یگانۂ روزگار محدث و محقق ڈاکٹر نور الدین عتر رحمۃ اللہ علیہ
عبدالکریم ندوی گنگولی
استاد جامعہ ضیاءالعلوم کنڈلور کرناٹک
ہر بندۂ مؤمن کا عقیدہ یہ ہے اور لازمی طور پر یہی ہونا چاہیے کہ دنیائے فانی کی ہر چیز فنا کے گھاٹ اتار دی جائے گی، نہ کسی جاندار کو حیاتِ سرمدی حاصل ہے اور نہ ہی کسی غیر جاندار کو دائمی زندگی، البتہ کسی کو موت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے تو کسی کو معدوم کا لبادہ پہنادیا جاتا ہے، لیکن بعض نامور و دیدہ ور اور نابغۂ روزگار ہستیاں ایسی گزری ہیں اور کرونا کے اس ماحول میں سبک گامی سے گزر رہی ہیں جن کے وجودِ جسمانی کو سپردِ خاک تو کردیا گیا لیکن ان کے نقوشِ علم و عمل انمنٹ، لافانی و لاثانی ہیں، جن کی زندگی کا گوشہ گوشہ تاریک راہوں میں قندیلِ رہبری اور گم گشتہ دلوں کے لیے شمعِ ہدایت ہے، جن کے تابندہ کارناموں کے سامنے چاند، سورج اور ستاروں کی روشنی پھیکی اور ان کی لازوال قربانیوں اور بے مثال کاوشوں کے سامنے آسمان کی بلندیاں اور زمین کی وسعتیں بھی کم اور کمزور پڑجاتی ہیں، انہیں جیسی شخصیتوں میں علم و عرفاں کی جلوہ گاہ، تہذیب و ثقافت کا مرکز، تعمیراتی حسن و جمال کا محور اور خوبصورت و دلکش قدرتی مناظر سے مزین ملک، ملکِ شام کی ایک یگانہ روزگار ہستی، عظیم محدث و محقق اور کئی فنی و غیر فنی کتابوں کے مایہ ناز مصنف ڈاکٹر نور الدین عتر رح بھی ہیں جو اپنی عمر کی ٨٣ بہاریں گزار کر دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر گئے.
در حقیقت ڈاکٹر صاحب کی شخصیت دورِ جدید کے پر خطر و پر آشوب ماحول میں قومِ مسلم کے لئے نہ صرف باعثِ فخر ہے بلکہ قابلِ عمل بھی ہے، آپ علم و ادب کے پیکر، خوبی و کمال کا مجسمہ، سیرت و کردار کے مرقع، اعلیٰ اخلاق اور ستودہ صفات کے حامل تھے، گویا جن کے رخصت ہوجانے سے رشکِ ارم کا ایک دور ختم ہوگیا، آپ کی بے پایاں صلاحیتوں سے ہزاروں افراد نے استفادہ کیا، کور ذوقی و کور نگاہی کی ظلمتوں میں بھٹکنے والے بے شمار لوگوں نے آپ کی عمیق نظر کا فیضان پاکر علم و فن کی روشنیوں کا خوگر بن گئے، آپ کے سایۂ عاطفت میں نئی نسل پروان چڑھی، نوجوانانِ ملت نے آپ کے چشمۂ علم و معرفت سے سیرابی پائی، خداوندانِ مکتب نے علم و آگہی کا سبق سیکھا، گمراہ و بے راہ روں نے صراطِ مستقیم اختیار کی، دنیا پرستوں نے قعرِ مذلت کی پستیوں سے بلندیوں کی طرف اڑان بھری، تشنگانِ علم و ہنر کے قلب و نظر مقصدِ زندگی سے آشنا اور ابد الآباد جنت کے مشتاق ہوئے اور آپ کی نگاہِ بصیرت، فہم و فراست اور چشمِ بینا نے متاعِ جان و قلب کو گل و گلزار اور قلب و ذہن کی رنگارنگی کو گلبار کردیا، یہی وجہ ہے کہ ہزاروں عقیدت مند آپ کے پاؤں میں جوتے پہنانے اور اسے اٹھانے کو سرمایۂ افتخار سمجھتے تھے، آپ کی زندگی کا مطالعہ ہم جیسوں کی تاریک زندگیوں میں ان شاء اللہ ایک مشعلِ راہ ثابت ہوگا، جس کی روشنی میں انسانی قافلے اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں اور حصولِ مقصد میں کامیابی سے ہمکنار ہوں گے، اسی کے پیش نظر آپ کی زندگی کا مختصر خاکہ درج ذیل ہے.
ولادت و نام ونسب
آپؒ ملک شام کے شہرِ حلب میں بروز بدھ 17 صفر المظفر 1356ھ بمطابق 28 اپریل 1937ء کو بزمِ ہستی میں جلوہ گر ہوئے، آپ کی ولادت حلب کے محلہ بسان میں ہوئی، یہ فصیلہ اور باب نیراب کے درمیان واقع ہے اور یہ محلہ بستان علم کے لحاظ سے مشہور ہے، اس لئے اس محلہ کا نام "حارة الدین و الایمان" ہے اور بعض نامورعلماء کی نسبت بھی اس محلہ کی طرف کی جاتی ہے، آپ کا مکمل نام ڈاکٹر نور الدین عتر بن محمد بن حسن بن عتر رحمۃ اللہ علیہ ہے اور آپ خانودۂ حسنی کے چشم و چراغ ہیں، آپ کا سلسلۂ نسب حسن بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے، آپ کے شیخ عبداللہ الحماد آپ کو " اصیل الجدین " کہا کرتے تھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ والد اور والدہ کی طرف سے آپ کا سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متصِل ہے، چونکہ آپ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آل و اولاد سے ہیں اور اولاد کو عربی میں "عِتْر" کہا جاتا ہے، اسی لیے آپ "عتر" کے لقب سے ملقب ہوئے.
اہل و عیال
آپ نے علامة الکبیر عبداللّٰہ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ کی بیٹی سے نکاح کیا، جن سے آپ کے یہاں اولاد ہوئیں، جن میں 3 بیٹے اور 1 بیٹی شامل ہیں، جن کے نام یہ ہیں: محمد مجاھد، عبدالرحیم، یحییٰ، راویہ.
تعلیم و تدریس
ڈاکٹر صاحب نے اپنی آنکھیں ایسے خاندان میں کھولیں جو علم و اصلاح اور تمسک بالکتب و السنہ میں مصروف تھا اور یہ خاندان بلادِ شام میں تحقیق و تألیف کے ذریعے علوم اسلامیہ کو پھیلانے میں مصروفِ عمل تھا، اس خاندان سے تعلق رکھنے والے علماء کرام میں آپ کے دادا الشیخ محمد نجیب اور آپ کے ماموں الشیخ محدث عبداللّٰہ سراج الدین کے نام سرِ فہرست ہیں، آپ نے ثانویہ شرعیہ انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم دمشق میں پائی، پھر 1954ء میں مزید کلیہ شرعیہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جامعہ ازھر مصر چلے گئے اور 1958ء میں جامعہ ازھر سے فارغ التحصیل ہوئے، پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان "الإمام الترمذی والموازنۃ بین جامعہ و الصحیحین" میں اول پوزیشن حاصل کی، پھر آپ واپس حلب آگئے اور تدریس کا سلسلہ جاری رکھا، اسی دوران آپ دوبارہ شعبۂ تفسیر اور حدیث میں دراسات کو مکمل کرنے جامعہ ازہر کا رخ کیا، 1964ء میں آپ نے وہاں سے شھادۃ العالمیہ شعبۂ حدیث میں ممتاز حیثیت سے مکمل کیا، بعد اس کے آپ جامعہ دمشق میں علوم القرآن و الحدیث کے استاد اور رئیس مقرر ہوئے، اسی طرح کچھ عرصے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ پھر شام کی مختلف یونیورسٹیوں اور جامعات کے استاد رہے.
تصنیف و تحقیق کا بے پایاں شوق
آپ کے اندر تحقیق و تألیف کی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، لکھنے پڑھنے کا بے انتہا ذوق و شوق رگ و ریشہ میں پیوست تھا، ہر دم آنکھیں کتابوں کے دیدار اور ہاتھ ورق گردانی میں ملوث رہتے، آپ کا وقت زیادہ تر کتابوں کے مطالعہ اور تصنیف و تألیف میں صرف ہوتا، آپ ایک یگانۂ روزگار مصنف، محدث، فقیہ اور عظیم محقق تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ کے گوہر بار قلم سے درجنوں کتابیں منصۂ شہود پر آئیں اور قبولِ عام و خواص ہوئیں، آپ کی تحقیقات و تألیفات سے کثیر جامعات، کالجز اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کو تقویت پہنچ رہی ہیں، واضح رہے کہ تصنیف و تحقیق یہ جدا جدا میدان ہیں، دونوں کے رجال کار بھی الگ ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان دونوں صلاحیتوں سے نوازا تھا، ان کے یہاں جو خوبی تصنیف میں ہوتی ہے، وہی عمدگی تحقیق میں ہوتی ہے.
کتابوں میں جدت و ندرت کا پہلو
آپ کی کتابوں میں جدت و ندرت کا پہلو غالب ہے، جس فن میں بھی آپ نے کتاب لکھی یا تحقیقی کام کیا ہے، ان کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے اس فن کا نہ صرف حق ادا کیا بلکہ اسے مزید رونق بخشا اور اس طرح آپ کی ہر کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے، جو ان شاء اللہ آپ کے لیے ذخیرۂ آخرت ہے اور اہلِ علم کے لیے قیمتی سرمایہ اور بے مثال تحفہ ہے، الغرض آپ کی تحقیق و تعلیق پر مشتمل کتابوں مثلاً "شرح نخبۃ الفکر" اور "مقدمۃ ابن الصلاح" کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے یہاں تحقیق بلا وجہ یا تخریج بلا طائل نہیں ہوتی، نہایت اختصار کے ساتھ بقدرِ ضرورت اصل متن کی تشریح و توضیح کی حد تک خود کو پابند رکھتے ہیں، آپ کی تصنیف زیادہ تر علمِ حدیث میں ہے، مگر چونکہ وہ "قسم علوم القرآن والسنة" کے رئیس تھے، اس لئے علوم القرآن میں بھی آپ کی کتابیں دستیاب ہیں، لہذا کتاب "علوم القرآن" آپ کی بہترین تصنیفات میں شامل ہے، جس کا اسلوب سادہ اور مباحث کی ترتیب نہایت عمدہ ہے، وہ فنی بحثوں کے ساتھ استشراق کے شبہات ذکر کرکے ان کا ازالہ بھی کرتے ہیں، اسی طرح علم الحدیث میں بھی ان کی بہت ساری کتابیں ہیں، جن میں "منھج النقد فی علم الحدیث" اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی بلوغ المرام کی بہترین شرح "إعلام الأنام" زیادہ مشہور ہیں، اسی طرح "منھج النقد فی علوم الحديث" بنیادی طور پر اصول حدیث کی کتاب ہے، مگر پیرایہ بیان عام کتبِ اصول سے مختلف ہے، مباحث جداگانہ ہیں اور اصول کے انواع کی تقسیم و تنویع میں جدت و ندرت پائی جاتی ہے، گویا اصولِ حدیث معاصر سطح فہم کے مطابق ترتیب کے نئے سانچے میں ڈھل کر آئے ہیں، وہ اصولی مباحث کے ساتھ انواع کے تاریخی پہلو کا دراسہ بھی کرتے ہیں، محدثین کے منہج نقد کے داخلی و خارجی عوامل و اصول کو بھی زیرِ بحث لاتے ہیں، کتبِ حدیث کا تعارف و تذکرہ بھی کرتے ہیں، ساتھ ساتھ مستشرقین کے آراء و نظریات کی نشاندہی اور ان پر رد بھی کرتے ہیں، اس کے علاوہ علل حدیث پر آپ کی "علم علل الحدیث" "اصول الجرح والتعديل و علم الرجال" اور حدیث کے بلاغی اور جمالیاتی پہلو پر "فی ظلال الحدیث النبوی" لکھی ہے، جس کا نام شاید سید قطب الدین شہید کی "فی ظلال القرآن" سے مستفاد ہے.
تصنیفات و تحقیقات
آپ کی تحقیقات و تالیفات و تصنیفات کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے.
کتب تفسیر و علومہ
علوم القرآن الکریم
محاضرات فی تفسیر القرآن الکریم
تفسیر سورۃ الفاتحہ ام الکتاب
القرآن الکریم و الدراسات الادبیہ
احکام القرآن
تفسیر و استنباط
کیف تتوجہ الی العلوم والقرآن الکریم
الروایة فی تفسیر الجلالین و نقد مافیہ من روایات باطلة واسرائیلیات
کتب حدیث
منھج النقد فی علوم الحدیث
اصول الجراح و التعدیل
الامام الترمذی و الموازنة بین جامعہ و بین الصحیحین
اعلام الانام شرح بلوغ المرام لابن حجر عسقلانی
لمحات موجزة فی اصول علل الحدیث
معجم المصطلحات الحدیثیہ
السنة المطھرة و التحریات
فی ظلال الحدیث النبوی
علم الحدیث و الدراسات الادبیہ
مناھج المحدثین العامة فی الروایة التصنیف
جوامع الاسلام بمن احادیث سید الانام علیہ افضل الصلاۃ والسلام
فضل الحدیث النبوی الشریف وجھود الامة فی حفظہ
کتب فقہیہ
الحج و العمرۃ فی الفقہ الاسلامی
المعاملات المصرفیہ و الربویة و علاجھا فی الاسلام
ھدی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الصلاۃ الخاصہ
ابغض الحلال
ماھو الحج
المفاصلة بین الافراد و القرآن و التمتع فی الحج
اصلاحی و معاشرتی کتب
ماذا عن المرأة
النفخات العطریة من سیرة خبر البریة (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)
الاتجاھات العامۃ للاجتہاد و مکانة
صفحات من حیاة الامام شیخ الاسلام الشیخ عبداللّٰہ السراج الدین الحسینی
فکر المسلم و تحدیات الاف الثانیہ
حب الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الایمان
کتب محققہ
علوم الحدیث لابن الصلاح
شرح علل الحدیث لابن رجب
المغنی فی الضعفاء
حاشیہ نزھةالنظر فی توضیح نخبةالفکر فی مصطلح اھل الاثر
حاشیہ ارشاد طلاب الحقائق الی معرفة سنن خیر الخلائق
الرحلة فی طلب الحدیث للخطیب البغدادی
ھدایۃ السالک الی المذاھب الاربعة فی المناسک لابن جماعہ
اخلاق و مناقب
ربِ کائنات نے آپ کو جہاں بہت ساری علمی، تصنیفی، تألیفی اور تحقیقی میدان میں خصوصیات عطا فرمائی تھی، وہیں اعلیٰ اخلاق اور عمدہ کردار جیسے نیک صفات سے نوازا تھا، آپ کے صالح اخلاق اور فرشتہ صفت اعمال سے آپ کا ہر چاہنے والا بخوبی واقف ہی نہیں بلکہ قائل بھی ہے اور اگر کوئی دیکھ بھی لیتا تو ضرور واقف ہوجاتا، آپ کے اوصافِ حمیدہ ویسے تو انجم شماری کے بقدر ہیں لیکن ان میں چند نمایاں اوصاف کا ذکر افادۂ عامہ کے لئے درج ہے.
استاذ سے محبت
آپ اپنے اساتذہ سے بے پناہ محبت فرماتے، ان کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کرتے بلکہ اعلٰی ادب کا نمونہ پیش فرماتے، آپ کے مشائخ میں سب بڑا نام شیخ عبداللہ سراج الدین رحمۃ اللّٰہ علیہ سر فہرست ہے، آپ اپنے شیخ کا نام بغیر القاب کے ذکر نہ کرتے بلکہ ازرائے ادب سر بھی جھکالیتے، شیخِ مذکور کی وفات کے بعد آپ نے شیخ کی سیرت پر جداگانہ کتاب لکھی، جس کا نام "صفحات من حیاة الامام شیخ الاسلام الشیخ عبداللّٰہ السراج الدین الحسینی" ہے.
تواضع عاجزی
آپ تواضع،عاجزی و انکساری کا پیکر تھے، ہردم و ہر لمحہ اپنے آپ کو باوجود بے پناہ صلاحیتوں کے چھوٹا تصور کرتے اور گردانتے، آپ اپنے گمان میں اپنی ذات کو طالب علم سمجھتے اور عظیم عالمِ دین اور درجنوں کتابوں کے مصنف ایک عظیم محدث و محقق ہونے کے باوجود فرماتے: کہ میں جب تک باحیات ہوں، خود کو طالبِ علم اور طلاب العلم کا خادم سمجھتا ہوں اور ان کی خدمت کے لیے اپنا وقت صرف کروں گا.
شہرت و نام نمود سے دوری
زمانۂ حال میں خود نمائی و خود ستائی اور شہرت سے دل لگی کا روگ آج ہر کسی کو لگا ہے، دیندار حضرات بھی اس سے غیر محفوظ ہیں، لیکن آپؒ ایک خلوت پسند اور نام و نمود سے کوسوں دور تھے بلکہ ہمیشہ اپنے کاموں میں مشغول اور اپنی دھن میں مگن رہتے، آپ کی علمی مصروفیت اظہارِ حق اور اس کی تنشیر و تبلیغ میں مانع یا مخل نہیں ہوتی، آپ کو بے جا بحثوں میں پڑنا اور بے کار کاموں میں لگے رہنا پسند نہیں تھا، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ اُسی بحث میں پڑتے جس میں عظیم فائدہ ہو جیسا کہ علمی ابحاث آپ کا خاص مشغلہ تھا.
جواب دیں