہیں۔ عوام نے انتباہ دے دیا ہے اور اگر انھوں نے خود کو درست نہیں کیاتو وہ اقتدار سے بے دخل بھی ہوسکتے ہیں۔خاص بات یہ رہی کہ جہاں جہاں نریندر مودی اور امت شاہ جھارکھنڈ میں گئے، وہاں وہاں بی جے پی کو شکست ملی۔
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
شکست کا آغاز
مودی۔۔مودی۔۔ مودی۔۔ یہ وہ نعرہ ہے جو آپ اکثر پی ایم مودی کی مٹینگوں میں لگتے ہوئے دیکھتے ہوں گے۔ نریندر مودی کی شبیہہ ایک ایسے لیڈر کی بن گئی تھی جو ہمیشہ جیت جاتا ہے، جو سپرہیرو کی طرح ناقابل تسخیر ہے، کبھی نہیں ہارتا مگر اب ہارنے کا سلسلہ بھی چل پڑا ہے۔ مودی اور شاہ کے پوری طاقت لگانے کے باوجود مہاراشٹر اور ہریانہ میں بھاجپا کو نقصان ہوا جب کہ جھارکھنڈ میں ہاتھ سے اقتدار نکل گیا۔ یہاں بھاجپا مخالف جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور کانگریس اتحاد کو جیت ملی۔ خاص بات یہ ہے کہ اس صوبے میں مودی۔شاہ نے شہریت ترمیمی ایکٹ، این آرسی اور رام مندر کو خوب بھنانے کی کوشش کی تھی مگر ووٹروں کو لگا کہ ان ایشوز سے ان کا پیٹ نہیں بھرسکتا۔ مودی مخالفین کہہ رہے ہیں کہ مودی کی’گھرواپسی‘ کا آغاز ہوچکا ہے، حالانکہ بھاجپائی اس بات کا ماننے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی اب بھی ناقابل تسخیر ہیں۔ ان کی ٹکر کا کوئی نیتا ملک میں موجود نہیں ہے۔
مودی کاجادو ٹوٹ رہا ہے؟
2014 میں، جب مودی کی لہر اٹھی اور وہ بھاری اکثریت سے جیت کر آئے، تو سب کو یقین ہوگیا کہ اب پی ایم مودی کو شکست دینا ممکن نہیں ہے۔ ان کی قیادت میں، بی جے پی نے آہستہ آہستہ پیر پھیلاتے ہوئے ملک کے بیشتر صوبوں میں جیت پائی اور حکومت تشکیل دی۔ اس کے بعد جب لوک سبھا انتخابات 2019 ہوئے تو، پی ایم مودی نے اس سے بھی زیادہ ووٹوں اور سیٹوں سے واپسی کی۔ کہا جاتا تھا کہ 2014 میں مودی کی لہر تھی، لیکن 2019 میں مودی کی سونامی آگئی۔اسی بنیادپر ساکشی مہاراج نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ آخری لوک سبھا الیکشن تھا، اب 2024 میں کوئی الیکشن نہیں ہوگا، مودی ہمیشہ رہیں گے۔اب تازہ رپورٹ یہ ہے بی جے پی کی طاقت میں اضافہ رک گیا ہے۔ 2014 سے 2018 تک ان کی قوت میں مسلسل اضافہ ہوا، لیکن اب نہیں ہورہا ہے۔ 2014 کے بعد، بی جے پی کی قوت اتنی بڑھی کہ اس نے ملک کے 71 فیصد نقشے پر قبضہ کرلیا تھا یعنی اس کی حکومت قائم ہوگئی تھی، لیکن اب اس کی حکومت محض 40 فیصد علاقوں میں محدود ہوکر رہ گئی ہے اور جھارکھنڈ میں ہار کے بعد اس میں بھی کمی آئی ہے۔
سمٹ رہی ہے بھاجپا کی زمین
2014 میں، بی جے پی کی حکومت صرف 7 ریاستوں میں تھی۔ مودی لہر کی وجہ سے 2015 میں، یہ 13 ریاستوں تک پہنچ گئی۔ 2016 میں یہ 15 ریاستوں تک پہنچ گئی اور 2017 میں بھگواسرکار کی توسیع 19 ریاستوں تک ہوگئی نیز بی جے پی 21 ریاستوں میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہی،جب کہ کانگریس صرف 3 ریاستوں تک سمٹ کر رہ گئی۔ اس کے بعد کہا جانے لگا کہ آنے والے کچھ سالوں میں بھارت کاپورا نقشہ ہی بھگوا ہو جائے گا اور ملک ’کانگریس مکت‘ ہو جائے گا مگر ایسا ہوا نہیں۔ بھاجپا کا وجے رتھ 2018 میں رک گیا۔ لگاتار فتوحات کے پرچم لہرانے والی بی جے پی کو اب شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی شروعات راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی شکست کے ساتھ ہوئی۔ دسمبر 2018 تک، ہندوستان کے نقشے پر بھگوارنگ کم ہوگیااور کانگریسی رنگ چڑھنا شروع ہوگیا۔ کانگریس کی حکومت چھ ریاستوں میں تھی، اب ساتویں ریاست جھارکھنڈ بن گئی ہے،جہاں اسے اقتدار ملا ہے۔ اگرچہ عدد کے لحاظ سے بی جے پی کی حکومت زیادہ ریاستوں میں ہے، لیکن وہ چھوٹی ہیں۔فی الحال 16 ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔اب مہاراشٹر سے بھی بی جے پی کی حکومت ختم ہوچکی ہے اور اگر رقبے کے لحاظ سے دیکھیں تو بی جے پی کی حکومت ملک کے 40 فیصد سے بھی کم حصے پر ہے جب کہ پہلے وہ 71 فیصد پر تھی۔
سوشل میڈیا پر بحث
بی جے پی کی جیت مسلسل جاری رہی، لیکن اب یہ رک گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی بحث شروع ہوگئی ہے۔ سوالات یہ اٹھ رہے ہیں کہ بی جے پی، جو طوفانی انداز میں جیت رہی تھی، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، کرناٹک (بعد میں بی جے پی کی حکومت بن گئی)، مہاراشٹراور اب جھارکھنڈ میں کیسے ہار گئی؟ جھارکھنڈ میں چند مہینے قبل بی جے پی کو 50فیصد ووٹ ملے تھے مگر اسمبلی میں اسے محض 33فیصد ملے۔ ہریانہ میں بھی حکومت جاتے جاتے بچی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ریاستوں میں بی جے پی ہار رہی ہے؟ مہاراشٹر کے کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہاں بی جے پی نہیں ہاری، بلکہ جیت گئی، لیکن شیوسینا نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ویسے یہاں بھی اس کی سیٹیں کم ہوئی ہیں۔
کون باقی بچے گا؟
اندرا گاندھی کے دور میں بھی یہی سوچ تھی کہ اب ملک میں کانگریس واحد پارٹی رہ جائے گی، باقی سب ختم ہوجائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہواکئی بار جاتے جاتے کانگریس آئی۔ اسی طرح بی جے پی بھی چھا گئی تھی مگر وہ بھی آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے اور ملک بھر میں پارٹیوں کا ایک قسم کا نیا توازن بن رہا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آنے والے وقت میں بی جے پی کا قبضہ بڑھتا ہے یا کانگریس دوبارہ ابھرتی ہے۔حالانکہ بھاجپائی مانتے ہیں کہ بی جے پی کی قوت صرف ریاستوں میں کم ہوئی ہے مرکز میں نہیں۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اسمبلی الیکشن ہارکر بھی بی جے پی کو لوک سبھا میں بڑی جیت ملی ہے۔
خدائی کے دن لدنے والے ہیں
آنے والے ایام بی جے پی کے لئے زیادہ مشکل ہوسکتے ہیں کیونکہ 2020ء میں پہلے دہلی اور پھر بہار میں اسمبلی الیکشن ہے۔ دہلی میں اروند کجریوال کی مقبولیت اب بھی برقرار ہے اور عوام انھیں اقتدار سے بے دخل کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں پڑتے۔ انھوں نے مفت سوغات خوب بانٹی ہے اور ووٹروں کو لگتا ہے کہ اگر کجریوال کی سرکار گئی تو مفت بجلی، مفت پانی، مفت علاج اور تعلیم جیسی سہولتیں بھی چلی جائیں گی۔ ایسے میں اگر بی جے پی کودہلی اسمبلی الیکشن میں تین سے زیادہ سیٹیں مل جائیں تو اس کی کامیابی ہے۔اسی سال اکتوبر مہینے میں بہار اسمبلی کا الیکشن بھی ہے۔ بہار کا ہی ایک حصہ تھا جھارکھنڈ جہاں بی جے پی کو تازہ تازہ شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ بہار اور جھارکھنڈ والوں کی سوچ میں زیادہ فرق نہیں ہے لہٰذا ابھی سے بھاجپا کے لئے بہارکی ڈگر مشکل لگتی ہے۔حالانکہ یہاں اسے نتیش کمار کا ساتھ ملا ہواہے اور نتیش کمار کی امیج کام کرنے والے شخص کی ہے مگر اس کے باوجود صورت حال مشکل لگتی ہے۔ حالات سازگار رہے تو جموں وکشمیر میں بھی اسمبلی انتخابات ہوسکتے ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کہیں سے بھاجپا کے لئے اچھی خبر کی امید نہیں ہے۔ نریندر مودی اور امت شاہ جو اپنے اقتدار کو دائمی سمجھ بیٹھے تھے اور نمرودی فیصلے کر رہے تھے، عوام نے ان کے اقتدارکو سمیٹنا شروع کردیا ہے۔یقینا اب انھیں احساس ہوچلا ہوگا کہ ان کی خدائی کے دن گنے چنے ہی بچے ہیں۔
مجھے اب ہوش آتا جارہا ہے
خدا تری خدائی جارہی ہے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں