جانے والے تو واپس آنے سے رہے۔ اس لئے سلمان کو بری کردینا چاہئے۔ عامر خان نے کہا کہ مگر میں اسے غلط سمجھتا ہوں۔ اس لئے کہ ہم یا وہ اور سب جو فلمیں بناتے ہیں ان میں دکھاتے ہیں کہ جو خطاکار ہے اسے سزا ملی اور جو مظلوم ہے اسے ہرجانہ بھی ملا اور انصاف بھی۔ جب ہم دنیا کو یہ سبق دیتے ہیں تو ہمیں اس پر عمل بھی کرنا چاہئے۔
اسی عامر خان نے جو کہا وہ اس کے جذبات یا خیالات نہیں تھے۔ اس نے کہا کہ میری بیوی کو یہ فکر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کی بیوی ہندو ہے۔ اگر وہ یہ محسوس کررہی ہے کہ اس کا ہندو ہوتے ہوئے کسی مسلمان کا بیوی بننا ہندوؤں کو اچھا نہیں لگتا ہے اور اگر وہ آدتیہ ناتھ ممبر پارلیمنٹ اور بنے ہوئے دھرم گرو کی یہ بات پڑھتی یا سنتی ہے کہ اگر ’’لوجہاد‘‘ سے ایک ہندو لڑکی کے ساتھ مسلمان لڑکے نے شادی کی تو 100 ہندو لڑکوں کے ساتھ 100 مسلمان لڑکیوں کی شادی کراؤں گا۔ تو اس کا ڈرنا یا پریشان ہونا فطری بات ہے۔ مسئلہ اس کے بچوں کا ہے اور ایک ماں صرف اپنے بچوں کے لئے ہی سوچتی ہے اور ان کی ہی فکر کرتی ہے۔
شاہ رُخ خان نے بھی ایوارڈ کی واپسی پر کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا تو اُن کے جواب میں انوپم کھیر پوری فوج کے ساتھ مقابلہ پر آگئے تھے اور میڈیا چیخ پڑا تھا۔ اس وقت بھی مودی سرکار میں بھرتی کئے گئے منتری بول پڑے تھے کہ ’’کھائیں ہندوستان کا اور گائیں پاکستان کا‘‘ اور دوسروں نے بھی دل کے پھپھولے پھوڑے تھے۔ آج ملک کا ہر زعفرانی ہندو آستین چڑھاکر میدان میں آگیا ہے اور ان پر صرف اس لئے تیر برسا رہا ہے کہ وہ انہیں مسلمان سمجھتا ہے۔ نام شاہ رُخ خان یا عامر خان یا سلمان خان رکھنے سے سرکاری اندراجات میں تو بیشک مسلمان مانے جاتے ہیں۔ لیکن یہ مفتیان کرام اور مذہبی عالم بتائیں گے کہ ہندو بیوی کے ساتھ اس حال میں شوہر بن کر رہنے اور نسلیں بنا بناکر معاشرہ کو نئے نئے طریقوں سے گندہ کرنے اور بے حیائی، بے شرمی اور بدکرداری کی تشہیر کرنے کے بعد بھی کیا وہ مسلمان ہیں؟ اور کیا ان کی اولاد جو نام کے مسلمان باپ اور پوجا پاٹ کرنے والی ہندو ماں کی اولاد ہے وہ کیا ہے؟ مسلمان ہے یا ہندو ہے۔
عامر خان اپنے بارے میں خود ہی بتا سکتے ہیں کہ ان کی پریشانی کی وجہ کیا ہے؟ یہ تو نہیں ہے کہ وہ ’’کب کا ترک اسلام کیا‘‘ کے باوجود ہندوؤں کے نشانہ پر اس لئے ہیں کہ وہ انہیں مسلمان سمجھتے ہیں اور ان کی بیوی اس لئے پریشان ہے کہ وہ ہندو ہوتے ہوئے بھی ہندوؤں سے خطرہ محسوس کررہی ہے؟ اور ان کے بچے جو نہ ہندو ہیں نہ مسلمان انہیں نہ جانے کون کیا سمجھ کر اٹھا لے جائے؟ وہ جو دوسرے ملک کا دبی زبان سے ذکر کررہی ہے وہ پاکستان نہیں بلکہ یوروپ کا کوئی ملک ہوسکتا ہے یا دوبئی، شارجہ وغیرہ میں سے کوئی۔
ملک میں عدم رواداری یا عدم برداشت کی بات آتی ہے تو انوپم کھیر تو کشمیری پنڈتوں کی پوتھی کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور بھاجپا نیتا 1984 ء میں سکھوں کی لاشیں گنانا شروع کردیتے ہیں اور ہم دونوں کو اس لئے بے ایمان کہیں گے کہ ہم مسلمان جو ایک لاکھ کے قریب ان کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں ان کا کسی کی زبان پر نام بھی نہیں آتا۔ ہر ہندو کو داؤد ابراہیم، یعقوب میمن اور ٹائیگر تو یاد ہیں کہ ان کے بم دھماکوں سے 257 ہندو مرگئے تھے لیکن کسی رام زادے کو جسٹس کرشنا کی وہ رپورٹ یاد نہیں آتی جنہوں نے ہندو ہوتے ہوئے آٹھ سو سے زیادہ مسلمانوں کو ممبئی میں قتل کرنے کی تصدیق کی ہے اور لکھا ہے کہ شیوسینا، بی جے پی، وشوہندو پریشد، بجرنگ دل اور مقامی پولیس نے انہیں قتل کیا۔
داؤد ابراہیم کو تو ہندوستان کا سب سے بڑا دشمن ثابت کیا جارہا ہے جس پر صرف اور صرف 257 ہندوؤں کے مارنے کا الزام ہے اور اسے لاکر پھانسی دینے کی حسرت پوری کرنے پر ملک کا کروڑوں روپیہ خرچ کیا جاچکا ہے اور اربوں خرچ کرنے کے لئے حکومت بے قرار ہے لیکن آٹھ سو سے زیادہ مسلمانوں کے جو قاتل ممبئی میں سرکاری کرسیوں پر بیٹھے ہیں ان کے نام لینے سے بھی منھ میں چھالے پڑے جاتے ہیں۔
آج ہر ایوارڈ واپس کرنے والے کے رشتے اور ہر فکرمند کے عدم رواداری اور عدم برداشت کے اظہار پر تو انہیں مردہ کانگریس سے جوڑا جارہا ہے۔ لیکن کانگریس کے زمانہ میں 1993 ء میں مسلمانوں اور خاص طور پر اُترپردیش کے مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کو پکڑ پکڑکر سزا کیوں نہیں دی جارہی؟
اس وقت ہر بھگوا ہندو طعنہ دے رہا ہے کہ بھارت نے عامر خان کو کیا کیا دیا۔ یہ ان کی احسان فراموشی ہے جو وہ کررہے ہیں۔ اب اگر عامر خان وہ حساب پیش کریں جو انہوں نے انکم ٹیکس، حیثیت ٹیکس اور اپنی فلموں کے تفریحی ٹیکس سے اپنے ملک کو دیا ہے یا ان ہندوؤں کو دیا ہے جنہوں نے فلموں کے فروخت کے حقوق خریدے اور ان ہندوؤں کو دیا ہے جن کے سنیما گھروں میں ان کی فلم چلی اور انہوں نے دونوں ہاتھوں سے نوٹ بٹورے ہیں تو کیا پلڑا دیس کا نیچے جھکے گا جس نے عامر کو دیا؟ یا عامر کا جس نے اپنے ملک کو دیا اور ہندوؤں کو دیا؟
شاہ رُخ خان ہوں، سلمان خان ہوں یا عامر خان وہ کوئی رشوت دے کر فلم انڈسٹری پر نہیں چھائے ہیں بلکہ اپنی صلاحیت کے بل پر انہوں نے یہ مقام حاصل کیا ہے کہ انوپم کھیر سے ٹی وی A.B.P. کے نیوز ایڈیٹر سوال کرتے ہیں کہ آپ امیتابھ بچن کو بڑا مانتے ہیں یا شاہ رُخ خان کو؟ یہ وہی ملک ہے جس میں آزادی کے بعد یوسف خان کو دلیپ کمار بن کر ہیرو بننا پڑا تھا۔ کسی کو مینا کماری کسی کو مدھو بالا اور کسی کو کچھ اور۔ لیکن یہ صلاحیت کی بات ہے کہ آج ٹی وی ہو یا اخبار ہندوستان کی فلمی دنیا کے تین سب سے بڑے یہی خان مانے جاتے ہیں۔ اور پورا ملک انہیں مسلمان سمجھ کر ہرن مارنے پر بھی کٹہرے میں کھڑا کردیتا ہے۔ جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
عامر خان کے بارے میں بی جے پی کے وہ دو مسلمان سب سے زیادہ بول رہے ہیں جن کی شریک زندگی بھی ہندو ہیں اور ہر عورت کی طرح پوجا پاٹ پابندی سے کرتی ہیں جبکہ شاہ نواز سنا ہے کہ جمعہ کی نماز اور عیدین کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ رہے نقوی صاحب تو مولانا کلب جواد صاحب نے ان کے متعلق ایک بار یہ ضرور کہا تھا کہ ’اچھا یہ ہے کہ وہ اپنا نام مجبور عباس نقوی رکھ لیں کیونکہ وہ مختار تو کہیں سے کہیں تک نہیں ہیں۔‘
عامر خان کے پوسٹروں، ان کی تصویروں اور ان کے پتلون کے ساتھ جو کیا جارہا ہے وہ بھی اسی بیان کی وجہ سے تو کم ہے۔ ان کے مسلمان ہونے اور فلمی دنیا پر چھائے ہونے کی وجہ سے زیادہ ہے۔ اگر بات ان کے چند جملوں کی ہوتی تو جو اتنا شور مچا رہے ہیں وہ تو جسٹس کاٹجو کا نہ جانے کیا حشر کرچکے ہوتے جنہوں نے کہا تھا کہ میں گائے کا گوشت کھاتا تھا اور پھر کھاؤں گا؟ بات صرف یہ ہے کہ جو لوگ عدم برداشت اور عدم رواداری کا مظاہرہ کررہے ہیں یا مندر کے پجاری سے اعلان کرا رہے ہیں کہ اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہے اور جو ہزاروں ہندو دوڑ پڑتے ہیں وہ آر ایس ایس کے بنائے ہوئے ہیں اور انہیں یہی سکھایا گیا ہے کہ ذراسی افواہ پھیلادو اور نہ دیکھو نہ معلوم کرو بس ماردو۔ اور انہیں یہ بتادیا گیا ہے کہ مودی سرکار کے ہوتے ہوئے تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
ہر مذاکرے میں بی جے پی کے ترجمان کہہ دیتے ہیں کہ ہندو دانشور کو گولی مارکر اگر قتل کردیا تو کرناٹک کی کانگریسی سرکار قاتلوں کو پکڑتی کیوں نہیں؟ یا دادری کے گاؤں میں جو اخلاق کو شہید کیا گیا وہاں سپا کی حکومت ہے وہ پکڑے اور سزا دلائے۔ وہ یہ بات کہتے وقت بھول جاتے ہیں کہ آج تک مسلمان کو مارنے کے جرم میں کسی ہندو کو سزا نہیں ہوئی ہے۔ حکومت جس کی بھی ہو اور اس کے جھنڈے کا رنگ جو بھی ہو مگر وہ ہندو ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے اگر مسلمان کو مارنے کی سزا میں ہندو کو ماردیا تو پھر ان کا ہندو ہونا اور نہ ہونا کیا؟ ملک میں آج نہ جانے کتنے لوگ عامر خان کے انداز میں سوچ رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں ہم جیسے جو مسلمان رہ گئے ہیں یہ وہی ہیں جنہوں نے یہاں رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ حکمراں ہندوؤں کی کم عقلی ہے کہ وہ 20 کروڑ مسلمانوں کو اپنا نہیں سمجھتے اور دہلی یا بہار میں ذلیل ہونا گوارہ کرلیتے ہیں۔
جواب دیں