یہ دراصل اسلام اور مسلمانوں پر حملہ ہے

قتل و غارتگری کے یہ بدترین واقعات انتہائی حدتک قابل مذمت ہیں جنکی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ یعنی داعش نے لی ہے۔یعنی یہ سب اسلام کے نام پر ہواجو اور بھی قابل مذمت ،افسوسناک اور حد درجہ تشویشناک ہے،کیوں کہ یہ طریق کاراور یہ گھناؤنی حرکت اسلام کے بالکل خلاف ہے۔درندگی اور بربریت کے ان سلسلہ وار واقعات میں بدترین واقعہ پیرس کے ایک ہال میں پیش آیا جہاں تقریباًڈیڑھ ہزار افراد امریکی راک بینڈ کے ایک پروگرام سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اسی دوران چندنقاب پوش مسلح افراد نے وہاں گھس کراندھادھند گولیاں برسانا شروع کر دیا۔وہ چیخ چیخ کر کہ رہے تھے کہ ’یہ سب تمہارے صدر کی غلطی کا نتیجہ ہے‘ اسے شام میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے تھی۔ ان چار بندوق برداروں نے چند ہی لمحوں میں سو سے زیادہ افراد کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا اور سیکڑوں کو بری طرح زخمی کر دیا۔ پولس کے پہنچتے ہی تین حملہ آوروں نے خود کو خودکش دھماکہ سے اڑا لیا جبکہ چوتھا اور آخری دہشت گرد پولس کی گولیوں سے اپنے انجام کوپہنچا ۔
بندوق بردار دہشت گردوں کی دوسری ٹولی نے اس ہال سے چند سو میٹر کے فاصلہ پرایک ریستوراں کے قریب گولیاں برسائیں اور وہاں پانچ لوگوں کو خاک و خون میں نہلا دیا۔ اسی طرح ایک اور حملہ فرانس کے نیشنل اسٹیڈیم کے قریب ہوا۔ اسٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کے بیچ ایک دوستانہ میچ کھیلا جا رہا تھاجسے دیکھنے کے لئے فرانس کے صدر اور انکی کابینہ کے ارکان سمیت 80 ہزار شائقین موجود تھے۔ اسٹیڈیم کے باہر اچانک تین زوردار دھماکے ہوئے۔ زیادہ افرا تفری نہیں مچی لیکن صدر اور دیگر وی آئی پیز کو ہنگامی انداز میں وہاں سے نکالنا پڑا۔اسٹیڈیم کے ہی قریب ایک حملہ ایک جاپانی ریستوراں پر ہوا جس میں 18 افراد مارے گئے۔ایک اور حملہ ایک ایک کمبوڈین ریستوراں میں بھی کیا گیا جس میں دس افراد کے مارے جانے کی اطلاعات آئی ہیں۔ 
یہ سلسلے وار حملے انتہائی منظم انداز میں کئے گئے۔ پہلا حملہ شب نو بج کر بیس منٹ پر ہوا اور ساتواں اور آخری حملہ نو بجکرپچپن منٹ پر ہوا۔یہ وہ وقت ہے جب پیرس جیسا شہر اپنے شباب پر ہوتا ہے اور داعش کی جانب سے حملے کی دھمکیاں پہلے سے مل رہی تھیں۔ فرانس کی سکیورٹی ایجنسیوں کو ان کے ملک پرایک بار پھر خوفناک حملہ ہو سکتا ہے جس طرح اس سال جنوری میں گستاخانہ کارٹون شائع کرنے والی میگزین شارلی ہوبدو کے دفتر پر حملہ ہوا تھا جس میں سترہ افراد مارے گئے تھے۔ چنانچہ وہ پوری طرح الرٹ تھیں اور نگرانی بڑھا دی گئی تھی۔ اس سب کے باوجودصرف سات دہشت گردوں کے ذریعہ محض زائد از نصف گھنٹہ کے وقفہ میں سات الگ الگ مقامات پر اسقدر منظم اور مربوط حملہ کیاجانا ظاہر کرتا ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیم کتنی خطرناک ہوچکی ہے اور اب وہ سب کچھ کر گزرتی ہے جو چاہتی ہے ۔نیز یہ کہ اسکی سرگرمیاں عراق اور شام کی سرحدوں سے کافی دور نکل کر یوروپ تک پھیل چکی ہیں جو اس تنظیم کے اعلان کردہ ارادے کا حصہ ہے۔داعش کی انسانیت سوز حرکتیں پوری دنیا کے لئے باعث تشویش تو ہیں ہی،مگرخاص طور پر عالم اسلام اور دنیا کے دیگر حصوں میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے زیادہ باعث تشویش ہیں۔ بظاہر داعش کا نشانہ مغرب ہے لیکن اس کے حملوں سے سب سے زیادہ متاثراسلام اور مسلمان ہو رہے ہیں۔ پیرس پر حملے کو بھی دراصل اسلام اور مسلمانوں پر ہی حملہ کہا جائے گا۔ اسلام دشمن طاقتوں نے دہشت گردی کو کامیابی سے اسلام سے جوڑ دیا ہے اور پوری دنیا نے بہت حد تک اس مفروصے کو سچائی کے طور پر تسلیم بھی کر لیا ہے۔ ایسے میں داعش کے حملے اور اس کی دیگر حرکتیں غیرمسلموں کی اس سوچ کو مزید تقویت بخشتی ہیں کہ نعوذ باللہ اسلام دہشت گردی کی ہی تعلیم دیتا ہے۔ 
آج مسلمان مغرب میں بڑی تعداد میں آباد ہیں اور اپنی تعلیم اور لیاقت کی وجہ سے وہاں خوشحال ہیں اور قدر و منزلت کی نگاہ سے بھی دیکھے جاتے ہیں۔ مسلمان ایسے ملکوں میں بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں جہاں اکثریت غیر مسلموں کی ہے۔ آج اسلامی دنیا میں جو خلفشار مچا ہوا ہے اس کی وجہ سے بھی مسلمان دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔بعض مغربی ممالک قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے شام کے پناہ گزینوں کے لئے اپنے دروازے وا کئے ہیں۔ داعش کی حرکتیں ایسے تمام مسلمانوں کے لئے مستقبل میں کافی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ مغربی ممالک ان کے داخلے کو اگر ممنوع نہیں تو کم از کم اتنا پیچیدہ ضرور کر سکتی ہے کہ جس کے نتیجے میں ان ممالک میں ان کا داخلہ عملاً بند ہی ہو جائے۔اور جو مسلمان وہاں پہلے سے آباد ہیں ان کو ہر جگہ شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ 
داعش کے خلاف تمام بڑے ممالک فضائی کارروائی کر رہے ہیں۔ امریکہ نے تو اپنا بحری بیڑہ بحر عرب اور خلیج فارس میں تعینات کر رکھا ہے جہاں سے جنگی جہاز پرواز کرتے ہیں اور داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ سال سے چل رہا ہے ۔ اس کارروائی میں برطانیہ اور دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ فرانس نے بھی داعش کے خلاف اس جنگ میں اسی سال ستمبر میں شمولیت کی ہے۔ پیرس پر داعش کا حملہ فرانس کی اسی شمولیت کا انتقام ہے جیسا کہ دہشت گردوں نے حملہ کے دوران کہا۔ اس حملہ کے بعد یہ ممالک اب داعش کے خلاف اور قوت جھونکنے کی بات کر رہے ہیں۔زمینی حملے کی بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔ داعش کے خلاف دنیا کی کیا حکمت عملی بنتی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن مغربی ملکوں کا رویہ ابھی تک یہ رہا ہے کہ وہ ایک تنظیم کی سرکوبی کے لئے اسکے متوازی ایک اور تنظیم تیار کرتی ہے اور اسے اسلحہ فراہم کرتی ہے۔یعنی دہشت گردی کو کچلنے کے لئے دہشت گردوں کی ایک دوسری کھیپ تیار کرنے کی حکمت عملی پوری دنیا کے لئے نقصاندہ ثابت ہو رہی ہے۔ تمام ممالک کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 

«
»

ڈاکٹر وحید انجم کی انسانیت نواز افسانچہ نگاری

بہار کے عوام نے ادا کی ذمہ داری اب عظیم اتحاد کی باری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے