یکساں مسائل میں یکساں لائحہ عمل !

پھر یہ ٹکراؤ اگر فکر و نظریہ تک محدود ہو توقابل قبول،برخلاف اس کے ٹکراؤ عملی ہوتو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔شاید ایسے ہی حالات سے آج کل ملک دوچار ہے۔جہاں ایک جانب اہل اقتدار اور ان کا نظریہ ہے تو دوسری جانب دیگر اقوام اور رائج الوقت ملک کا آئین ۔ہندوستانی آئین میں ملک کو سیکولر اور جمہوری کہا گیا ہے۔جہاں تمام افراد و گروہ کو اپنے مذہب،پرسنل لاء،آزادئ تقریر و بنیادی حقوق و اختیارات فراہم کیے گئے ہیں۔اس کے باوجود ملک کا ایک بڑا طبقہ موجودہ حالات و مستقبل قریب میں اِن حقوق و اختیار ات کو سلب ہوتا محسوس کرہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسائل جو رونما ہیں، اسی بات کا اشارہ دیتے ہیں۔اس صورت میں اہل فکر متوجہ ہیں اور اپنی ناراضگی کو مختلف انداز سے پیش کر نے کی جرات بھی کرتے نظر آرہے ہیں۔حالات کے پس منظر میں ہندوستان کی قدیم تہذیب و تمدن ،جس کے قیام کی کوششیں جاری ہیں،کو سمجھنا ہر شہری کے لیے لازم ہوجاتا ہے۔
ہندوستان ایک قدیم ملک ہے اور اس کی تہذیب بھی قدیم ترین ہے۔ہندوستانی تہذیب جس پر اسلام سے قبل ہندوؤں کا غلبہ رہا ہے اس کو سمجھنے کے لیے یوں تو بے شمار کتابیں موجود ہیں۔لیکن فی الوقت "البیرونی کا ہندوستان”نامی کتاب کافی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔یہ کتاب قیام الدین احمد صاحب نے مرتب کی ہے اور اس کا اردو ترجمہ عبدالحئی صاحب نے لکھا ہے۔ساتھ ہی کتاب کی اشاعت نیشنل بک ٹرسٹ، انڈیا نے کی ہے۔اصل کتاب کا نامکتاب فی تحقیق ما للہند من مقالہ مقبولہ و مردودہے لیکن یہکتاب الہندکے نام سے مشہور ہے۔مصنف کا نام ابوریحان ابن احمد المعروف بہ البیرونی ہے۔لازم ہے کہ اس کا مطالعہ کیا جائے،ہندوؤں اور ہندوستانی تہذیب و تمدن کو سمجھا جائے،اور مسائل جو متذکرہ تہذیب سے وابستہ تھے اور ہیں،ان کے حل کی بھی اس انداز سے سعی و جہد کی جائے،جس کے نتیجہ میں امن و امان قائم ہو تووہیں اہل ملک مسائل سے نجات پائیں۔
آج ہندومعاشرہ میں مختلف طبقات پائے جاتے ہیں لیکن یہ طبقات قدیم ایرانیوں میں بھی پائے جاتے تھے۔ایران کے قدیم بادشاہوں(خسرواں)کی تاریخ کے مطالعے سے بخوبی واضح ہو تا ہے کہ انہوں نے بھی طبقاتی نظام قائم کیا تھا۔اور اس سلسلے میں ایسے مضبوط انتظامات کیے تھے جو نہ کسی فرد کی خصوصی کارگزاری کے صلے میں ٹوٹ سکتے تھے اور نہ رشورت سے۔یہاں تک کہ جب اردشیرابن بابک نے سلطنت فارس کو دوبارہ قائم کیا تو ان طبقات کو بھی از سر نو بحال کیا۔یہ طبقات اس طرح تھے: i)پہلا طبقہ رئیسوں اور شاہی خاندان پر مشتمل تھا۔ii)دوسرا طبقہ عابدوں، آگ کے خادموں اور وکلا کا تھا۔iii)تیسرا، نجومیوں اور عاملوں کا ،اورiv)چوتھے طبقے میں کسان اور دوسرے اہل حرفہ تھے۔ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان میں آریہ بھی ایران ہی سے آئے تھے جو بعد میں ہندوکہلائے یا اس نام سے مشہور ہوگئے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہندو اپنے طبقوں اور ذاتوں کو ورنیا رنگ کہتے ہیں اور نسب کی حیثیت ذات یا پیدائش ہے۔یہاں انہوں نے جوطبقاتی نظام قائم کیا اس میں بھی چار طبقات تھے۔i)سب سے اونچی ذات برہمن،جن کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ وہ برہما کے سر سے پیدا ہوئے ۔ برہما سے مراد وہ قوت ہے جسے وہ فطرت کہتے ہیں۔سر،چونکہ حیوانی جسم کا سب سے بلند حصہ ہے لہذا برہمن اس نوع کا جوہر ہیں۔اسی لیے ہندو اُن کو افضل ترین انسان سمجھتے ہیں۔ii)ان کے بعد کشتری(چھتری یا کھتری)طبقہ ہے۔عقیدہ کی روشنی میں ان کی پیدائش برہما کے کندھوں اور ہاتھوں سے ہوئی ہے۔اور ان کا مرتبہ برہمنوں کے مرتبے سے بہت کم نہیں ہے۔iii)اُن کے نیچے ویش ہیں جو برہما کی ران سے پیدا ہوئے ۔اور آخریiv)شودر ہیں جو برہما کے پیروں سے پیدا ہوئے ۔یہی وہ چاروں طبقات ہیں جو ہندو تہذیب و تمدن میں آج بھی رائج ہیں۔برخلاف اس کے اسلام کی آمد نے ،ہندوؤں کے عقائد،تہذیب و تمدن اور فکرو نظریہ کو متاثر کیا ہے۔نتیجہ میں برادران وطن کی ایک بڑی تعداد وطن عزیز میں ایسی موجود ہے جو ورن وستھا یا ذات پات کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
گفتگو کے آخر میں ہندو تہذیب یا مذہب جس کے قیام و استحکام اورنظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے نظام کے لیے سعی و جہد کرنے والے افرادیا گروہ،جسے عرف عام میں آر ایس ایس کے نام سے جانا جاتا ہے،کے عزمحکم کو سمجھنا ہوگا۔جس کے نتیجہ میں وہ روز بہ روز طے شدہ نظریہ کے قیام میں قدم بہ قدم آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔چونکہ یہاں تفصیلی گفتگو کا موقع نہیں ہے اور نہ ہی اخبارات کی تحریراس بات کا مواقع فراہم کرتی ہے۔لہذا فی الوقت ہم اُس ترانہ کے کلمات آپ کو سنانا چاہتے ہیں جو آر ایس ایس سے وابستہ افراد ،پوری سمجھ بوجھ کے ساتھ،نہ صرف زبان سے ادا کرتے ہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی اس کے مظاہر سامنے آتے ہیں۔وہ الفاظ اس طرح ہیں:اِس عظیم زمین اور وطن کو ہم ہمیشہ سجدہ کرتے رہیں گے جس نے ہمیں اپنے بچوں کی طرح پیار و محبت دیا ہے۔ اس ہندو زمین پر ہم نے بڑے لطف کے ساتھ پرورش پائی ہے،بڑے ہوئے ہیں،یہ عظیم و مقدس زمین ہے، اس زمین کی حفاظت کے لیے ہم اپنے جسم وجان کی قربانی دیتے ہوئے ، اس زمین کو بار بار سجدہ کرتے رہیں گے ۔اے سرو قادر خدا، یہ ہندو قوم جزو کے طور پر تیرے سامنے سجدہ ریز ہے۔آپ ہی کے کام کے لئے ہم پابند عہد ہوئے ہیں۔ ہمیں اس کام کو مکمل کرنے کی صلاحیت عطا فرما۔ ہمیں ایسی غیبی طاقت عطا فرما کہ جس سے پورے عالم میں ہمیں کوئی شکست نہ دے پائے اور ایسی نرمی عطا فرما کہ جس کے نتیجہ میں پوری دنیا انکساری کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائے۔ یہ راستہ کانٹوں بھرا ہے، اس بات سے ہم باخوبی واقف ہیں، اس کے باوجود اس کام کو ہم نے خود قبول کیا ہے۔ اِس فہم کے ساتھ ہمیں کانٹوں پر چلتے ہوئے راستہ طے کرنے کی توفیق عطا فرما۔ساتھ ہی ایسا روحانی سکون عطافرما اور ایسی عظیم خوشحالی د ے جس کے ذریعہ سب پر سبقت لے جانے کی آگ ہمارے سینوں میں روشن ہو جائے، شدید ترین آگ، یک رنگی، بامقصد، مخلصانہ احساس کے ساتھ ،ہمارے ضمیر کو گرم رکھنے والی آگ، ہمارے اندر پیوست ہو جائے، حد درجہ احساس و اخلاص کے ساتھ یہ آگ ہمارے ضمیر کو روشن رکھے۔ اپنے فضل و کرم سے ہمیں مکمل فتح عطا فرما، منظم صلاحیتیں عطا فرما، ہمارے مذہب کا تحفظ کر ، ساتھ ہی اس قوم کو حتمی شان پر لے جانے میں ، ہماری مدد فرما۔|| بھارت ماتا کی جے||۔یہ ترجمہ اُس دعا کا ہے جو راشٹریہ سیوم سنگھ کی فکر،نظریہ اور عقیدہ کو واضح کرتی ہے۔ساتھ ہی یہ وہ بنیادی دعا ہے جس کے ذریعہ سنگھ کے کارکنان فکری غذا حاصل کرتے ہیں ۔نیز یہ دعا انہیں مقصد و نصب العین سے وابستہ رکھتی ہے۔وہیں لڑکیوں و عورتوں کی شاخا ، راشٹریہ سیویکا سمیتی اوربیرون ملک میں لگنے والی ہندو آر ایس ایس کی دعا مختلف ہے۔سنگھ کی شاخا یا دیگر پروگراموں میں اس دعا کو پڑھنا لازم ہے ،ساتھ ہی آر ایس ایس کے پرچم کے سامنے سلامی بھی دی جاتی ہے ۔
آپ جانتے ہیں کہ ملک عزیز میں ہندو نظام یا ورن وستھا کے قیام کی بہت ہی منظم کوششیں سنہ ۱۹۲۵سے جار ی ہیں۔نظریہ کے حامیوں نے نہ صرف بے شمار قربانیاں دی ہیں بلکہ اپنے قول و عمل سے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ مقصد و نصب العین کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں۔ان حالات میں گرچہ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ ملک میں ایسا بھی پایا جاتا ہے جو ورن وستھاکے قیام میں حائل ہے،اس کے باوجود وہ غیر منظم و سنجیدہ نہیں ہیں۔ٹھیک اُسی طرح جبکہ مسلمانوں پر مظالم توڑے جاتے ہیں اور وہ مسائل سے دوچار ہوتے ہیں،تو چند دنوں کے لیے زبانی جمع خرچ کرتے نظر آجاتے ہیں۔پس چند دن بھی نہیں گزرتے کہ ایک بارپھر خواب غفلت میں کھو جاتے ہیں۔برخلاف اس کے وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو نہ صرف قول و عمل میں تضاد سے پاک ہوں بلکہ جن کے حوصلے بلند اور نگاہ بصیرت بھی رکھتے ہوں۔ان حالات میں وہ تمام لوگ جو ورن وستھا کے قیام سے اتفاق نہیں رکھتے ،چاہیے کہ منظم ،منصوبہ بند اور فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے،یکساں مسائل میں یکساں لائحہ عمل کے ساتھ آگے بڑھیں۔لیکن اس بات کا لازماً خیال رکھا جائے کہ امن و امان کی فضا مکدر نہ ہو ساتھ ہی آئین کے طے شدہ دائرہ میں سرگرمیاں انجام دی جائیں!

«
»

جھوٹ بولے تو بولتے چلے گئے

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے