یادوں کے جھروکے۔(1)
مولانا امان اللہ صاحب بروڈ قاسمی (مہتمم جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن)
از: مفتی فیاض احمد محمود برمارےحسینی
ایک طالب علم پر جنونی کیفیت طاری ہوتی ہے ۔مغرب سے پہلے ہی سے ذکر جہری شروع کردیتا ہے۔مغرب بعد یہی کیفیت نظر آتی ہے۔جامعہ کے پورے احاطہ میں چپل پہننا جامعہ کے تقدس کے خلاف سمجھتا ہے۔اساتذہ کی اصلاح شروع کردیتا ہے۔مجھ سے کہتا ہے آپ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ مجھ پر جنات کا اثر ہوا ہے؟ایسی بات نہیں ہے۔سنت کے خلاف ہر چیز پرنکیر شروع کردیتا ہے۔مہتمم صاحب کو اطلاع دی جاتی ہے۔مہتمم صاحب طالب علم کے گھروالوں سے بات کرکے صبح اس کی گھر روانگی کی ترتیب بنا کررات تقریبا دس بجے جامعہ تشریف لاتے ہیں ۔طالب علم کے بغل میرے ساتھ کچھ طلبہ واساتذہ کھڑے ہیں مہتمم صاحب قریب پہنچتے ہیں اس بیمار طالب علم کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دیتے ہیں۔
طالب علم گویا ہوتا ہے۔
آپ ناانصافی کرتے ہیں۔مالدار طلبہ کی رعایت کرتے ہیں۔
یہ منظر بڑا عجیب ہوتا ہے ۔مہتمم صاحب اس طالب علم کی باتوں کو سنتے ہیں سب کے سامنے سنتے ہیں ۔چہرہ پر نہ شکن۔نہ کسی قسم کا تغیر۔بلکہ سرپرجیسا ہاتھ تھا اسی کیفیت کے ساتھ گھوم رہا ہے۔ہم لوگ ڈرجاتے ہیں کہ اساتذہ و طلبہ کے سامنے مہتمم صاحب کو اس طرح کے الفاظ کہہ رہا ہے ۔اب پتہ نہیں کیا ہوگا۔لیکن قربان جاؤں مہتمم صاحب کے اخلاق پر اور قوت برداشت پر۔طلبہ کے ساتھ شفقت پر۔کیسا حلیم تھا یہ انسان۔کیسی بردباری تھی اس کے سینے میں۔کیسی شفقت تھی مہمانان رسول کے ساتھ۔
سبق
ہم سب کے لئے اس واقعہ سے عبرت لینے کی ضرورت ہے خصوصا اداروں اور مدارس کے ذمہ داروں کو کہ اپنے چھوٹوں سے درگذر اور بردباری سے پیش آنے کی کس قدر ضرورت ہے۔اور طلبہ کے ساتھ شفقت اور محبت ہی آپ کو بہت بلند مقام عطا کرتی ہے ۔پیارے رسول ص فرمان کا عکس مہتمم صاحب میں نظر آتا تھا جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔اللہ کرے اس فرمان پر ہم بھی مکمل طور پر عمل کرنے والے بن جائیں۔۔امین۔
جواب دیں