یومِ آزادی: کیا ہم سچ میں آزاد ہیں ؟

 

 

تحریر : وزیر احمد مصباحی (بانکا)

        

                         fik_موجِ خیال

         واقعی  اگر آپ دنیاوی ممالک کی تاریخ اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارا وطن عزیز "ملک ہندوستان" وہ واحد ملک ہے، جہاں جمہوری نظام بڑے اچھوتے پیمانے پر قائم ہے. یہی وہ ملک ہے جہاں تمام مذاہب کے لوگ بلا اختلاف رنگ و نسل ایک ساتھ مل جل کر زندگی گزر بسر کرتے ہیں. یقیناً اس میل ملاپ اور آپسی بھائی چارگی کی بنیاد یہاں کی رنگا رنگ تہذیب و تمدن اور بوقلمونی ہی پر منحصر ہے. آزاد بھارت سے پہلے یہاں تقریباً سو سالہ ایسی انگریزی حکومت قائم رہی ہے جو ظلم و ستم کی رو سے اتنی جری تھی کہ ہمیں زندگی کے تمام شعبوں میں ایک غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور کیے ہوئی تھی. مگر قربان جائیے وطن عزیز کے ان جواں ہمت اور قابل فخر مجاہدین آزادی پر جنھوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر آزادی وطن کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دی اور انگریزی حکومت سے ایسی سخت معرکہ آرائی کی کہ انھیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا؛ تب کہیں جا کر ۱۵،اگست ۱۹۴۷ء/کو ہمارا ملک آزاد ہوا اور پھر لگے ہاتھ ۲۶،جنوری ۱۹۵۰ء/کو مادر وطن ایک آزاد جمہوری ملک بھی بن گیا. یقیناً اسی بڑے دن کے لیے گاندھی جی، مولانا ابو الکلام آزاد، عبد الغفار خان، علامہ فضل حق خیرآبادی اور علامہ عنایت احمد کاکوروی جیسے عظیم سپوتوں اور رہنماؤں نے بلا امتیاز مذہب و ملت اور رنگ و نسل اپنی کڑی محنت و لگن کے سہارے ہر ہندوستانی باشندوں کی رگ جاں میں حریت کی ایسی روح پھونک دی تھیں کہ انھوں نے اس راہ میں درپیش تمام کلفتوں کو خوشی خوشی برداشت کر لیا. حتی کہ وقت آنے پر تختہ دار کے ساتھ ساتھ موت سے بھی رشتہ جوڑتے گریز نہیں کیا. ہاں! یہ بھی یاد رہے کہ اس دن کا یہ پس منظر ہندی تاریخ سے کبھی بھی محو نہیں کیا جا سکتا ہے جب ۱۹۳٠/ میں لاہور کے مقام پر دریائے راوی کے کنارے انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے ایک تاریخی اجلاس میں جس کی صدارت ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کی تھی، ڈومنین اسٹیٹس کے بجائے مکمل آزادی کے حصول کو اپنا واضح نصب العین قرار دیتے ہوئے ٢٦،جنوری کو یومِ آزادی کے طور پر منانے کا ایک تاریخی فیصلہ کیا . شاید وطن کے نام پر مر مٹنے والا یہی وہ جوش و جذبہ اور امنگ حوصلہ تھا کہ جو آج بھی یہاں کی ہندی خمیر میں بدرجہ اتم موجود ہے. تھوڑے ہی عرصے میں پھر تو ایسی باد نسیم چلی کہ یہاں کے تمام باشندوں کو وطن عزیز کے ایک ایک ذرہ سے دلی پیار اور قلبی لگاؤ سا ہو گیا. ہاں! اسی وقت سے یہاں کی پرسکون فضا میں نشو و نما پانے والی ہر ایک جان کے نہا خانہ دل میں مادرِ وطن کی تحفظ و بقا کے خاطر ایک ایسا منفرد جذبہ قائم ہو گیا کہ وہ آج بھی ایک وفادار ہندوستانی کے دل میں ہر لمحہ پروان ہی چڑھتا رہتا ہے.جسے ہم آج بھی فوجی پریڈ، جھانکیوں کی نمائش اور تقریبات کی صورت میں دیکھتے ہیں. 

       مگر افسوس کہ آج کی اس ترقی یافتہ اور بھری آبادی میں پتہ نہیں کبھی کبھی ایسا کیوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہم مکمل طور پر آزاد اور خود مختار نہیں ہیں. عملی دنیا کی حقیقت ہمیں کچھ اور ہی بتانے پر مجبور کرتی ہے. سچ پوچھیں تو آج بھی ہمارا ملک مکمل طور پر آزاد اور یہاں کی عوام الناس فارغ البال نہیں ہیں. جی! یہ بلکل ایک زندہ اور کھلی حقیقت ہے کہ یہاں سے انگریز حکومت کا خاتمہ ہوئے ایک طویل عرصہ ہونے کو ہے، وہ لوگ جا چکے ہیں. دور؛ کوسوں دور. مگر موجودہ سیاسی حکمراں اور جماعتیں بھی تو ہر وہ کام کرنے میں ذرا بھی پیچھے نہیں ہیں جو کام ایسٹ انڈیا کمپنی کبھی کھلے عام کیا کرتی تھی. پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی حکمت عملی جو انگریز نے اپنائی تھی آج وہی حکمت عملی اور ایجنڈا بی جے پی حکومت اپنا رہی ہے اور دن بدن مسلمان و ہندو کے نام پر ووٹ بینک کے خاطر ہر ناجائز کام کرنے کے لئے اتاولے  ہو رہی ہے۔آج تعلیمی، معاشی، اقتصادی، بےروزگاری اور بیماری کا ایک ایسا سنگین حصار ہمارے ارد گرد قائم کر دیا گیا ہے جہاں نہ تو خوشیوں کا داخلہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی نوعیت کی آزادی کی گزر بسر.بےچارے محنت کش عوام جو خون پسینہ ایک کر دیتے ہیں ، اسےاپنی کمائی اور بھر پور محنت کا مکمل صلہ بھی نہیں مل پاتا. ہر طرف سے مہنگائی کی مار میں اگر کوئی دھکا بھی کھاتے ہیں تو وہ بےچارے غریب ہی ہوا کرتے ہیں. چند برسوں پہلے بینک کی قطاروں میں اگر کسی کی جان ہلکان بھی ہوئی ہے تو وہ بھی ان مزدوروں اور کسانوں ہی کے نصیب میں آئی ہے اور جی ایس ٹی کی قہر تو اس پر مستزاد.

          اوہ! چھوڑیں یہ تو ایک الگ ہی نوعیت کا مسئلہ ہو گیا. آج کی اس سوشل میڈیائی اور جدید ٹکنالوجی کے دور میں جب کہ پوار معاشرہ اس کی چپیٹ میں آ گیا ہو، کیا بچے اور کیا بوڑھے ، ہر ایک افراد کا دن رات اس کی رنگینیوں میں گم رہنا، آپ کو ایک عجیب قسم کی کشمکش میں مبتلا کر دینے کے لیے کافی ہے. جب ایک گھر میں رہ رہے تمام افراد کا ذہن کسی ضروری امر سے ہٹ کر کسی غیر ضروری چیز پر مرتکز ہو جائے تو پھر اس ضروری شئ کو لے کر انسانی طبیعت گھبرانے سی لگتی ہے کہ کہیں یہ ضروری امر بلکل فراموش اور حاشیہ ذہن سے مضمحل نہ ہو جائے. یہ ایک ایسا فطری کنکشن ہے جسے کوئی بھی سنجیدہ فہم اپنے اندر محسوس کر سکتا ہے. آج کی بڑھتی آبادی میں نسل نو کا سوشل میڈیا سے جنون کی حد تک لگاؤ کو دیکھ کر بلکل یہی صورت حال مجھ جیسے عام انسانوں کے دلوں میں بھی پیدا ہونے لگتی ہے. ایک عجیب قسم کا کھٹکا ہوتا ہے اور ذہن و دماغ کے دریچے میں گردش کرنے لگتا ہے کہ یا اللہ! کہیں ایک وقت ایسا نہ آ جائے کہ آج کی یہ مادیت گزیدہ نوجوان کل چل کر اپنے ان جاں باز مجاہدین آزادی کو بھی فراموش نہ کر دے. ان کے تذکروں سے انھیں نفرت سی نہ ہونے لگ جائے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آ جائے کہ ان سرفروشان وطن جیسا جذبہ اور امنگ حوصلہ کی ان سے توقع رکھنا سراب سے زیادہ اہمیت کا حامل نہ ہو.(خدا ایسا دن نہ دکھلائے) اور آج کے اس برقی ذرائع کے سامنے انھیں آزادی وطن کے حوالے سے مجاہدین آزادی کی یہ سچی داستانیں بلکل فرضی اور گڑھی ہوئی سی نہ معلوم ہونے لگ جائے. ہاں! اور وہ بھی ایک ایسے دور میں جب کہ آج این سی آر ٹی کے بہانے ملکی سطح پر میڈل اور ہائی اسکولوں میں رائج کتابوں سے مجاہدین آزادی کی داستانیں اورملکی آزادی کے آثار و شواہد کو مٹانے کی مہم سی چلی ہو. آج تو ذات پات کے نام پر ان مجاہدین آزادی سے بھی وہ مذہبی منافرت کا کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے جس کا انھوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا .

        قارئین! یاد رکھیں کہ جو قوم اپنے اسلاف اور گزشتہ روایات کو بھلا دیتی ہے، تاریکی، اور ذلت و پسپائی اسی کا مقدر بن ہی جاتی ہے. آج کتنی ہی ایسی قومیں ہیں جو محض اس لیے گمنام ہو گئیں ہیں کہ انھوں نے اپنے تہذیبی روایات سے آنکھیں پھیر لیں تھیں. آج ہمارا ، آپ کا، والدین اور گارجین و ذمہ دار وغیرہ تمام افراد کا یہ مشترکہ اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ ہم اور آپ مل کر اپنے سے چھوٹوں، بھائیوں، بہنوں اور آنکھ کے ٹکڑوں کو ان مجاہدین آزادی کے ذریں کارناموں سے روسناش کرائیں. ان کے تذکروں پر مشتمل کتابیں خرید کر دیں کہ آج کی یہ ہماری نئی نسل ان سے واقف ہو سکے. موقع بہ موقع آپ انھیں بلکل سنجیدگی کے ساتھ ہمت و بہادری پر مشتمل قصے اور کہانیاں بھی سنایا کریں اور ساتھ ہی ساتھ اگر کبھی فرصت کے لمحات میسر ہوں تو ان سادہ ذہن بچوں کو آزادی کے آثار و شواہد کی بھی زیارت کرا لائیں؛ تا کہ ان کے دلوں میں بھی ہمت و جزبہ اور امنگ و حوصلہ پروان چڑھ سکے. اور خدا نا خواستہ پھر کل کبھی جب بات آ جائے ملکی تحفظ اور اس کے سلم و سلامتی کی تو یہ بچے دشمنوں سے مقابلہ کرنے میں بزدلی کا شکار نہ ہونے پائیں . ساتھ ہی ساتھ آپ انھیں یوم جمہوریہ کے موقع پر اسکول، کالجس اور سرکاری دفاتر میں اپنے ساتھ لے جائیں،اس دن صفائی و ستھرائی کا خاص خیال رکھیں،قومی ترانے گنگنائیں، مجاہدین آزادی کی شخصیت پر روشنی ڈالیں اور قومی پرچم "ترنگا جھنڈا "لہرائیں تا کہ ان کے ذہن و دماغ میں اس دن کی اہمیت سہی طریقے پر راسخ ہو سکے.

       اور ایک دوسری قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ ادھر چند برسوں سے( جب کہ ہماری آزادی کو ایک طویل عرصہ ہونے کو ہے) کچھ بھگوا پرستوں اور یہاں کی گنگا جمنی تہذیب دشمن عناصروں کو وطن عزیز کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہیں . وہ ہر لمحہ یہاں کی آپسی بھائی چارگی اور پیار و محبت پر کاری ضرب لگانے کی تاک میں لگا رہتا ہیں. آج وہ ایک ایسے طبقہ سے جنھوں نے وطن عزیز کی آزادی میں اہم رول ادا کیا ہے، وفادار وطن ہونے کا ثبوت مانگ رہے ہیں. آج انھیں شرپسندوں کی وجہ سے ملک کے تقریباً ہر گوشے میں اقلیتوں پر ایسا خوف و دہشت طاری ہےکہ جس کی وجہ ہے ملکی ترقی، جمہوری نظام اور پیار و محبت و گنگا جمنی تہذیب کا شیرازہ بلکل بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے.اور  اس وقت مودی حکومت تو سیاہ قانون این آر سی، این پی آر اور سی اے اے وغیرہ لاکر کر اپنی ہندو مسلم دشمنی کا بین ثبوت پیش کر دی ہے ۔ملک میں اس وقت ہر طرف ایک ہا کار سا مچا ہوا ہے لوگ سڑکوں پر احتجاجات و مظاہرہ کر رہے ہیں، ملک میں ہر طرف شاہین باغ ایسا منظر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔۔۔۔مگر حکومت ہے کہ ان مظاہرین کو جواب دینے اور سیاہ کان واپس لینے کے بجائے وزیرداخلہ امت شاہ ہٹ دھرمی پہ اتر آئے ہیں اور وہ ایک قدم بھی نہ ہٹنے کے بعد کرتے چلے جارہے ہیں ۔ ہر سال جب ۱۵، اگست کا یادگار دن آتا ہے تو نہ جانے مجھ جیسے عام انسانوں کے دلوں میں یہ احساس مزید بڑھ جاتا ہے کہ اے کاش! ہم اپنے مادر وطن کو ان شرپسندوں کے چنگل سے کسی طرح آزاد کرانے میں کامیاب ہو جاتے. تا کہ ہمارا یہ ملک اپنی گنگا جمنی تہذیب و تمدن کی بقا اور مزید ترقیوں کے ساتھ ساتھ اقوامِ عالم پر اپنا ایک الگ شناخت قائم کرتا اور ہمارے مجاہدین آزادی کے وہ سنہرے خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو پاتے جو انھوں نے انگریزوں سے نبردآزمائی کے وقت سنسان راتوں میں دیکھا تھا.آج ایک ایسا طبقہ ہمارے سامنے ابھرکر کر آیا ہے جو گاندھی کے قاتل گوڈ سے کو اور ساورکر کو اپنا رہنما مانتا ہے۔ وہ ٹی وی چینل پر بھی جاکر کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ گاندھی جی نے صحیح نہیں کیا تھا ، انہوں نے بس اپنے مفاد کے لئے کام کیا تھا اس سے بہتر تو گوڈسے اور ساورکر ہیں جو ایک بہترین آڈیو لوجی رکھتے ہیں۔اس لیے آج ہر ایک وہ طبقہ جو امن پسندی کی بات کرتا ہے اور جمہوریت پر یقین رکھتا ہے اسے اس کے کوشش کرنا پڑے گا کہ کسی طرح ہمارا ملک ان لوگوں سے آزاد ہوجائے  اور جمہوری نظام حسن و خوبی کے ساتھ چلتا رہے ۔

       محترم قارئین! اگر آپ بھی ایسا سوچتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسا ہی ہو تو آئیے! آج ہی ہم اپنے اپنے عقل و خرد کی کسوٹی پر یہ اہم فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم مادر وطن کی ترقی کے لئے ہر لمحہ کوشاں رہیں گے. اس کی تحفظ و بقا اور سلم و سلامتی کے خاطر وقت آنے پر اپنی جان تک کی بازی لگا دیں گے اور سماج و معاشرے میں زندگی گزار رہے سنجیدہ اور امن پسند افراد کے ساتھ مل کر ان شرپسندوں کا مکمل بائیکاٹ کریں گے جنھیں ملکی ترقی، یہاں کی خوبصورت گنگا جمنی تہذیب ،اخوت و بھائی چارگی اور آپسی پیار و محبت ایک آنکھ نہیں بھاتیں. (انشاءاللہ)

«
»

کرونا نے ہمیں مسلمان کردیا

توہینِ رسالت کی سزا کے لیے عالمی قانون بنایا جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے