یعقوب میمن کو پھانسی!ہندوستان کا سوتیلاانصاف

اس سے پہلے دیر رات ناگپور پولیس کے جوانوں نے یعقوب کی فیملی کو ناگپور کے ایک ہوٹل میں جاکر پھانسی کے سلسلے میں خط دیا۔صبح کے وقت6 پولیس افسروں کی موجودگی میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔جیل میں یعقوب کو پھانسی دیتے وقت کلیکٹر، جیل سپرنٹنڈنٹ، سینئر جیلر، ایس پی، جیل ڈی آئی جی، اے ڈی جی، میڈیکل ہسپتال کے ڈین اور ان کی ٹیم سمیت 20 اعلیٰ افسر موجود تھے۔ پھانسی یارڈ میں 6 لوگ تھے۔ اس وقت جیل کے اندر کا سارا نظام خصوصی کمانڈوز کے ہاتھوں میں تھا۔قریب تیس سال بعد ناگپور کی سینٹرل جیل میں کسی کو پھانسی دی گئی۔ یعقوب میمن ملک میں پھانسی کی سزا پانے والا 57 واں شخص ہے۔ خبروں کے مطابق یعقوب نے پھانسی سے ایک دن قبل اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی تھی،اس کے بعد اس نے جیل کے قیدیوں اوراسٹاف سے ملاقات کی اور کہا کہ اگر کوئی غلطی ہوئی تو معاف کرنا۔ پھانسی کی رات قیامت کی رات سے کم نہیں تھ جسے یعقوب نے نماز اور تلاوت میں گزاری ۔ اس نے فجر کی نماز بھی ادا کی جس کے بعد پھانسی پر لٹکادیا گیا ۔اس پھانسی پر کانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ کا ٹویٹ سامنے آیا کہ یعقوب کی پھانسی پر حکومت، عدلیہ نے فوری قدم اٹھا کر مثال پیش کی ہے۔ امید ہے کہ سارے معاملات میں ذات، مذہب سے اوپر اٹھ کر اسی طرح سے فیصلے ہوں گے۔البتہ شبہ ہے کہ باقی معاملوں میں اتنی تیزی سے کام ہو جائے گا۔ حکومت اور عدلیہ کی ساکھ داؤ پر ہے۔جب کہ شیوسینا لیڈر سنجے راوت نے یعقوب کی پھانسی کو درست قرار دیا ہے اور اسے بچانے کی کوششوں کی مذمت کی ہے۔انھوں نے کہا کہ ایسے ہی لوگوں کے سبب قصاب اور میمن پیدا ہوتے ہیں۔ اب یہ نہیں چلے گا ایسے لوگوں کو سبق ملے گا۔

ایک پھانسی ،کئی سوال
یعقوب کی پھانسی نے اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑے ہیں جن کا جواب ارباب اقتدار کو ڈھونڈانا ہوگا ۔ سوا ل یہ ہیں کہ جس انصاف کی بات یعقوب کے معاملے میں کی گئی ویسا ہی انصاف ان معاملوں میں کیوں نہیں کیا جاتا جس میں کوئی غیر مسلم ملوث ہوتا ہے؟ پھانسی کی سزا ہمیشہ مسلمان یا غریب کوہی کیوں ہوتی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا نریندرمودی سرکار بھی سابقہ کانگریس سرکارکی طرز پر چل رہی ہے اور ملک کے اہم مسائل نیز کرپشن سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے پھانسی کا کھیل کھیلا جارہا ہے؟کیا حکومت یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سخت طرز عمل رکھتی ہے؟ کیا یہ سرکار کا دوہرا رویہ نہیں ہے کہ ایک طرف تو وہ بھگوا دہشت گردوں کو جیل سے رہا کرنے کی تیاری میں مصروف ہے وہیں دوسری طرف اس نے یعقوب میمن کو پھانسی دینے میں صرف اس لئے جلد بازی دکھا ئی کہ وہ مسلمان ہے؟ حکومت کا دوہرا رویہ اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ گجرات میں فرضی انکاؤنٹرس کے ملزموں کو ایک ایک کر رہا کردیا گیا اور ان کے عہدوں پر بحال کردیا گیا ،رہائی پانے والوں میں وزیر اعظم کے قریبی امت شاہ بھی شامل ہیں مگر دوسری طرف یعقوب میمن کو پھانسی دینے میں جلد بازی کی گئی ،جس کے کیس کی منصفانہ سماعت بھی سوالوں کے گھیرے میں رہی ہے۔اسی کے ساتھ ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ممبئی کے سیریل بم دھماکے ۱۹۹۲ء کے مسلم کش فسادات کے رد عمل کے طور پر ہوئے تھے مگر آج تک خون کی ہولی کھیلنے والوں کے خلاف کوئی معمولی کارروائی بھی نہیں ہوئی۔ بلکہ بی جے پی اور شیو سینا نے تو ان لوگوں کو ایم پی، ایم ایل اے اور وزیر تک بنا دیا جو فسادات میں ملوث رہے تھے۔ یعقوب میمن کی پھانسی پر اس لئے بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ وہ جیل میں تقریباً ۲۲سال کی مدت گزار چکا ہے اور سپریم کورٹ یہ مانتا ہے کہ جن لوگوں نے عمر قید کاٹ لی ہے انھیں پھانسی کی سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔ایک جرم کے لئے صرف ایک سزا دی جاسکتی ہے۔ اس پورے معاملے میں ایک خاص پہلو یہ ہے کہ مقدمہ ٹاڈا کورٹ کے تحت چلا ہے جس میں منصفانہ سماعت کی گنجائش کم ہوجاتی ہے۔ باوجود اس کے مودی حکومت کا میمن کو پھانسی دینے کا فیصلہ سیاسی مقاصد سے بھرا ہوا لگتاہے۔ سابقہ کانگریس سرکار بھی افضل گرو کو گپ چپ طریقے سے پھانسی پر لٹکاکر بی جے پی کی زبان بند کرنا چاہتی تھی اور اسے معلوم تھا کہ مسلمان کی جان جائے تو کوئی آواز بھی نہیں اٹھانے والا ہے۔ حالانکہ راجیو گاندھی کے قاتلوں اورپنجابی دہشت گرد بھلر کو پھانسی دینے کی ہمت نہ کانگریس سرکار میں تھی اور نہ مودی سرکار میں ہے۔ ظاہرہے کہ مسلمان کی جو وقعت کانگریس کی نظر میں تھی وہی بی جے پی کی نگاہ میں بھی ہے۔یہی سبب ہے کہ پھانسی پھانسی کا کھیل صرف مسلمان کی جان پر ہی کھیلا جاتا ہے۔ میڈیا کی طرف سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ممبئی دھماکے بابری مسجد کی شہادت کے ردعمل میں ہوئے تھے،حالانکہ بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار افراد اقتدار کی اونچی کرسیوں تک پہنچے اور انھیں ووٹ بھی اسی وجہ سے ملا کہ انھوں نے ملک کے اکثریتی طبقے کے جذبات کو مشتعل کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ رد عمل پر تو پھانسی ہوگئی مگر ایکشن پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔سماج وادی پارٹی کے لیڈر ابوعاصم اعظمی کہتے ہیں کہ یعقوب کی پھانسی پر افسوس ہے۔ یعقوب خود چل کر آیا تھا، خود سرینڈر کیا تھا۔’’ را‘‘ افسر بی رمن کا آرٹیکل پڑھنے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ یہ غلط ہوا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ داؤد اور یعقوب نے بم دھماکے کیوں کرائے؟ اس پر بھی بات ہونی چاہئے۔ ایکشن یا ری ایکشن دونوں ٹھیک نہیں ہے لیکن ایکشن پر آج تک سزا نہیں ہوئی اور ری ایکشن پر پھانسی ہو گئی۔دوسری طرف اس درمیان، کانگریس رہنما ششی تھرور نے یعقوب کی پھانسی کو لے کر ایک ٹویٹ کیا ہے کہ ،حکومت نے ایک انسان کو پھانسی پر چڑھا دیا، اس سے میں بے حد دکھی ہوں۔ حکومت اسپانسر قتل ہمیں نیچا دکھا رہا ہے، جس نے ہمیں قاتلوں کی سطح پر لا دیا ہے۔
یعقوب کا جرم کیا تھا؟
یعقوب کو سال 1993 میں ممبئی میں 12 ٹھکانوں پر بم دھماکے کرنے کی سازش کے معاملے میں مجرم پایا گیا تھا۔ اسے واقعہ کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیاتھا۔ اس معاملے میں 123 ملزمان پر فردجرم داخل کیا گیا تھا، جن میں سے 100 لوگوں پر کرائم ثابت ہوا۔ یعقوب کا بھائی ٹائیگر میمن اب بھی پولیس کے ہاتھ نہیں لگا ہے۔الزام ہے کہ یعقوب اور اس کے بھائی ٹائیگر میمن نے بم دھماکے کے لئے گاڑیوں کا انتظام کیا تھا۔ انھوں نے دہشت گردوں کے لئے ایئر ٹکٹ بھی نکال کر دیئے تھے۔علاوہ ازیں مالی مدد کا بھی الزام ہے۔ یعقوب پر الزام ہے کہ ممبئی دھماکے کے اہم ملزم اپنے چھوٹے بھائی ٹائیگر میمن کو اس کے غیر قانونی دھندوں کے لئے مالی مدد مہیا کرتا تھا۔یہ بھی الزام لگایا گیاکہ دھماکوں کو انجام دینے کے لئے حوالہ کے ذریعہ یعقوب نے پیسے اکٹھے کیے۔یعقوب کے بارے میں پولس کا کہنا تھا کہ پاکستان جاکر ہتھیار چلانے کی تربیت لینے والوں کے لئے اس نے ٹکٹ کاا نتظام کیا تھانیزسازش کو انجام دینے کے لئے یعقوب نے ایک دوسرے مجرم کو 85 گرینیڈ لاکر دئیے۔دھماکوں میں استعمال کئے گئے 12 بم یعقوب کے گھر پر ہی بنائے گئے تھے۔یعقوب کے گھر سے ہی دھماکوں کے لئے بم بھیجے گئے۔
یعقوب کے وکلاء کی دلیل تھی کہ وہ صرف دھماکوں کی سازش میں شامل تھا، نہ کہ دھماکوں کو انجام دینے میں۔ ممبئی میں 12 مارچ 1993 کو بھیڑ والے12 مقامات پر ہوئے دھماکے میں 257 افراد ہلاک اور 700 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ بمبئی اسٹاک ایکسچینج کی 28 منزلہ عمارت کی بیسمینٹ میں بھی دھماکے ہوئے تھے۔ اس میں 50 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
کون ہے یعقوب؟
یعقوب کا پورا نام یعقوب عبدالرزاق میمن تھا۔یعقوب پیشے سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھا۔اس کے خاندان میں بیوی اور ایک بیٹی ہے۔ وہ ناگپور جیل میں اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی (اگنو) سے ماسٹرز کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ گزشتہ سال اس نے ایم اے سیکنڈ ایئر کا امتحان دیاتھا۔ یعقوب نے سال 2013 میں اگنو سے انگلش میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس کے بعد پولیٹکل سائنس میں پھر سے پوسٹ گریجویشن کر رہا تھا۔ اس نے اپنے دوسرے سال کا امتحان بھی پھانسی یارڈ میں دیا تھا۔ یعقوب کے ساتھ 10 دیگر ملزمان کو بھی خصوصی ٹاڈا عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی، لیکن ان لوگوں کی سزا کو سپریم کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔ اسی کیس میں اداکار سنجے دت 6 سال کی سزا بھگت رہے ہیں۔ حمید بیگ اور ایک دوسراشخص بھی ناگپور کی جیل میں بند ہے۔
پولس کے ہاتھ کیسے آیا یعقوب؟
ممبئی دھماکوں کے بعد جب یعقوب میمن کو پولس نے گرفتار کرنا چاہا تو وہ دسترس سے باہر تھا کیونکہ دھماکوں کے وقت وہ دبئی میں تھا۔ دبئی سے وہ پاکستان چلا گیا اورپناہ گزیں ہوگیا۔حالانکہ ۱۹۹۴ء میں اسے سی بی آئی نے دلی سے گرفتار کرنے کی بات کہی مگر میڈیا میں خبر آئی کہ نیپال پولیس نے اسے کھٹمنڈو ایئر پورٹ پر گرفتار کر سی بی آئی کو سونپا تھا تب سے یعقوب ابھی تک جیل میں ہے۔ حالانکہ سی بی آئی کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے یعقوب نے دعوی کیاتھا کہ اس نے بات چیت کے بعد سرینڈر کیا تھا۔یہ سب کچھ خاص معاہدوں کے تحت ہوا تھا مگر سی بی آئی اپنے وعدوں سے مکر گئی۔اس پورے معاملے کی جانکاری اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہاراؤ کو بھی تھی۔یعقوب نے سماعت کے دوران کہا تھا کہ اس کا بھائی ٹائیگر میمن کہا کرتا تھا کہ وہ گاندھی وادی بن کر خودسپردگی کرنا چاہتا ہے مگر وہ بھارت میں آتنک وادی قرار دیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ٹائیگر کی پیش قیاسی درست ثابت ہوئی اور یعقوب نے اگرچہ ہندوستانی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کیا مگر یہ تعاون اس کے کام نہیں آیا۔وہ آخری وقت سوچتا رہا کہ اس نے خودسپردگی کرکے غلطی کی؟
کیا یہی ہے انصاف؟
یعقوب میمن کی پھانسی کے تعلق سے تمام سیاسی پارٹیاں خاموش رہیں ااور ناگپور جیل میں اسے پھانسی پر چڑھادیا گیا۔ ایسے میں چند لیڈران اور قانون کے ماہرین دبی دبی آواز میں اس سلسلے میں آواز اٹھاتے رہے۔ممبر پارلیمنٹ اور سینئر وکیل ماجد میمن نے اسے جلدی میں اٹھایا گیا قدم بتاتے ہوئے حکومت کی منشا پر سوال اٹھایا تھا۔سی پی آئی ایم کی طرف سے کہا گیا تھا کہ یعقوب کو پھانسی کی سزا کو عمرقید میں تبدیل کردینا چاہئے۔سینکڑوں سیاسی اور غیرسیاسی لوگوں نے بھی صدر جمہوریہ سے اپیل کی تھی کہ وہ اس معاملے میں دخل دیں اور پھانسی کوروکیں مگر صدر نے وہی کیا جو مودی سرکار چاہتی تھی۔وہ فیصلہ کرچکی تھی کہ میمن کو پھانسی پر لٹکانا ہے اور اسے وہ کسی قیمت پر عمل میں لانا چاہتی تھی۔ چنانچہ سپریم کورٹ میں فٹافٹ یعقوب کی اپیل پر سماعت بھی ہوگئی اور فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔ اپنی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ نے رات کے وقت کام کیا۔ججوں کی اس بینچ سے جسٹس جوسیف کو ہٹادیا گیا تھا جو پھانسی کے خلاف تھے۔یہ وہی عدلیہ ہے جو تاریخ پر تاریخ دیتی رہتی ہے مگر یعقوب کے معاملے میں اس کی جلدبازی حیرت انگیز ہے۔سوال اپنی جگہ برقرار ہیں کہ بابری مسجد کے گنہگاروں کو کب سزا ہوگی،جن کے سبب پورے ملک میں فسادات ہوئے اور ہزاروں معصوموں کی جانیں گئیں؟ فسادات کے گناہگاروں کو کب سزا سنائی جائیگی،جنھوں نے بے شمار عام شہریوں کو موت کے گھات اتارا اور اب سیاست کی کرسیوں پر براجمان ہیں؟ان قاتلوں کو کب کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا جن کی نشاندہی جسٹس سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ میں کی گئی تھی؟گجرات میں معصوموں کا فرضی انکاؤنٹر کرنے والوں کی کب تک حکومت پشت پناہی کرتی رہے گی اور انھیں بچانے میں لگی رہے گی؟مالیگاؤں بم دھماکے، سمجھوتہ اکسپریس دہشت گردانہ حملہ اور مکہ مسجد کے گناہگاروں کو کب تک وہ کھیر پوری کھلاتی رہے گی؟ اگر سوتیلے انصاف کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ہندوستانیوں کا نظام انصاف پر سے اعتماد اٹھ جائے گا اور یہ ملک کی مستقبل کے لئے نیک فال نہیں ۔(یو این این) 

«
»

کیا گرداس پور کا واقعہ آخری فیصلہ کیلئے کم ہے؟

نتین یاہو: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے