یا رب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات

کوئی فریبی اور جعل ساز ہے تو کوئی دیانتدار ہے۔ کوئی موقعہ شناش ہے تو کوئی بروقت مددگار ہے غمخوار ہے۔ اکثریت نمک حرام بندوں کی ہے۔ نمک حراموں میں اول صف اولاد کی ہے۔ طوطے کی طرح نگاہ بدلنے والے، گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے ہیں۔ یہ گھرگھر کی کہانی ہے۔ ازدواجی زندگی کے پرخلوص فرائض ادا کرنے کے باوجود اولادیں مہمانوں کی طرح ہاتھ دھوکر والدین کے لیے خالی دسترخوان چھوڑ کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ نکاح من سنت ادا کرکے بھی عموماً والدین خدمت خلق اور صلہ رحمی کی بازی اولاد کے ہوتے ہوئے ہار جاتے ہیں ضعیفی میں قلاش زندگی گزارتے ہیں ہاتھ مل کر رہ جاتے ہیں۔ یعنی : 
سب کچھ لُٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا 
دن میں اگر چراغ جلائے تو کیا کیا
حتی کہ والدین کو اُف بھی نہ کہنا چاہیے لیکن والدین کو مغلظات اور زدوکوب سے نوازا جاتا ہے۔ یہ صلہ قدیم، قابض و قائم ہے۔ 
وہ والدین جن کے پاس بااِفراط زر، زمین ہے، اُن کی اولاد کو فرمانبردار سمجھا جاتا ہے۔ وفا شعار سمجھا جاتا ہے۔ جن کے والدین کو پانی پلانے کے لیے بھی ملازمین فائز ہوتے ہیں، شاز و نادر ہی دولتمند والدین کی اولادوں کو والدین کے لیے پانی پیش کرکے جینا ہوتا ہے۔ تجزیہ یہ کہ دولتمند گھرانوں کی اولادوں کو والدین کی خدمات کے معاملات میں کم نصیب یا بدنصیب پایا جاتا ہے خطرناک مرض کی حالت میں دولتمند گھرانوں کی اولادیں مگرمچھ کے آنسو بہاتی ہوئی بھی پائی جاتی ہے جن کا دل وراثت کے حقوق کی طرف کھنچتا رہتا ہے اور بہنوں کو وراثت سے محروم بھی کیا جاتا ہے۔ 
متوسط غرباء کے گھرانوں کی اولادیں عموماً خوش نصیب ہیں یوں کہ محنت مزدوری کی گزارے بھر آپ کمائی سے (باپ کمائی سے نہیں) والدین اور بھائی بہنوں کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اُس پر غریب کی یا دولتمند گھرانوں کی بییٹیوں کا کیا کہنا۔ واہ۔ بیٹوں کے مقابلے والدین کی خبرگیری کرتی ہیں زیادہ سے زیادہ والدین سے محبت کرتی ہیں، بیٹوں کے مقابلے والدین کے حق میں شادی کے بعد بھی وفاشعار ہوتی ہیں۔ ماشاء اللہ۔ حال یہ بھی ہے کہ خاوند باخوشی یا جبراً اہلیہ کی ملازمت کی آمدنی سے سرفراز رہنا حق سمجھتے ہیں اور جہاں اہلیہ اُس کی ملازمت کی آمدنی اپنے میکے کے لیے، والدین کے لیے خرچ کرنا چاہتی ہے۔ خبیث خاوند کو ناگوار ہوتا ہے۔ کئی خاوند غریب اہلیہ کی محنت مزدوری کی آمدنی پر گزارا کرنا بچوں کی پرورش کرنا حق مانتے ہیں جو کہ کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے خاوند ہیں اور اُن کے بیٹے بھی اُن کے نقش قدم پر چلنے والے ہوتے ہیں اور جن کا احترام جاتا رہتا ہے اطراف کے لوگ اُنگلیاں اُٹھانے میں کسر نہیں کرتے ہیں۔ جس کا انجام برا بھی ہوتا ہے ناقابل برداشت بھی ہوتا ہے۔ یہاں یہ ذکر خالی از بحث نہیں ہوگا۔ دیکھا کہ ماہم درگاہ کی بھیڑ میں ایک شخص پرزور آواز کے ساتھ مزار اقدس کی طرف بڑھنے کی ناکام کوشش کررہا تھا او رکہہ رہا تھا۔ (لاحول ولا قوۃ الا باللہ) ’’اے مخدوم باہر نکل میں تجھے نہیں چھوڑونگا‘‘ مذکورہ شیطان صفت شخص کا کہنا تھا کہ اُس کی اہلیہ کے ساتھ گلف کے کفیل نے (جو کہ ملازمت پیشہ تھی) شادی کرلی اور شیطان صفت شخص کے بچوں کو بھی دور کردیا گیا۔ بھلا بتلائیے اُس میں مخدوم شاہ ، صاحب مزار اقدس کا کیا قصور؟ اللہ کے اولیاء اللہ کسی کے باپ کے نوکر، نہیں ہیں۔ جن کے زائرین نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن۔ ہر لمحہ مزار اقدس کے مراد مند نظر آتے ہیں اور خود بینک ہولی ڈے (Bank Holiday) کے حقدار ہوتے ہیں جو میں ٹھیک نہیں سمجھتا ہوں۔ میرا جاننا یہ بھی ہے کہ اولیاء اللہ زائرین کے حق میں دین کی دولت کی دُعا کے قائل ہیں نہ کہ دُنیا کی دولتِ افراط کے حقوق کی دُعا کرنے والے ہیں۔ قناعت پسند دُعا کرنے والے ہیں۔ علماء کرام توجہ دیں۔ بہرحال بے شمار خاوند ایسے بھی اہلیہ سے گلے لگنے والے ہیں جو نہایت گندے اور بدبودار ہیں۔ تمباکو نوش، بیڑی سگریٹ کے عادی شرابی وغیرہ جنہیں خواتین کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔ ویسے گندے اور بدبودار شخص عموماً اُن کی اہلیہ کو ملازمت پیشہ بنائے رکھتے ہیں حتیٰ کہ قرض پر یا گھر تک رہن رکھ کر بیرونی ممالک میں ملازمت کے لیے روانہ کرتے ہیں اور اُس حال میں اہلیہ کو قرض ادا کرنا ہوتا ہے۔ خواتین آزاد خیال بھی ہوتی ہیں۔ بدبودار ظالم خاوند سے چھٹکارا پاکر عیش و آرام کی طلب گار بھی ہوتی ہیں۔ روزآنہ کے مغلظات و زدوکوب سے بچنے کے لیے روانہ ہوکر خوشبودار و عالیشان ماحول کی گرویدہ ہوکر شکم سیر ہوتی ہیں اور خاوند و بچوں کے گزارے کے انتظامات کے لیے وفا شعار زندگی بھی گزارتی ہیں۔ خواتین کی کچھ تعداد خلع کا سہارا لے کر بھی آزاد ہونا پسند کرتی ہیں۔ غیر ممالک کی ویزا دو سال تک طے ہوتی ہیں اس لیے مردوزن حدیث شریف کا ناجائز فائدہ بھی اُٹھاتے ہیں۔ آزاد خیال و اوباش فطرت کا ماننا ہے کہ (نعوذ باللہ، معاذ اللہ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ) جہاد میں چار ماہ گزارنے کے بعد خاوند کو اہلیہ کے پاس جانے کا فرمان تھا تاکہ گھر کی عزت بنی رہے اور ازدواجی حقوق حاصل کیے جاسکیں۔ اور اس طرح کی سوچ کا انجام برا بھی ہے۔ بہتر ہوگا خضوع و خشوع کے ساتھ باغسل باطہارت نماز قائم کی جائے۔ نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔ وفا شعار زندگی ہوگی خدا کا خوف نجات کا سبب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فہم دین عطا فرمائے۔ آمین 
لفظ آخر یہ کہ اللہ پاک نے قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور میرا کہنا ہے جب تک سورۃ الناس کا وجود رہنے والا ہے دُنیا میں نیک بندے اور شیاطین ہوتے رہیں گے۔ الحمدللہ۔ اور جو مجبوروں کی لاشوں پر محل بنائیں گے وہ ٹھوکر کھائیں گے۔ یہ میرے دل کی آواز ہے۔ ہر طرح کی رزق تمام بندوں کے لیے ہے جن کی دستیابی سے غرباء محروم ہیں۔ جہاں وراثت کی تقسیم کے حقوق ہیں وہیں وراثت کا ایک چوتھائی حصہ غریب رشتہ دار دوست احباب اجنبی غرباء یتیم ، بیمار، بیوہ اور ضعیف و اپاہیج کی امداد کے لیے ادا کرنے کے حقوق بھی ہیں۔ بہتر تقسیم کریں۔ ملحوظ رہے جہاں قرآن مجید و احادیث کا فرمان ہے گناہگاروں کو فرشتے پیشانی کے بال پکڑ کر رزاق جل جلالہ کے حضور میں کھینچتے ہوئے پیش کریں گے وہیں رزق و دیگر نعمتوں پر قابض غیر منصف کو لات مار کر جہنم میں پھینکنے کا حکمِ الٰہی بھی صادر ہوسکتا ہے۔

«
»

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

بھارت کا فارسی گو شاعر…مرزا عبدالقادر بیدلؔ ؔ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے