از : مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی ساٹ آٹھ سال قبل ایک درجہ کی دفتر میں شکایت پہنچ جاتی ہے۔اس درجہ والوں کو اپنے درجہ کے ساتھی پرقرائن کی وجہ سے شک ہوجاتا ہے۔پورا درجہ اس سے بائیکاٹ کردیتا ہے۔اس بائیکاٹ کی شکایت اساتذہ تک پھر دفتر تک پہنچ جاتی ہے۔دفتر میں اس درجہ […]
یادوں کے جھروکے(2) مولانا امان اللہ صاحب بروڈ قاسمی رحمة اللہ علیہ : مہتمم جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن
از : مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی
ساٹ آٹھ سال قبل ایک درجہ کی دفتر میں شکایت پہنچ جاتی ہے۔اس درجہ والوں کو اپنے درجہ کے ساتھی پرقرائن کی وجہ سے شک ہوجاتا ہے۔پورا درجہ اس سے بائیکاٹ کردیتا ہے۔اس بائیکاٹ کی شکایت اساتذہ تک پھر دفتر تک پہنچ جاتی ہے۔دفتر میں اس درجہ کے طلبہ جمع ہیں ۔دوچار اساتذہ ہیں۔عدالت کا سماں ہے۔اس قضیہ کے متلق گفت شنید ہوتی ہے۔کچھ دیر میں ایک استاذ کے علاؤہ باقی دفتر سے باہر چلے جاتے ہیں۔ایک استاذ ۔مہتمم ص اور اس واقعہ سے متعلق طلبہ موجود ہیں۔ *استاذ معاملہ کی نزاکت کے مدنظراور مصلحتا طلبہ سےمخاطب ہوتے ہیں*: *آپ کے دل میں مہتمم صاحب کے بارے میں جو اعتراض ہے یا شکایت ہے ۔وہ پیش کریں*۔ *ان میں ایک طالب علم کہتا* *ہےمہتمم صاحب کی طرف سے مجھے زیادتی محسوس ہورہی ہے* ۔ *استاذ گویا ہوتے ہیں کہ اگر آپ کے گمان کے مطابق واقعتا معاملہ ایسا ہے تو اللہ تعالیٰ ان سے بازپرس کرے گا* *یہ جملہ مہتمم صاحب کے کانوں سے ٹکراتا ہے اور مہتمم صاحب زاروقطار رونے لگ جاتے ہیں*
یہ سچی کہانی جب مجھے ایک جشم دید جامعہ کے فرزند نے سنائی۔ممکن ہے الفاظ میں فرق ہو لیکن خلاصہ یہی ہے۔تو میں دنگ رہ گیا۔حیرت اور استعجاب کی کیفیت بنی رہی ۔کیسا عجیب انسان تھا ۔اور قدرت نے کس قدر ظرف عطا کیا تھا۔اور بحیثیت ذمہ دار( کلکم راع مسئول عن رعیتہ) کا کس قدر احساس تھا۔اللہ کی طرف سے بازپرس کا کتنا استحضار تھا۔ خوف خدا کا دعویٰ بہت لوگ کرتے ہیں۔بہت سے لوگوں کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے دل میں خشیت الٰہی کا مینارہ قائم ہے۔لیکن جب اپنی ذات کا معاملہ آتا ہے تو پھر خوف خدا عنقاء ہوجاتا ہے۔اور عزت نفس پر آنچ آتی ہے تو تسبیح اور مصلی کا خیال دل سے نکل جاتا ہے۔جب انا کو ٹھیس پہنچتی ہے تو پھر انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔لیکن مہتمم صاحب آپ واقعتابڑے دل کے مالک تھے۔اپ کے دربار میں آپ کے متعلق ایک استاذ یہ جرات کرسکتا تھا ۔اور آپ سے بدگمان ہونے والے طلبہ کے ساتھ آپ کی طرف سے سوائے رب کے دربار میں اشکوں کے علاؤہ کچھ نہیں تھا۔یہ امرواقعہ ہے کہ ہم طلبہ بے جا بدگمانی کے شکار ہوجاتے ہیں ۔غلطی پر ہونے کے باوجود بھی اپنے بڑوں کو مورد الزام ٹہراتے ہیں۔اور ممکن ہے کہ اس واقعہ میں بھی طلبہ ہی غلطی پر ہوں اور بدگمانی کے شکار ہوں۔ لیکن اس بدگمانی پر آپ آف بھی نہیں کررہے ہیں۔اپ کی اولوالعزمی کو سلام۔اپ کی خشیت الٰہی کی یہ کیفیت قابل رشک۔
*سبق* یہ خدا شناس بندہ عملی طورہم سب کو بہت کچھ سکھا کر خاموشی سے رخصت ہوگیا۔ اس واقعہ کے پس منظر میں کئی سوال ہمارا منہ تک رہے ہیں۔ کیا ہمارے یہاں کسی استاذ یا ماتحت کارکن کا لب کشائی کرنا گناہ کبیرہ سمجھا نہیں جاتا ۔کیا ہمارے یہاں کسی استاذ کویہ اختیار ہوسکتا ہے؟ کیا ہم طلبہ کی طرف سے اپنی کسی کمی کی شکایت سننا پسند کرتے ہیں ؟۔کسی کے اعتراض کرنے کے بعد ہم رب کے حضور حاضر ہوکر اپنا محاسبہ کرتے ہیں یا اس کو فارغ کردیتے ہیں؟۔ہمارے طلبہ کی طرف اس طرح کی کسی بات پر ہم اشک بہاتے ہیں یا ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کا معاملہ کرتے ہیں۔خوف خدا کا امتحان ایسے ہی مواقع پر ہوتا ہے۔سکہ کے دوسرے رخ سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔جامعہ کے ہمارے اساتذہ کا مہتمم صاحب کے ساتھ تال میل بھی کس قدر حسین اور قابل تقلید ہے کہ بہت سے معاملات میں مہتمم صاحب اساتذہ کو شریک کررہے ہیں۔یہ اساتذہ پر اعتماد کی دلیل ہے۔اس لئے اساتذہ کو زمہ دار کا اعتماد حاصل کرنابھی ضروری ہے۔کیا ہمارے اساتذہ اس کی کوشش کرتے ہیں یا ہروقت زمہ دار کے لئے فریق مخالف اور اپوزیشن کا رول اپناتے ہیں۔جب تک اساتذہ زمہ دار یا مہتمم کے دست وبازو نہیں بن جاتے وہ ادارہ ترقی نہیں کرسکتا۔ یقینا مہتمم صاحب کی زندگی زمہ داریوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔۔ائیے۔مہتمم صاحب کی زندگی کو نشان راہ بناکر خشیت الٰہی کے امتحان میں کامیاب ہونے کا عہد کرتے ہیں۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں