اس مرحلے میں دعوت صرف اپنے خاندان اور قریبی رشتے داروں تک تھی۔ اس کے بعد یہ دعوت اعلانیہ کی گئی مکّہ کی گلیوں میں دکان ومکان میں عکّاظ کے میلوں میں اور مکّہ کے اطراف سے آنے والے قبائل جو حج کے موقع پر جمع ہوتے تھے ان کے درمیان محمدؐ یہ دعوت کا کام شروع کیا۔
جب یہ دعوت پھیلنے لگی اس دعوت پر صحابہ اکرامؐ لبیک کہہ کر اس دعوت میں شامل ہورہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ دعوت مکّہ کے اندر پھیلنے لگی۔ لیکن اس وقت کے کفارومشرکین کے سرداروں کو یہ برداشت نہیں ہوا کیونکہ ان کو اس دعوت میں اپنی تجارت اور چودراہٹ کا خسارہ نظر آرہا تھا۔ اس لیے انھوں نے پہلے محمدؐ کو سمجھانے کی کوشش کی وہ اس دعوت کے کام سے بعض آجائے اور انھیں ڈرانے اور دھمکانے لگے۔ اس کے بعد محمدؐ اور صحابہ اکرامؐ پر ایک آزمائش کا دور شروع ہوا۔ ان لوگوں کو خوب پریشان کیا گیا۔ مکّہ کے اندر ان کا جینا دوبھر کیا گیا۔
تقریباً تیرہ سال تک محمدؐ اور صحابہ اکرام قریش کو دعوت دی لیکن جب معلوم ہوا یہ لوگ دعوت کو نہیں سن رہے اور مخالفت بڑھتی جارہی تو پھر محمدؐ اور صحابہ کو مکّہ سے مدینہ حجرت کرنے کا حکم ملا۔ پہلے تمام صحابہ اکرام گروپ کی شکلوں میں مدینہ پہنچے اور آخر میں محمدؐ ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ مدینہ حجرت کر گئے۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد مدینہ میں بھی اللہ کے رسولؐ کو سکون نہیں حاصل ہوا وہاں مدینہ کے اطراف جو یہودی قبائل تھے ان سے معاہدے کیے گئے اور منافقوں کا بھی ایک بڑا گروہ تھا جو محمدؐ اور صحابہ اکرام کے پیٹھ پیچھے چال بازیاں کرتے تھے۔
مکّہ سے ایک شاہراہ ملک شام کی طرف جاتی تھی جو مدینہ سے ہو کر گزرتی ہے اللہ کے رسولؐ نے اس شاہراہ پر صحابہ اکرامؓ کے دستے بھیج کر قریش کے قافلوں پر چھاپہ مارتے تھے۔ تاکہ قریش محمدؐ اور ان کے ساتھیوں کو پریشان نہ کرے ورنہ قریش کی تجارتی قافلے ان کی زد میں ہے۔ ۲ھ رجب کے مہینے میں عبداللہ بن حجشؓ کو بارہ ساتھیوں کے ساتھ مکّہ کے ایک بخلہ (مکّہ اور طائف کے درمیان)مقام پر بھیجا تاکہ وہ ان قافلوں پر نظر رکھ سکے اور اس کی اطلاعات ہم تک بھیجے۔ جب یہ دستہ وہاں پر اس راستے پر نگرانی کرتا ہے تو وہاں قریش کا ایک قافلہ آتا ہے جس پر یہ لوگ حملہ کر کے ان کو مال کو لوٹ لیتے ہیں اور اس قافلے کے ایک شخص کو قتل کردیتے ہیں جس کا نام عمر بن عزمی تھا۔ اس واقعے کی خبر جب قریش کو پہنچتی ہے تو وہ آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور بدلہ لینے پر اتر آتے ہیں۔
یہاں پر عبداللہ بن جحش قافلے کا مال لے کر اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں حاضرہ ہوتے ہیں تو محمدؐ ناراض ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے تمھیں صرف نظر رکھ کر خبر دینے کے لیے کہا تھا اور مال غنیمت جو لے کر آئے تھے اس کو بھی قبول نہیں فرماتے ہیں۔
یہ وہ حالات ہیں جو چل رہے تھے اس درمیان ۲ھ شعبان کو ابوسفیان ایک قافلہ لے کر ملک شام سے مکہ کی طرف روانہ ہوتا ہے جس میں تقریباً پچاس ہزار اشرفیوں کا مال ہوتا ہے۔ اس میں کافی سونا چاندی بھی ہوتا ہے۔ ابوسفیان کو اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہیں مدینہ والے راستے میں اس قافلے کو نہ لوٹ لے کیوں کہ قافلے کی حفاظت کرنے والے محافظ بھی کم تھے۔
ابو سفیان نے قریش کی طرف اپنے ایک آدمی کو بھیج کر مدد مانگی۔ جب قریش کو اس بات کی خبر ملتی ہے کہ ہمارا قافلہ خطرے میں ہے ۔
اس خبر کو سن کر مکّے میں 1300نوجوان پورے جوش وخروش میں مقابلے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ان کے پاس تقریباً 70؍ گھوڑے، 600زرین اور کثرت کے ساتھ اونٹ تھے۔ یہ لشکر پوری رسدوکمک یعنی اس وقت کے حساب سے پورے ہتھیاروں سے لیس ہو کر مدینہ پر چڑھائی کے لیے نکل پڑتا ہے۔
مدینہ میں بھی محمدؐ کو وحی کے ذریعہ یہ اطلاع مل جاتی ہے اگر تم لوگ نکلو گے تو لشکر یا قافلے میں سے کسی ایک چیز پالوگے۔ اللہ کے رسولؐ تمام انصار اور مہاجرین میں سے حضرت مقداد بن عمرؓ اٹھ کر کہتے ہیں اللہ کے رسولؐ آپ کا جو ارادہ ہے اس پر چل پڑیے ہم موسیٰ کی قوم کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے تم اور تمھارا خدا جا کر لڑو ہم نہیں آئیں گے۔
یہ بات سن کر اللہ کے رسولؐ ان کے لیے دعا خیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ کے رسول دوبارہ سوال دہراتے ہیں۔ ان کا اشارہ انصار کی طرف ہوتا ہے پھر انصار میں حضرت سعد بن معاذؓ کہتے ہیں آپ جس چیز کو چاہتے ہیں کر گزریے اگر آپ ہمیں سمندر میں کودنے کے لیے کہیں گے تو ہم کودنے کے لیے تیار ہیں۔ اس بات کو سن کر آپؐ بہت خوش ہوتے ہیں اور فیصلہ ہوتا ہے کہ ہم لشکر سے مقابلہ کریں گے۔
مدینہ میں اللہ کے رسولؐ کے ساتھ تین سو تیرہ صحابہؓ جن کے پاس دو گھوڑے، ساٹھ اونٹ جس پر بھی تین تین لوگ باری باری سواری کرتے ہیں اور تلواریں بھی سب کے پاس نہیں ہوتی تو اس رہی سہی قوت کے ساتھ آپؐ قریش سے مقابلے کرنے نکلے۔ مدینہ کے کچھ لوگوں کے دل میں ڈر پیدا ہوا کہ اتنی بڑی فوج کے ساتھ ہمار ا مقابلہ ہے جو پوری ہتھیاروں کے ساتھ لیس ہے۔ ان کی عقل یہ کہہ رہی تھی کہ یہ خسارے کا سودا ہے لیکن ’’اللہ تعالیٰ کو حق کو حق کر دکھانا تھا اور باطل کی جڑیں کاٹنی تھیں تاکہ حق حق ثابت ہو جائے اور باطل مٹ جائے۔ چاہیے یہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار گزرے‘‘۔
سنہ۶ھ ۱۲؍ رمضان کو مدینے سے ان صحابہ اکرام کے ساتھ جو تعداد میں ۱۶؍ رمضان کی رات کو بدر کے مقام پر پہنچتے ہیں اس رات کو اللہ کی طرف سے دو کرم اس لشکر پر ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ صحابہ اکرام اس رات کو اطمینان کی نیند سوجاتے ہیں، دوسری چیز اس رات کو بارش ہوتی ہے جس کی وجہ سے جہاں صحابہ اکرام ٹھہرے ہوتے ہیں وہاں کی زمین سحت ہو جاتی ہے، جس سے ان کے قدم جم جاتے ہیں اور اس بارش سے کنویں بھر جاتے ہیں تو صحابہ اکرامؓ ان کنویں سے پانی سے غسل وغیرہ کر کے جنگ کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
آپؐ ۱۷؍ رمضان کو فجر کی نماز کے بعد صحابہ اکرام کو جہاد پر خطبہ دیتے ہیں اور جنگ کے لیے صف بندی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ’’اے اللہ یہ قریش اپنے غرور سے تیرے رسولؐ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اے اللہ تیری وہ مدد چاہیے جس کا تو نے وعدہ کیا ہے۔ اگر یہ مٹھی بھر تعداد اگر آج ہلاک ہوگئی تو اس سرزمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔
میدان جنگ میں ایک طرف ایک اللہ کی اطاعت کے سوا کسی اور اطاعت نہ کرنے والے تھے اور دوسری طرف ایک اللہ کو نہیں ماننے والے پورے گھمنڈ اور غرور کے ساتھ کھڑے تھے۔ آج کسی کا بھائی بیٹا، ماموں، چاچا، باپ تلوار کی زد میں ہوگا۔ آج خون کے رشتے اور جگر کے ٹکڑوں پر تلوار چلنے والی تھی آج صرف ایک رشتے فوقیت دی جانے والی تھی وہ صرف ایمانی رشتے کو۔
اللہ تعالیٰ ہزار فرشتوں کے ذریعے رسولؐ کی نصرت فرماتے ہیں اور مسلمانوں کو اس جنگ میں فتح نصیب ہوتی ہے اور 14صحابہ شہید ہوتے ہیں اور قریش کے 70سرما دار مارے جاتے ہیں اور اتنے ہی قید ہو جاتے ہیں۔
اس جنگ سے ہمیں بات سمجھ میں آتی ہے کہ جنگ کبھی بھی تعداد ہتھیار کے بل بوتے نہیں لڑی جاتی بلکہ وہ جذبے کی بنیاد پر لڑی جاتی ہے۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
جنگ بدر کے واقعے سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہمیں حالات کا رونا نہیں رونا ہے، ہمارے پاس کم وقت ہو یا زیادہ کم صلاحیتیں ہو یا زیادہ صلاحیتیں، کم مال ہو یا زیادہ مال، ہمیں اپنی تمام موجودہ قوت اور خالص ایمان کے جذبے کے ساتھ میدان عمل میں نکل کر اللہ کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس طرح ہم میدان عمل میں جائیں گے تو اللہ تعلیٰ آج بھی فرشتوں کے ذریعے ہماری مدد کرسکتا ہے۔ اور پھر ہم دیکھیں گے کہ ’’حق آگیا باطل مٹ گیا اور باطل کو مٹنا ہی تھا‘‘
جواب دیں