یو مِ جمہوریہ اور ہماری درد بھری داستان!

                                                                                                                                                                                
                                                                                                                                                                                                                   

   سر زمیں ہند پر ہماری قربانیاں مگرافسوس!۔۔۔۔۔۔۔    کیا  ہمیں انصاف ملے گا؟

از:-مختاراحمدفخروولکوی          

بھارت میں ۶۲ جنوری کو یو مِ جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے، اوریہ ملک۵ ۱  اگشت۷۴ ۹ ۱ء ؁کو ۱ ٓزاد ہوا تھا،مگراسکا دستور ۰۵ ۹۱ میں منظور کیا گیا،جہاں مذہبی آزادی  اور ہر شہری  کے یکساں حقوق کی پاسداری کی ضمانت تھی،لیکن اب ہمیں عجیب لگ رہا ہے اسے جمہوری  ہندکہتے ہوے، کیوں کے جس قوم نے سب سے زیادہ جانی و مالی قربانی اس ملک کو انگریز وں  کے شکنجے سے چھڑانے یا آزاد کرنے میں پیش کی ہیں،جس کی نظیرشایئد ہی کہیں اور ملے، لیکن افسوس! آج یہاں اسی قوم کے ساتھ سب سے زیادہ ظلم و زیادتی یا ناانصافی کا بازار گرم ہے، سچ تو یہ ہے اور یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ بھارت کی جنگِ ٓآزادی میں مسلمانوں کا کردار سب سے زیادہ نمایہ رہا، اور اس ملک کے لیئے دی گیئ قربانیاں بھی بے مثال ہیں،لیکن جب بھی۶۲جنوری  (یوم ِ جمہوریہ) ہو یا ۵۱اگشت(جشن آزادی) کا سما باندھا جاتا ہے،تو ایک طرف ہمیں اپنے اسلاف کے کارنامے کو دیکھ کرخوشی و حوصلہ ملتا ہے، تو دوسری جانب ہمارے ساتھ ہونے والی نا انصافی یا حق تلفی کی لمبی فہرست یا دلخراش داستان اور ہمارے اسلاف کی قربانیوں کی یاد سے ہمیں اپنی آنکھیں اشکبار کرنی پڑتی ہے،اور ہم یہ سوچھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا ہمارے اسلاف کی انتھک جد وجہد کی یہاں یہی قدردانی ہے؟ آخر ہمارے ساتھ یہ نا انصافی کیوں؟ کیا یہی ہمارے اکابرین کی جانوں کے نظرانوں کا صلہ ہے؟
 یہی وہ ملک ہے جہاں ہمارے اسلاف نے جو قربانیاں پیش کی ہیں جس سے قرنِ اول کے معرکہ ئ کفرو اسلام کی یاد تازہ کردی تھی، کہیں انکو آگ میں ڈالا گیا تھا،کہیں کھولتے ہو ئے تیل میں پھینکا گیا،کہیں انہیں قید کر کے رونگٹے کھڑے کرنے والی جسمانی اذییتیں دی گیں، جسے سوچھتے ہوے ئبدن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے اورلکھتے ہوے قلم رک جاتا ہے،
 ایک انگریز مورخ مچاد لکھتا ہے کے میں نے ایک جگہ بھونے ہوے گوشت کی  بو  محسوس کی،تو قریب جا کہ حیران ہوا کہ کیئ علما ء اسلام کو پکڑ کر ایک ایک کو آگ میں ڈالا جارہا تھا،میری حیرت کی انتہا اُس وقت ہویئ کہ جب میں نے دیکھا ان میں سے کویئ بھی انگریزوں کے تیئں اپنے موقف کو بدلنے یا اپنے آزادی کے مطالبہ سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھا،
 خلاصہ  ئکلام یہ ہے کہ اس سر زمیں پر ہمارا حق مورثی ہے کیونکہ ہمارے اسلاف نے اس ملک کو اپنے خون سے سینچا ہے، در اصل ہندستان کی جنگ آزادی کی ابتدا ء  نواب سراج الدولہ  اور حضرت ٹیپو سلطانؒ شہید نے سترویں صدی  کے عیسوی کیاوائل  میں ہی کی تھی،اور اس کے لیئے اپنی خداداد  صلاحیتوں و سلطنتوں کو داؤ  پر لگا دیا تھا،
او ر یہ مردان مجاہد  اپنے دل میں اس ملک آزادی کی ارزولیئے انگریزوں کے ساتھ لڑتے ہوے اس خواب کو ادھورا چھوڑ کر شہد ہوگیئے  تھے،حقیقت میں اُن کی موت یاان کا ہمیشہ کیلے خاموش ہو جانا پورے ملک کا نقصان تھا،ان  جانبازوں کا  اس دنیا سے اُٹھ جانا  ہندستانی قوم کاغیر معمولی نقصان َ ہوا،  اور قوم پھر سے غلامی کی زنجیروں میں اس قدر جکڑ گییئ کہ جسے نکلنے یا اس غلامی کے طوق کو  اُتار پہنکنے کے لیئے مزید ڈیڑھ صدیاں لگتی ہے،اور نصف صدی بعد پھر سے آزادی کی آس یا اُمید کی ایک کرن لے کر ایک اور مرد قلندر بہادر شاہ ظفر کی شکل میں بھارتی قوم کی ٓاواز  یا قومی نشان بن کر سامنے ا ٓتا ہے اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے،اور انجام کار کے طور پرمغلیہ سلطنت کے اس ٓاخری تاجدار کو ہمیشہ کیلیئے ملک بدر ہونا پڑا،اور اس بزرگ اوردین دار بادشاہ کو اپنی عمر کے آخری ایّام میں بھی قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑی،اور جلا وطنی میں ہی اپنے زندگی کے لمحات پورا کرتے ہو ے ئ اس دنیا سے رخصت ہونا پڑا،جہان رنگونBURMA)  (میں آج بھی اس ہندستانی جنگِ آزادی کے جانباز کی قبر اپنے وطن کی مٹھی کا انتظ ر کر رہی ہے، کاش کے ہندستانی حکومت اپنے اس مایہ ناز فرزند کو کبھی یاد کرتی کہ شاید ملک کی آزادی کا خواب دیکھنے والے قوم کے اس سپوت کی روح کو کچھ تسکین ملتی،۔۔۔ کتناہے بد نصیب ظفر دفن کے لیئے،دو گز زمیں بھی نہ مل سکی کوے یار میں،۔۔۔یہ کتنا جری غیور اور مظبوط دل گردے کا مالک تھا، اس کا اندازہ صرف اس واقع سے لگایا جاسکتاہے، جب انگریز افسر نے ان کے چار جوان بیٹوں کا سر قلم کرکے انکے سامنے تھال میں سجا کر تحفے کی شکل میں پیش کرتا ہے، تو اس وقت یہ اپنے بیٹوں کے کٹے ہوے سروں کواپنے ہاتھوں میں لے کربڑے ہی حسرت و کربناک لہجے میں دعا کرتے 
ہو ے کہا تھا،تیمور کی اولاد ایسے ہی سر خرو ہو کر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتے ہیں،
بحر کیف  ہندستانی قوم ان حالات سے گزرنے کے بعد اپنی آزادی سے اس قدر مایوس ہو چکی تھی کے کہ آزادی کا تصّور ان کے لیئے ایک ڈراوُنا خواب لگتا تھا،ایسے وقت میں ہمارے اسلاف نے اس آزادی کی بجھتی ہویئ چنگاری کوشعلہ بنا نے میں وہ کردار ادا کیا  ہے جس کی مثال پوری ہندستانی تاریخ  بلکہ پوری دنیا میں نہیں مل سکتی، انہوں نے اپنے ولولہ انگیز واعظ یا تقریر یا خطابات اوراپنی فکر انگیز تحریروں سے مسلمانوں میں جذبہئ جہاد اور شوق ِ شہادت کو  بیدار کیا، دوسری طرف ہندستانی برادری کو ایسے جگایا  یا جھنجوڑاکے پوری ہندستانی قوم کا صرف ایک ہی نعرہ  بن گیا تھا      ا آزادی“  اب وہ اس کے لیئے کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہو گے ئ اورایک ایسا انقلاب برپا ہوا،یا  ایک ایسا لاوا پھوٹ نکلا،جسے دبا نا یاروکنا  انگریزوں کے بس میں نہیں رہا تھا،اسلیئے انہیں اپنے ڈیرے یہاں سے اُٹھانے پر مجبور ہونا پڑا،
لیکن افسوس!جب بھی ہندستان میں یو م ِآزدی  یا یوم ِ جمہوریہ کے موقع آتا ہے تو شایدہی کبھی ان بزرگوں یا جاں بازوں کو یاد کیا جاتا ہو،یہ تو تھی حق کی بات لیکن یہاں تو مسلمانوں کو غددار یا دہشت گرد ثابت کرنے کے لیئے ایڑی چھوٹی کا زور لگایا جاتا ہے، اور ہندستانی زرایئع ابلاغ (MEDIA (اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور جس کے نتیجہ میں بے گناہ مسلمانوں کو بد نام ہو کر قید وبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑتی ہے،
آزادی کے بعد سے ہزاروں ایسے وقعات سامنے آے ئ، اور کیئ مقدمات کی سماعت بھی ہویئ،مگر افسوس بہت سی وضاہتوں کے باوجود انصاف کاہی گلا گھونٹا گیا اوربے گناہ سالوں جیل کی اندھری کوٹریوں میں اپنی زندگی کے قیمتی ایام بڑے ہی کرب و اذیت سے کاٹتے رہے مگر اصلی مجرموں کو آزاد رہنے دیا گیا اور پھر سے اُنہیں دندناتے پھرنے اور ملک میں فساد مچانے کا موقع فراہم گیا ہے، لیکن کیا کہنا ہماری حب الوطنی کا!کہ ہم اب بھی کہتے ہیں۔۔۔۔ سارے جہاں سے اچھا ہندستان ہمارا۔۔۔۔                                                                                     

 مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے                                                                                               

 

«
»

بہ یاد یار مہرباں

میڈیا۔کووڈ کے بعد………..

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے