یادوں کے جھروکے(3) مولانا امان اللہ صاحب بروڈ قاسمی رحمة اللہ علیہ : مہتمم جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن

از : مفتی فیاض احمد محمود برمارےحسینی

علاقہ کا پیٹرول پم حکومت کی طرف سے بند ہے،کچھ لوگ اپنے طور پر پیٹرول اور ڈیزل فروخت کررہے ہیں،مچھلی مارپیشہ وروں کے لئے سوسائٹی کی طرف سے جو ڈیزل یا پیٹرول رعایتی قیمت میں ملنا ہے وہ برابر مل رہا ہے،لیکن مچھلی نہ ملنے کی وجہ سے سارے بوٹ اور لانچ ساحل پر لنگر انداز ہیں، مچھلی مار پیشہ ور رعایتی قیمت میں ملا ڈیزل اصل قیمت میں دیگر سواریوں کے لئے فروخت کررہے ہیں،اسی دوران جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن کے دارالافتاء میں ایک استفاء آتا ہے،کہ جو ڈیزل مھچلی ماروں کو حکومت کی طرف سے رعایتی قیمت میں مل رہا ہے اسے اصل قیمت میں فروخت کرنا درست ہے یا نہیں؟دراصل مستفتی اسے درست  نہیں سمجھ رہاتھا اور مقصود یہ تھا عدم جواز کا فتوی حاصل کرکے اس عمل کرنے والوں میں سے دین دار طبقہ کو نشانہ بنائے ۔نیزمستفتی اس سوال کےجواب کا بڑی بے صبری سے منتظر ہے،باربار جواب کے سلسلہ میں جامعہ میں آکر استفسار کرنا معمول بن جاتا ہے۔
مربی ومخدومی مفتی نذیر صاحب حفظہ اللہ  الباری جو جامعہ کے صدر مفتی ہیں،اس سوال کی نزاکت اور اس کے پس منظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،تویہ بات واضح ہوتی ہے کہ دراصل مہتمم صاحب بھی مچھلی کے تاجر ہیں اور انھیں میں رعایت میں ڈیزل مل رہا ہے اور وہ بھی اصل قیمت میں فروخت کررہے ہیں،
اب یہاں سے اس سچی کہانی کی اصل شروعات ہوتی ہے،ایک طرف مستفتی کی طرف سے جواب کی جلدبازی،دوسری طرف اس کا جواب جامعہ کے مہتمم سے متعلق،اس سلسلہ میں اس اللہ کے ولی کا فیصلہ دیکھئے ،کس قدر دانشمندانہ اور منصفانہ فیصلہ ہے ،مہتمم صاحب مفتی صاحب سے فرماتے ہیں کہ اس سوال کا جواب پہلے جامعہ کے دارالقضاء سے نہیں دیا جائے گا،بلکہ اس استفتاء کو دارالعلوم دیوبند ۔جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل ارسال کیا جائے اور وہاں سے جو جواب آئے اس کی روشنی میں جامعہ کے دارالافتاء سے جواب دیا جائے تاکہ کسی قسم کی ادنی  تہمت کا امکان باقی نہ رہے،
*التقوا مواضع التھم* کے ذریعہ نصیحت کرنا بہت آسان ہے لیکن عملی نمونہ پیش کرنا بہت مشکل کام ہے،الغرض دارالعلوم دیوبند وغیرہ سے اس خریدوفروخت کے جوازکا جواب آتا ہے اور اس کے مطابق جامعہ کے دارالافتاء سے جواب صادر ہوتا ہے۔
مولانا اللہ صاحب جامعہ کے مہتمم تھے،جامعہ کا دارالافتاء ان کے زیر اہتمام تھا،وہ جانتے تھے کہ اس سوال کا جواب اگر جامعہ سے ہی دیا جائے تب بھی ان کی ذات ہرکوئی زد نہیں آئے گی،لیکن ان کے نزدیک جامعہ کا دارالافتاء اور اس سے متعلق مفتی صاحبان کی عزت ووقار عزیز تھا،وہ ہرگز اس بات کے لئے تیار نہیں تھے کہ اس جواب میں ادنی سا شبہ بھی باقی نہ رہے  جس سے یہ ظاہر ہوکہ  ان کی ذات کاخیال کا کچھ نہ کچھ خیال رکھا گیا ہے،اور کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ مسؤل  عنہ چوں کہ  جامعہ کے مہتمم ہیں اس لئے ایسا جواب آیاہے ۔یہ ہے احتیاط ،یہ ہے بے داغ زندگی،کس قدر جامعہ کی عزت کے مجروح ہونے کا احساس تھا،کس قدر شریعت اور اس کے خدام پر کسی قسم کی انچ آنے سے ڈرتے تھے۔

*سبق*
اس وقت کا المیہ یہ ہے کہ  اپنے عہدہ اور منصب کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے خلاف کو موافق بنانا دین سمجھاجاتا ہے،یہاں تو اپنے موافق کے اظہار میں ہچکچاہٹ صرف اتہام کی وجہ سے تھی،اپنے خلاف پوچھے گئےاستفاء کے جواب میں اس قدر تاخیر کی جاتی ہے کہ مستفتی ناامید ہو جاتا ہے،یا مستفتی پر ایسا دباؤ بنایا جاتا ہے کہ وہ از خود استفاء واپس لینے پر مجبور ہوجاتا ہے،اس لئے کہ ان لوگوں کے نزدیک ادارے نہیں اپنی ذات مقدم ہوتی ہے،اداروں کے وقار سے زیادہ اپنے وقار کی فکر دامن گیر ہوتی ہے،ائیے ہم مہتمم صاحب کے اس احتیاط والے پہلو سے سبق لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ تہمت اور اتہام کے مواقع سے بچنا اور دین اور شریعت کو بچانا یہ بھی بہت بڑی عبادت ہے،ورنہ بڑے بڑے زمہ دار، عابد،تہجد گذار اور اسلامی وضع قطع رکھنے والے افرادبہت سے معاملات میں متہم  ہونے سے بچنے کی کوشش کرتے نظر نہیں آتے  ہیں۔

مفتی فیاض احمد محمود برمارےحسینی
جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور

07 جولائی 2020 (فکرو خبر بھٹکل)

​​​​​

«
»

کورونا وائرس،لاک ڈاؤن حکومت اور غریب عوام

ہندو اقوام پر مسلمانوں کے احسانات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے