یادوں کے جھروکے(5) مولانا امان اللہ صاحب بروڈ قاسمی رحمۃ اللہ علیہ مہتمم جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن

از: مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی

آج سے تقریبا ڈھائی سال قبل 2017 میں ، میں ششماہی چھٹیوں میں گھر پر تھا ،مشفقی ومربی استاذ محترم کا فون آتا ہے اس گمان کے ساتھ کہ میں کنڈلور میں ہوں کہ میں اور مہتمم صاحب بھٹکل آرہے ہیں،جب میرے گھرپرہونے کا علم ہوا تو سفر میں ساتھ چلنے کے لئے کہا،بھٹکل کا یہ سفر مولانا ابوالحسن اکیڈمی کی طرف سے منعقدہ پروگرام بعنوان نئی نسل میں ایمان پر اعتماد کی کمی ۔۔۔ اسباب اور اس کا حل میں مولانا الیاس صاحب کی دعوت پر تھا۔ یہ  پروگرام اپنی نوعیت کا انوکھا پروگرام تھا جس میں ملک بھرکی معزز شخصیات مدعو تھیں انھیں میں کوکن سے مولانا مرحوم اور مفتی رفیق صاحب تھے،مفتی صاحب کے حکم پر میں ٹکٹ بنالیا اور ہم تین نفر پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ بذریعہ ٹرین بھٹکل کے لئے روانہ ہوا،یہ دونوں حضرات مانگاؤں سے سوار ہوئے اور میں چپلون سے ان بزرگوں کے ساتھ ہولیا،رات میں کھانے سے فارغ ہوکر اپنی اپنی سیٹ پر آرام کے لئے لیٹ گئے۔میری سیٹ چونکہ دوسرے ڈبہ میں تھی،چنانچہ میں بھی اپنی جگہ پر پہنچ کر سوگیا۔
رتناگری ضلع میں داپولی شہر میں مرکزی دارالقضاء کے زیرنگرانی ایک دارالقضاء جاری ہے،اس میں بطور قاضی مفتی شہبازمقادم صاحب،مفتی حسین مقادم کی قیادت میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان حضرات کے پاس ایک قضیہ اتا ہے۔قضیہ کی نزاکت کی بناء اسے مرکزی دارالقضاء جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ چنددن کے بعد اس قضیہ میں مدعا علیہ تبریز نامی نوجوان کو غیر قانونی سرگرمیوں اور دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے،چوں کہ مسلم دشمن عناصر کی طرف سے تفتیشی ایجنسیوں کے افسروں کے دماغ میں یہ بات بٹھادی گئی ہے کہ ان نوجوانوں کو تیار کرنے کے پیچھے مذہبی شخصیات کا کردار ہوتا ہے ۔اس بنیاد پر یہ تحقیق شروع ہوتی ہے کہ علاقہ کے کس مذہبی شخص سے اس نوجوان کے تعلقات رہے ہیں،سوء اتفاق اس نوجوان کی اپنے قضیہ کے لئے دوتین دفعہ دارالقضاء آمدورفت کو بنیاد بناکر مفتی شہباز مقادم کو شک کے دائرہ میں  گھیرا جاتا ہے، ان پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے،کئی دنوں تک ان کی نقل وحرکت کو نوٹ کیا جاتا ہے جب کہ اس صالح نوجوان کو اس کے بارے میں کچھ بھی خبر نہیں۔ جس روزہم بھٹکل کی طرف پابہ رکاب تھے اسی شام پانچ بجے تفتیشی ایجنسی کی ایک ٹیم دارالقضاء پہنچ جاتی ہے اور تقریبا رات کے نو بجے تک مستقل سوالات کرکے کسی نہ کسی طرح اس مشکوک نوجوان سے مفتی صاحب کے تانے بانے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں،پھر رات بارہ بجے کے قریب یہ تفتیش کار انھیں کاندیولی کالا چوکی لے جاتے ہیں،یہ سنسی خبر بجلی کی طرح پورے علاقہ میں پھیل جاتی ہے۔اس لئے کہ ہمارے علاقہ میں کسی عالم دین کے سلسلہ میں اس طرح کی کاروائی پہلی بار تھی،اس لئے خوف کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔پھر بفضل اللہ دودن کے بعد مفتی صاحب کو کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمی کا سراغ نہ ملنے پر باعزت رہا کیا جاتا ہے۔
صبح بھٹکل اترنے کے قریب جب میں اپنے بزرگوں کے پاس پہنچا تو ان کے چہرے پرتغیر اورفکرمندی کے آثار دیکھ کر پریشان ہوگیا،استفسار سے پہلے ہی مفتی رفیق صاحب فرمانے لگے کہ رات ایک بجے مفتی مظفرحسین صاحب نے فون کے ذریعہ مذکورہ واقعہ کی اطلاع دی،کچھ دیر کے بعد ہم بھٹکل ریلوے اسٹیشن اترکر جامعہ اسلامیہ بھٹکل پہنچ گئے۔پھر بروقت پروگرام شروع ہوکر حسن اختتام کو بھی پہنچا۔لیکن مہتمم صاحب کے چہرہ کے اتار چڑھاؤ سے یہ بات صاف محسوس کی جارہی تھی کہ وہ کسی اوردنیا میں گم ہیں،جب بھی موقع ملتا مفتی رفیق صاحب سے سوال کرتے کہ کچھ خبر؟ نیز اپنے تعلقات کی بناء پر جہاں جہاں وہ فون لگا سکتے تھے لگارہےتھے۔ پورادن عجیب کیفیت میں رہے گویا ان کے گھر کے کسی سگے کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا ہو،جب بھی ہم تینوں  یکجا ہوتے ہماری گفتگو کا موضوع یہی رہتا،اور کسی لائحہ عمل اور منصوبہ کے متعلق ان دونوں بزرگوں کو مشورہ کرتے پاتا۔
مہتمم صاحب کو جامعہ میں موجود طلبہ کے لئے ٹرپتے متعدد بار دیکھا تھا،لیکن فارغین کے لئے اس قدر مضطرب پہلی بار دیکھا تھا،حقیقت بھی یہی تھی کہ مہتمم صاحب کو جامعہ کے فرزندوں سے بھی بڑی محبت تھی اور کیوں نہ ہو کہ سارے فارغین اسی گلشن رحیمی کے پھلتے پھولتے پھل پھول ہیں جس کی سینچائی اس باغباں نے اپنے خون پسینہ سے کی ہے ،یہی وجہ تھی پورے علاقہ کوکن میں کسی بھی گاؤں اور دیہات میں یا بیرون ملک  مہتمم صاحب کا سفر ہوتا تو فارغین جامعہ عقیدت اور عظمت کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضری کو سعادت سمجھتے تھے،اوراس حاضری میں بہت سوں کامقصد تو مہتمم صاحب کے مزاحیہ انداز سے لطف اندوز ہونے کا ہوتاتھا،وہ فارغین کے ساتھ بالکل دوستانہ تعلقات رکھتے تھے، اور ہنستے ہنساتے کام کی بات بھی سمجھادیتے تھے،نیزفارغین کی خدمات کا جائزہ لیتے رہتے تھے،اور خوش بھی ہوتے تھے۔چاہے ان خدمات کے سلسلہ میں ان سے مشورہ کیا  گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو،اس سے ان کوئی فرق نہیں پڑتا تھا،وہ چاہتے تھے کہ کسی بھی طرح اللہ کے دین کا کام ہوجائے،یہاں تک ابناء جامعہ کی طرف بنائی گئ تنظیموں یا چھوٹے چھوٹے اداروں کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے جن کے سلسلہ میں مہتمم صاحب سے مشورہ نہ کیا گیا،کسی کو ایسے ابناء پر اعتراض ہوتا تو اس کی فہمائش کرتے اور فرماتے  یہ بھی دین کا ہی کام ہے،اس کا اجر  بھی جامعہ کے حصہ میں ہے ،وقتافوتاً فارغین جامعہ کو جامعہ میں جمع فرماتے،خاص طورپر جب کسی اللہ والے کی جامعہ آمد ہوتی تو ابناء جامعہ کو ضرور دعوت دیتے،سالانہ جلسہ کی دعوت دینے کا بھی اہتمام فرماتے۔

سبق
یہ حقیقت ہے کہ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے ۔اسی طرح اداروں کا تعارف اور پہچان اس کے ابناء اور فارغین ہوتے ہیں،فارغین اور ادارے کے درمیان مضبوط اور مستحکم ربط ہونا بہت ضروری ہے۔اور ربط کے لئے جہاں فارغین کو کوشش کرنی چاہیے وہیں ادارے کے ذمہ داران کو بھی ایک قدم آگے بڑھ اس کے اسباب اور عوامل کو اختیار کرناچاہیے،جس سے ادارہ کی ترقی بھی  ہوتی ہے اوراسے اپنے مشن میں کامیابی کے لئے اسپرٹ بھی ملتی ہے،مولانا مرحوم کی زندگی کے روشن پہلوؤں میں سے ایک پہلو یہ بھی رہا کہ مولانا نے  ہمیشہ اپنے ابناء کو جوڑے رکھنے کی بھرپور کوشش کی،ہمیں امید ہے کہ مولانا کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا،اور دیگر ذمہ داران مدارس سے بھی کہ  وہ مہتمم صاحب کے اس روشن پہلو کی روشنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ابناء اور فارغین سے تعلقات کو مزید استوار اور مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے۔

مضمون نگار جامعہ ضیاء العلوم کنڈلورکے استاد ہیں۔

09 جولائی 2020 (فکروخبربھٹکل)

«
»

کورونا وائرس،لاک ڈاؤن حکومت اور غریب عوام

ہندو اقوام پر مسلمانوں کے احسانات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے