یہ جو مزدورہیں کتنے مجبور ہیں

  مفتی سیدابراہیم حسامی قاسمیؔ
  استاذ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد

ہاتھ اور پاؤں بتاتے ہیں کہ مزدور ہوں میں 
اور ملبوس بھی کہتا ہے کہ مجبور ہوں میں 
فخر کرتا ہوں کہ کھاتا ہوں فقط رزق حلال
اپنے اس وصف قلندر پہ تو مغرور ہوں میں 
سال تو سارا ہی گمنامی میں کٹ جاتا ہے 
بس یکم مئی کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں 
بات سنتا نہیں کوئی میری ایوانوں میں 
سب کے منشور میں گو صاحب منشور ہوں میں 
اپنے بچوں کو بچا سکتا نہیں فاقوں سے 
ان کو تعلیم دلانے سے بھی معذور ہوں میں 
یوم مزدور ہے چھٹی ہے مرا فاقہ ہے 
پھر بھی یہ دن تو مناؤں گاکہ مزدور ہوں میں 
مجھ کو پردیس لیے پھرتی ہے روزی واصف
اپنے بچوں سے بہت دور بہت دور ہوں میں 
مزدوری کا پیشہ بہت ہی دشوار ترین پیشہ ہے، مزدور ہر معاملہ میں بنیادی کردار کرتے ہیں؛ مگر ان کی محنتیں خاک وعرق میں بہہ  ہوجاتی ہیں، ان کی مشقتیں کبھی عمارتوں کی بنیاد ں میں دفن ہوجاتی ہیں تو کبھی خلاؤں کا سفر کرتے ہوئے گوشہئ گمنامی کے حوالہ ہوجاتی ہیں، ہر کام کی کامیابی میں مزدوروں کا بڑا کردار ہوتا ہے، مزدور طبقہ اپنے خون پسینہ کو خاک میں ملا ڈالتا ہے اور وہی سب کی نظر میں ایک گھسٹا پٹا طبقہ تصور کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ رہنے کو لوگ تیار نہیں ہوتے، ان کے ساتھ کھانے کو عیب تصور کیا جاتاہے، ان کے ساتھ ہنسنے بولنے کو وقار کے خلاف محسوس کیا جاتا ہے، ان کی ضروریات کا خیال کرنے کو حماقت گردانا جاتا ہے، ان کے دکھ درد سمجھنے کو ناعاقبت اندیشی جیسے طعنوں سے نوازا جاتا ہے، ان کے ساتھ تعلقات کو اپنی عزت و شہرت کے لیے ایک کلنگ ماناجاتا ہے، آخر یہ کیا فلسفہ ہے؟ اس زہریلی سوچ نے انسانی بنیادوں کو پامال کردیا ہے، اس منحوس نظریہ نے انسانیت نوازی کی قدروں کو گھٹا کر رکھ دیا ہے، اس بے معیار پیمانے نے امیر و غریب، بڑے وچھوٹے، مفلس ورئیس اور زردار وفقیرکو خوب تولنے کی کوشش کی ہے،ایسی گھٹیا نظروفکر کے نتیجہ میں لوگ جسمانی اعتبار سے تو انسان اور نظریاتی اعتبارسے حیوان ہونے لگ گئے، ہمدردی کے جذبات ماند پڑگئے، غریبوں کے خون پر اپنے خوشی کے دئیے جلانے آسان ہوگئے، مجبوروں کے آنسوؤں کو ریا اور تصنع قرارد یا جانے لگا، ا ن کی سسکیوں کو نظرانداز کیا جانے لگا، ان کی ہچکیوں کا مزاق اڑایا گیا، ان کی پگڑیوں سے جوتوں کی دھول صاف کروائی گئی، عزت کے دوبول ان کے لیے انمول ہوگئے، سوکھی روٹیاں ان کا مقدر بن گئیں، لوگوں کی گالیاں ان کی سماعتوں کا ایک لازمہ بن گیا، حقارت آمیز جملے ان کے لیے مزدوری ملنے کے اشارئیے ہوگئے،اب وقت نے تو یہاں تک کروٹلینا شروع کردیا کہ راستہ چلتے بیل،بکریاں، خنزیرا ورکتے تک ڈرائیوروں کو نظر آنے لگے؛ مگرانسانی بدن لیے ہوئے مزدوران کی آنکھوں سے اوجھل ہونے لگ گئے، راستہ میں پڑی کسی بوری پر گاڑی چلانے کی ہمت نہ کرنے والے ڈرائیور  اب بے لگام سڑکوں پر  چلنے والے مزدوروں کوروندنے سے بھی نہیں جھجک رہے ہیں،، وہ زندہ رہیں یا موت کی گھاٹ اترجائیں، ایک بے حس وبے جان سامان کی طرح انہیں ٹرکوں کے بالائی حصہ پر لاد کر ایک ریاست سے دوسری ریاست منتقل کیا جارہا ہے،ان کے مزاج ومذاق تو کجا ان کی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کی جارہی ہے،  ان کی چیخ وپکار سننے والا اب کوئی نہیں رہا، حکومتوں نے آنکھیں بند کرلی ہیں، وزیروں نے ان کے مسائل سننے سے بچاؤ کے لیے اپنے گوش سماعت پربے حسی کا پہرہ دے رکھا ہے،ان کی درد بھری داستان کرسیوں تک پہونچنے سے قاصر ہے، ان کی آواز میں اتنی اڑان نہیں کہ ایوان بالا کے ممبران تک رسائی کر سکے، ارے آواز میں اتنی بلندی آبھی کیسے سکتی ہے کہ اس  نظر انداز طبقہ کے پاس نہ اپنے کھانے پینے کا درست نظام ہے اور نہ ہی ضروریات زندگی میسر، یہ  بچی  زندگیہی کو بچالیں تو بسا غنیمت ہے، ان کی آواز میں نہ دم رہا اور نہ ہچکیوں وسسکیوں میں کچھ خم رہا، اب وہ مردہ بشکل زندہ اپنیزندگی کے دن کاٹ رہے ہیں، جس مزدوری کی فکر نے انہیں وطن چھوڑنے اورشہرو ں کی خاک چھاننے پر مجبور کیا تھا، شہروں کی جس رنگارنگی نے ان کی آنکھوں کوخیرہ کر رکھا تھا، اب وہ ایک سراب کے سوا کچھ نہیں، آج انہیں اپنے ہی وطن کی مٹی سے بوئے وفا آ رہی ہے، آج احساس ہورہا ہے کہ ہم چاہے بھوکے سوکھے نہ رہیں؛ اگراپنے وطنمیں رہتے تو اطمینان و سکون کی سانس لے پاتے، مزدوروں کے ساتھ نارواک سلوک کی ایک طویل داستان ہے، یہ کوئی نیا سلسلہ نہیں او رنہ کوئی نیا مسئلہ ہے؛ بلکہ مزدور طبقہ ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
ملک کی موجودہ سنگین صورت حال میں مزدوروں کے دکھے دلوں سے یہ  صدابلندہورہی ہے کہ کوئی ہے کہ جس کے گوش سماعت کو ہماری سسکیاں، ہچکیاں اور بولیاں ٹکرارہی ہوں؟ کوئی مزد وروں کے حال پر ترس کھانے کے لیے تیار ہے؟ارے ان مزدوروں کے پاؤں کے آبلوں کو کوئی دیکھ لیتا، ان کے ماتھے سے ٹپکنے والے پسینہ کو محسوس کر پاتا ہے، ان کے پاؤں سے خون چھلنی سا ٹپک رہا ہے، ان کے آنکھوں کو دیکھ کر کہیے کہ یہ نیند کا خمار ہے، یا غموں کا انبار ہے، یا خونی آنسؤوں کا سمندر ٹھاٹے مار رہا ہے، یا اشک سوکھ کر جم جمائے ہیں، ان کے پیروں میں یہ پُھلاؤ کیسا ہے؟ سوجن ہے یا راہ چلنے کا دوشانہ،ارے یہ اس ٹرک میں جانوروں اور بکروں کی طرح انسانوں ہی کو بھرا جارہا ہے؟ اس میں تو ایک دوسرے پر اڑے پڑے ہیں، مجبوری اتنی ہے کہ مرد وعورت کی تمیز بھی ختم ہوگئی، بیوی اپنے شوہر کے قریب ہے یا کسی اجنبی کے؟ بچے اپنی آغوش مادر میں ہیں یا کسی کونے میں، اس ٹرک میں اتنے لوگ سما سکتے ہیں یا نہیں؟ ان فکروں کااب وقت کہاں؟ ان باتوں پر نظر کرنے کی مہلت کہاں؟ ہم لاچاروں کو کون پوچھنے والا ہے، بس جان بچ جائے اور ہم اپنے وطن چلے جائیں یہی غنیمت ہے، یہ سڑکوں پر ہی کیوں سو رہے ہیں، ان کے چہروں پر اداسی کیوں ہے، ان معصوم اور ننھے شہزادوں کی آنکھوں میں اشک کیسے؟ ان کا کیا قصور ہے؟ ان کے چہروں پر بے چینی کیسی؟ ان کے معصوم ماتھوں پر بَل او رشکن کیسے؟ارے ان کے پاؤں میں چپل تک نہیں، ارے یہ بھی دیکھو ماں نے اپنے چپل اپنے معصوم لخت جگر کو پہناکرخود دھوپ کی تپش اور راستہ کی سنگلاخی کو برداشت کر رہی ہے، بس فکر یہ ہے کہ میرے لخت جگر کو کوئی کانٹا نہ چبھ جائے، کوئی پتھر نہ لگ جائے، کوئی کنکر زخمی نہ کردے، اب دوسری جانب نظر پڑی تو اشک آنکھوں سے تھم نہ سکے اور تھم کیسے سکتے ہیں کہ یہ پانچ سالہ معصوم ہے اور اس کو دیکھو اس کی عمر تو صرف چارسال ہے ار ے اس کو بھی دیکھ لوکہ اس کی عمر تو صرف تین سال ہے، یہ بھی ننھے ننھے قدم دوڑا رہا ہے اور روتا جارہا ہے، ارے دیکھو تو سہی اس معصوم کے پاؤں میں چیل بھی نہیں، اس کی ماں بھی ننگے قدم پیدل ہی چل رہی ہے، ارے اس معصوم کے پاؤں میں بھی چیل نہیں ہے، ماں لاچاری سے چور ہوکر اپنے لخت جگر کے پاؤں میں پَرنی(پلاسٹک کَوَر) پہنارکھا ہے، ارے ہاں صاحب! ہم غریبوں کے لیے یہ پلاسٹک کوَر کسی جوتے سے کم نہیں،  ارے اس معصوم کو دیکھو، نیند کی تاب نہ لاسکا، اورچلتے سوٹ کیس پرہی سو گیا، اس ماں کی حالت زار بھی تو دیکھو، ایک کاندھے پر یک بچہ، دوسرے کاندھے پر دوسرا بچہ اور ہاتھ میں وزنی جھولا، ہائے میرے رب!آزمائش نے انتہا کردی،ان معصوم بوڑھی ماؤں کو دیکھو! جن کے نہ ہاتھ میں بوجھ اٹھانے کی سکت ہے اور نہ پاؤں میں چلنے کی قوت، ان کے جھرّی دار چہرے اور بھی زیادہ کیوں مرجھا گئے ہیں؟ ان کے جوان بیٹوں کے دیکھے خواب آج چکنا چور ہوگئے،وقت نے ان کے بیٹوں کی جانب سے ملنے والی راحت کے بجائے خود انہیں مبتلائے مصیبت کرڈالا،خود میں راستہ چلنے کی طاقت تو نہیں؛ مگر لپلپلاتے لب یہ کہہ رہے ہیں کہ بیٹے! چلے چلو! ہماری منزل زیادہ دور نہیں ہے، یہ زندگی اور جیون ہے، خوشی ہو یاغم ہمیں جینا ہی پڑے گا، اگر زندگی کا کڑوا زہر اسی کوکہتے ہیں تو ہمیں پینا ہی پڑے گا، اس زہر کو پی کر اگر منزل آجاتی ہے تو ہم بھی کسی غازی اور بازی گر سے کم نہیں؛ اگر اس زہر نے ہمیں موت کی نیند سلادیا تو پروردگار ہماری اس دنیا کی تکلیف کو آخر ت کی راحت میں تبدیل کردے گا، ہمیں یا تو ہمت سے جینا پڑے گایا بزدلی کی موت مرنا پڑے گا؛ مگرہاں میرے بیٹے! میں نے اپنے خون سے بنا دودھ تجھے بزدل بنانے کے لیے نہیں پلایا، ایک باہمت، جفاکش اور فولاد شکن جوان بنانے کے لیے تجھے دودھ پلایا تھا، اگر تو بزدل ہوجائے تو ہماری ان قربانیوں کا کیا ہوگا؟ بیٹا! یہ وقت تو تم آج دیکھ رہے ہو، جب تم چھوٹے تھے، تمہیں دودھ پلانے کے لیے بھی ایسی ہی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا،، بیٹا! وہ کھیت وکھلیان مجھے یاد آرہا ہے جس میں مزدوری کر کے میں نے تمہارے ننھے لبوں پر مسکان لائی تھی، تمہارے ہاتھوں میں کھلونے آئے تھے، تمہارے پاؤں میں سیٹی والا جوتا آیا تھا، بیٹا! ہمت نہ ہارو، ہمارا سوائے خدا کے کوئی نہیں، یہ بے وفا دنیا ہمارے ساتھ کیا وفا کرے گی، اگر کوئی رحم کرسکتا ہے تووہ بس خدا کی ذاتہے،  ادھر بیویاں اپنے شوہر وں سے گلہ کر رہی ہیں کہ آخر آپ نے کیسی آزمائش میں ہمیں ڈال دیا؟  کیاہمیں شہر یہی دن دکھانے کے لیے لایا تھا؟شہر کی خوشی اسی کا نام ہے؟پھر اچانک شوہر کے مرجھائے چہرہ کو دیکھ کر کہتی ہے کہ ارے آپ تو سنجیدہ خاطر ہوگئے، میں یوں ہی کہہ رہی تھی، میں نے ایسے ہی کہہ دیا تھا، دیکھو ہم نے کتنا بڑا فاصلہ طے کر لیا ہے، اب ہماری منزل تھوڑی ہی دور ہے، پھر ہم اپنے وطن چلے جائیں گے، ہمارے بچوں کو ان کی دادی اور نانی ماں ہمسے چھین کر اپنے سینے سے چمٹالیں گی، کتنا پیارا سماں ہوگا؟کیسا دلفریب منظر ہوگا؟کیسی محبت جاگے گی؟ ادھر بچے رو تے روتے کہتے جارہے ہیں، اماں بھوک لگی ہے، بابا کچھ کھانے کی چیز دو نا، اسی کشمکش میں وہ راہ گیر مزدور کیا سوچ رہا ہوگا، ادھر ماں کا بوڑھاپن، ادھر بیوی کی لاچارگی، ادھر بچوں کا بلبلانا، کاش ایسی آزمائش دیکھنے سے پہلے ہی موت کی نیند سوجاتا، یہی سوچ وفکر نے اور نہ رکنے والے قدم نے اسے منزلوں کا سفر طے کرادیا، وہ بچوں کو اپنے شانوں کا جھولا بنا کر سلا رہا ہے، ایک طرف بیوی اور دوسری طرف شوہر نے اپنے دوش ناتواں پرلکڑی کا جھولا بناکر اپنے شہزادوں کواس میں سلا کر جانب منزل رواں ہیں، ارے کیاان مزدوروں دھوپ نہیں لگ رہی ہے؟ ان کے سر گرم نہیں ہورہے ہیں؟دھوپ کی چلچلاہٹ ان میں چڑچڑاہٹ پیدانہیں کر رہی ہے؟ ن کے قدموں کو گرمی اور دھوپ کی تپش نہیں پکڑ رہی ہے، ہاں ہاں کیوں نہیں! سب کچھ ہورہا ہے؛ مگر مزدوری اور مجبوری تو اسی کا نام ہے، دکھ سمجھنے والا کون ہے؟ان  مزدوروں نے تو دھوپ ہی کو اپنا سائبان بنا رکھا ہے کہ  ہمارے سروں پر کچھ نہیں، دھوپ کا تو سایہ ہے، شارب مورانوی نے کہہ پڑتا ہے کہ ؎
سروں پر اوڑھ کر مزدور دھوپ کی چادر
خود اسے اپنے سر پہ سائبان سمجھنے لگے
ان مزدوروں کو بڑے محلوں میں رہنے والوں کی طرح نرم بستر پر کروٹ بدل بدل کر نیند کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، انہیں نیند کی گولی کھانے کی ضرورت نہیں، ارے یہ اتنے تھک چکے ہیں کہ اب سڑک پر ہی نیند ان کا انتظار کر رہی ہے، انہیں نرم اور مخملی قالینوں کی ضرورت نہیں،یہ  لب سڑک بھی لیٹ جائیں تو نیند ان کا استقبال کرلے، واہ منور رانا تم نے کیسا شعر کہا، جو کچھ نہ کچھ وقفہ بعد زندہ ہوجاتا ہے کہ؎
سو جاتا ہے فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر
مزدور کوئی نیند کی گولی نہیں کھاتا
ان مزدوروں کے لب سڑک سونے پر کوئی شور نہ کرے، ان کی نیند میں کوئی خلل نہ کرے، ان کے آرام میں کوئی دراڑ نہ ڈالے، یہ بڑے تھکے ہیں،ان کے سر بوجھ سے ذرا ہلکے ہوئے ہیں، ان کے شانوں میں کافی درد ہے، چلتے چلتے ان کی کمر اکڑ چکی ہے، ان کی آنکھوں نے نیند کے جوش مارتے دریا اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں، ان کی مجبوری انہیں ہرجگہ خواب گاہ بنانے پر مجبور کر رہی ہے، کوئی یہ کہہ کر ان کو عار نہ دلائے کہ یہ بیچ سڑک پر سو رہے ہیں اور شور نہ کرے اور شور کیسا؟ گاڑیو ں کا شور، ہارنوں کا شور، باتوں کا شور،تھکاوٹ اورغنودگی نے سب شور کو ختم کردیا، نفس انبالوی نے بھی سچ کہا تھا کہ؎ 
اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا
بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں 
ارے نیند بھی کیسی کہ دیکھو ان مزدور وں نے تھک ہار کر ایسا سویاہے کہ بعض نے تو ہمیشہ کے لیے سونے کی نیت کرلی ہے، غم زندگی نے اس درجہ لاچار کر دیا کہ چلتے چلتے ٹرین کی پٹریوں پر ہی محو خواب ہوگئے اور شوق وطن ایسا نرالا کہ اس امتیاز کی بھی تمیز نہ رہ سکی کہ کہاں سونا ہے اور کہاں سے بچنا ہے؟ مجبوری نے ایسا تھکا دیا کہ ٹرین کی پٹریوں کا بھی احساس جاتا رہا اور وہیں پر محو خواب ہوگئے، پتہ نہیں نیندکیسے امنڈ کر آئی؟ آنکھوں نے کیسے خواب دیکھنے شروع کردئیے؟ نیند اور موت کا کیسارشتہ جڑ گیا؟ ادھر بہن بیٹیاں انتظار میں راہ تک رہی ہیں، مگر انہوں نے راہ چلنے اور مجبوری کی ایسی تھکن اوڑھ لی کہ اس چادر کو ہٹاکر اپنا چہرہ دکھانا بھی گوارا نہیں کیا، چیختی چلاتی ٹرین کی ہاہاکار آواز بھی ان کی نیند میں فرق نہ لا سکی، اور وہ کر تے بھی تو کیا کرتے، مال دار وزدار ان کی مجبوریوں کودیکھ کر سوائے تماشہ کے او رکیا بناتے؟ ان کی ویڈیوگرافی کے علاوہ اور کیاکرتے؟ ان پر میڈیا کی گرم بازاری چل پڑتی، ان کے نام پر اینکر اورڈبیٹکر اپنی روٹیاں توڑتے اور جیب بھرتے، خیر ریل گاڑی آئی اور سب مجبور مزدورں کے چیتھڑے اڑا گئی، صبح دیکھا تو صرف گٹھریوں اور بکھری پگڑیوں کے علاوہ اورکچھ نہیں بچا، عمران پرتاب گڑھی نے سچی ترجمانی کی ؎
وہ جو مزدور تھے کتنے مجبور تھے
کس قدر درد میں نیند میں چور تھے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

20مئی2020(ادارہ فکروخبر)

«
»

مجتبی حسین ، ایک تاثر ایک احساس

نکمی حکومت اورمرتے ہوئے مزدور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے