ڈاکٹر سلیم خان
مہاراشٹر کے اندر ضابطہ اخلاق نافذ ہونے سے قبل ناسک شہر میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا پہلے ہمارا نعرہ تھا ”کشمیر ہمارا ہے،اسے سورگ بنانا ہے“۔ یہ بھی عجیب احمقانہ نعرہ تھا کہ جنت کو سورگ بنانا ہے خیر اس چکر میں ان لوگوں نے اسے نرک بنادیا اب نیا نعرہ یہ لگایا جارہا ہے کہ،”کشمیر کو پھر سے جنت بنانا ہے اور اسے ایک بار پھر جنت نشان بنانے میں مدد کیجئے“۔ اس اپیل سے دوباتیں ظاہر ہوتی ہیں اول تو یہ کہ کسی زمانے میں کشمیر جنت نشان تھا اور دوسرے یہ کہ ابھی نہیں ہے اس لیے پھر سے یہ کام کرنا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کارِ خیر کے لیے کس کی مدد کریں؟ ان لوگوں کی جنہوں نے جنت نشان کشمیر کو جہنم زار بنادیا؟ مودی جی یہ بھی کہاکہ ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کو مشکلات اور ان زخموں سے باہر نکالنا ہیجن کا ایک عرصے سیوہ شکار ہوتے رہے ہیں۔ اب ہمیں نیا کشمیر بنانا ہے اور ہر کشمیری کو گلے لگانا ہے“۔ یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کو لہو لہان کس نے کیا؟ جن کو گلے لگانے کی بات کی جارہی ہے ان کے اعتماد کا گلا کس نے کاٹا؟
وادی کشمیر کے متعلق حکومت ہند کا یہ دعویٰ اب سچ ہوتا جارہا ہے کہ جو کام 70 سالوں میں نہیں ہوسکا وہ 70 دن میں کردیا۔ کانگریس نیجس معاملے کو عالمی بساط سے ہٹا کردو فریقی بنادیا تھا اب وہ ہر بین الاقوامی فورم میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ پہلے تنہااور پھر وزیر اعظم کی موجودگی میں ثالثی کی پیشکش کرچکے ہیں۔ کشمیر کے کشیدہ حالات 7 ویں ہفتے میں داخل ہوچکے ہیں۔ ان کے معمول پر آنے کے امکانات مفقود ہیں۔ حزب اختلاف تو دور خود بی جے پی کے سابق وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ یشونت سنہا کو بھی حکومت نے سری نگر ہوائی اڈے سے زبردستی لوٹا دیا ہے۔ واپسی کے بعد انہوں نے دہلی میں طنزاً کہا کہ وہ ”دفع 370 ختم ہوجانے کے بعد ’حالات کے معمول پر آنے کا جشن‘منانے کی خاطر سرینگر گئے تھے۔اس مشن میں یشونت سنہا کے ساتھ ایک کشمیری پنڈت ائر مارشل ریٹائرڈ کپل کاک تھے جو 17 سال کی عمر میں ائر فورس کے اندر شامل ہوئے اور 40 سال تک اپنی خدمات پیش کرنے کے بعد اعلیٰ ترین عہدے پر سبکدوش ہوئے۔ ان کے علاوہ معروف سماجی کارکن سشوبھا بھاوے بھی تھیں۔
حکومت کی بوکھلاہٹ کا یہ کھلا ثبوت ہے کہ اسے مختلف امراض کا شکار 82 سالہ اپنے ہم نظریہ رہنما سے بھی امن کو خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ 2016 کے بعد سے یشونت سنہا کی قیادت میں فکرمند شہریوں کا یہ گروپ (Conceed Citizen Group) کئی مرتبہ وادی کا دورہ کرچکا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت حالات معمول پر تھے یا ا ب ہیں جبکہ انہیں بے رنگ لوٹا دیا گیا ہے؟یشونت سنہا کو واپس بھیجنے سے قبل دیگر ساتھیوں سے الگ کردیا گیا بلکہ ان لوگو ں کوایک کمرے میں بند کرکے تالا لگا دیا گیا تاکہ وہ مدد کے لیے نہ آسکیں۔ ان کو روکنے کی خاطر طرح طرح کے پینترے بدلے گئے۔ پہلے کہا گیا آپ سے نقص امن کا خطرہ ہے پھر یہ بات بنائی گئی ہے آپ کے باہر جانے سے دفع 144 کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس کے بعدجب انہوں نے کہا اگر ایسا ہے تو مجھے گرفتار کرلو تو کہا گیا کہ یہ فوجی ہوائی اڈہ ہے۔ اس لیے یہاں رات بتانے کی اجازت نہیں ہے۔
سارے حربیجب ناکام ہوگئے تو انہیں وہیل چیئر پر بٹھا کر باہر چلنے کے لیے کہا گیا اور دھوکے سے دودرجن حفاظتی دستوں کی مدد لیکر زبردستی ہوائی جہاز میں ٹھیل دیا گیا۔ یشونت سنہا کے ساتھ کیا جانے والا سلوک گواہی دیتا ہے کہ کشمیر کے حقائق کو چھپانے کی خاطر حکومت کس قدر پریشان ہے اور جیسا کہ انہوں نے دہلی واپس آکر ستیا چینل پر کہا‘حکومت کا دعویٰ پوری طرح کھوکھلا ہے‘۔ مر کزی حکومت کی اس حماقت خیز حرکت نے ساری دنیا کے سامنے اس کی کمزوری کو بے نقاب کر دیا۔کشمیر کے معاملے میں سنہا نے عدالت عظمیٰ کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے اسے ویزا کا دفتر بنا دیا گیا ہے۔ یہ الزام درست لگتا ہے ورنہ ہندوستان بھر میں سیاسی سرگرمیوں کی جو آزادی ہے اسے عدالت نے وادی کشمیر میں کیوں سلب کررکھا ہے؟
عدلیہ سے پابندی اٹھانے کے لیے رجوع کیا جاتا ہے لیکن وہ خود پابندی لگانے میں مصروف ہے۔ سی پی ایم کے سربراہ سیتا رام یچوری کو اجازت دیتیہوئے چیف جسٹس رنجن گوگوئی یہ دھمکی دی تھی کہ آپ ایک پارٹی کے جنرل سکریٹری ہیں اگر آپ عدالت عظمیٰ کی حکم عدولی کے مرتکب ہوئے اور کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لیا تو حکام اس سے سپریم کورٹ کو مطلع کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دھمکی آمیز لہجے پر احتجاج کرنے کے بجائے سیتا رام یچوری نے سپر ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ جموں و کشمیر پہنچنے کے بعد مقامی حکام کو اپنی آمد سے مطلع کر دیں گے اور دہلی واپس آکرسپریم کورٹ میں اس کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے حلف نامہ داخل کریں گے۔ ایسی پابندی تو پاکستان جانے والے زائرین پر بھی نہیں لگائی جاتی خیر سے یہ تو اپنا اٹوٹ انگ کشمیر ہے۔
مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری کو اپنے رفیق جماعت اور سابق ممبراسمبلی محمد یوسف تریگامی سے ملاقات کرنے کی دو بار کوشش کی میں دو بار سری نگر ہوائی اڈے سے ناکام و نامراد واپس آنا پڑتا ہے۔اس کے بعد وہ سپریم کورٹ سے رجوع ہوے تو اجازت ان شرائط کے ساتھ ملی کہ وہ سری نگر کے علاوہ کہیں اور نہیں جائیں گے اور نہ ہی کوئی بیان بازی یا سیاست بازی کریں گے۔ صرف تریگامی سے ملاقات کر کے دہلی واپس آجائیں گے اور اس دورے کو سیاسی مقصد کے لیے قطعاً استعمال نہیں کریں گے۔ ماہرین ِ دستور کو اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا سپریم کورٹ اس طرح کی ہدایات دینے کے لیے حق بجانب ہے؟ ویسے تو عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ ا ٓزادانہ طور پر بغیر کسی دخل اندازی کے کام کرتے ہیں لیکن بظاہر مقننہ کو عدلیہ پر یک گونہ فوقیت دکھائی پڑتی ہے۔ اس سے قبل سیاستدانوں کے ذریعہ عدالت کو بلا واسطہ مرعوب کرنے کی وارداتیں ہوتی تھیں ؟ لیکن اب تو عدلیہ کھلم کھلا احکامات صادر کررہا ہے۔
حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جموں کشمیر کو دیگر ریاستوں کا ہمسر بنانے اور وہاں پر نافذ مختلف پابندیوں کو ہٹانے کی خاطر دفع 370 کو ختم کیا گیا۔ اس میں اگر کوئی صداقت ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے ہندوستان کی وہ کون سی ریاست ہے جہاں راہل گاندھی کو دورہ کرنے سے روک کر ہوائی اڈے سے لوٹا دیا جاتا ہیجبکہ ان کے وفد میں غلام نبی آزاد، شرد یادو، ڈی راجا اور سیتا رام یچوری جیسے سینئر قومی رہنما موجود ہوں۔ کشمیر میں کرفیو کے 20 دن بعد راہل گاندھی کے اس دورے نے ر یاستی گورنر ستیہ پال ملک کے اس دعویٰ کی بھی ہوا نکال دی جس میں انہوں نے کشمیر کی صورتحال کو بہتر بتاتے ہوئے راہل گاندھی کو کشمیر کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی اور انہیں ریاستی ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کی پیشکش بھی کردی تھی۔ اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے راہل گاندھی نے لکھا تھا ”اس دورہ کے لیے ہمیں کسی خاص طیارے کی ضرورت نہیں ہے، بس آپ وادی میں ہمارے گھومنے اور عام لوگوں سے ملنے کی آزادی کو یقینی کر دیں۔ مین اسٹریم لیڈروں اور وہاں تعینات جوانوں سے ہماری ملاقات کو یقینی بنائیں“۔راہل گاندھی جب سرینگر ائیرپورٹ پر پہنچے تو ستیہ پال ملک اور ان کا ہیلی کاپٹر گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب تھے۔ بیس دن کے بعد رسوائی کا شکار ہونے والے گورنر کو چالیس دن بعد وزیراعظم سے ملاقات کے لیے دہلی آنا پڑا۔
ایوان بالا کانگریس سب سے بڑی جماعت ہے۔ اس کے رہنما غلام نبی آزاد اتفاق سے کشمیری ہیں۔وہ 6 بار کے رکن پارلیمان اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں۔ دفع 370 کو برخواست کرنے کی انہوں نے زبردست مخالفت کی اور اس کے بعد تین مرتبہ 8، 20 اور 24 اگست کو جموں و کشمیر جانے کی کوشش کی لیکن انہیں سرینگر یا جموں ہوائی اڈے سے واپس بھیج دیا گیا۔ بالآخر انہیں بھی اپنے صوبے میں جانے کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔اغلام نبی آزاد کو بھی کشمیر جانے کی اجازت ملی تو اس ہدایت کے ساتھ کہ وہ صرف 4 اضلاع یعنی اننت ناگ، بارامولا، سرینگر اور جموں میں ہی جاسکتے ہیں۔ اس دورے کے دوران وہ کسی سیاسی پروگرام میں حصہ نہیں لیں گے۔ واپسی کے بعد انہیں بھی سپریم کورٹ کو ایک رپورٹ سونپنی ہوگی۔ عدلیہ کی یہ دخل اندازی صرف ایک ریاست تک محدود کیوں ہے؟ کیا یہ تفریق و امتیاز نہیں ہے؟ ان پابندیوں کا جواز اگر کشمیر کی سنگین صورتحال ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہاں کے حالات معمول پر آنے کے بجائے دگر گوں ہوگئے ہیں۔ یہ بات ساری دنیا کہہ رہی ہے لیکن حکومت مان کر نہیں دے رہی۔ اس کو کہتے ہیں شتر مرغ کی مانند ریت میں منہ چھپانا یا آنکھ بند کر دودھ پینا۔
یشونت سنہا، غلام نبی آزاد، چدامبرم یا کپل کاک کی خوبی یہ نہیں ہے کہ وہ صرف کشمیر کے اندر سختیوں کے باعث ہونے والی صعوبتوں پر افسوس جتاتے ہیں بلکہ اس کی بنیادی وجہ دفع 370 کو ہٹانے اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے پر تنقید کرتے ہیں۔یہ ذمہ داری نہایت حسن و خوبی کے ساتھ غلام نبی آزاد اور چدامبرم نے ایوان پارلیمان میں ادا کی۔ اس ظلم کے خلاف بغیر کسی عصبیت کا شکار ہوئے کپل کاک نے عدالت عظمی ٰ سے رجوع کیا اور حکومت کے غیر آئینی اقدام کو چیلنج کیا۔ یشونت سنہا نے ذرائع ابلاغ میں صاف کہا کہ حکومت آئندہ تین صوبوں میں انتخاب جیتنے کی خاطر یہ سب کررہی ہے۔ دفع 370 کوختم کرنا اور 371 کو باقی رکھنا تفریق و امتیاز ہے۔ انہوں نے ملک کی تمام ہی ریاستوں کو دفع 370 جیسی مراعات دینے کی وکالت کی۔ یشونت سنہا نے عدلیہ کے ذریعہ امن و سلامتی کے نام انسانی حقوق اور آزادی رائے پر قدغن لگانے کے خلاف بھی اعتراض کیا۔ ظالم کے لیے جواز پیش کرکے اس کی بلا واسطہ حمایت کرنے سے ظلم کی آندھی نہیں تھمتی بلکہ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے جبر کا حصار ٹوٹتا ہے اور شاعر کہتا ہے
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
30ستمبر2019(فکروخبر)
جواب دیں