ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
حج کے ایام شروع ہوگئے ہیں۔ امسال (۲۴۴۱) سعودی عرب میں مقیم مختلف ملکوں کے باشندے (تقریباً ساٹھ ہزار) ہی حجاج کرام کی حفاظت اور سالمیت کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے حج بیت اللہ ادا کرسکیں گے۔ غرضیکہ گزشتہ سال کی طرح امسال بھی دنیا کے چپہ چپہ سے ضیوف الرحمن حج کی ادائیگی نہیں کرسکیں گے۔ حج‘ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی طرح اسلام کا ایک اہم بنیادی رکن ہے۔ تمام عمر میں ایک مرتبہ ہر اس شخص پر حج فرض ہے جس کو اللہ نے اتنا مال دیا ہو کہ اپنے گھر سے مکہ مکرمہ تک آنے جانے پر قادر ہو اور اپنے اہل وعیال کے مصارف واپسی تک برداشت کرسکتا ہو۔ اس موقع پر امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہئے کہ مسلسل دوسرے سال دنیا کے کونے کونے سے عازمین حج‘ حج کی ادائیگی کے لئے سفر نہیں کرسکیں گے۔ اللہ ہم سب کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
ہزاروں عازمین حج‘ حج کا ترانہ یعنی لبیک پڑھتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچ گئے ہیں۔ حجاج کرام اسلام کے پانچویں اہم رکن کی ادائیگی کے لئے دنیاوی ظاہری زیب وزینت کو چھوڑکر اللہ جل شانہ کے ساتھ والہانہ محبت میں پانچ یا چھ روز مشاعر مقدسہ (منی، عرفات اور مزدلفہ) میں رہیں گے اور وہاں حضور اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ پر حج کی ادائیگی کرکے اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانیوں کے ساتھ جوڑیں گے۔ حج کو اسی لئے عاشقانہ عبادت کہتے ہیں کیونکہ حاجی کے ہر عمل سے وارفتگی اور دیوانگی ٹپکتی ہے۔ حج اس لحاظ سے بڑی نمایاں عبادت ہے کہ یہ بیک وقت روحانی، مالی اور بدنی تینوں پہلوؤں پر مشتمل ہے، یہ خصوصیت کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں ہے۔ اتوار (۸ ذو الحجہ) کو عازمین حج حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں منی میں رہ کر عبادت کریں گے۔ منی مکہ سے ۴۔۵ کیلومیٹرکے فاصلہ پر دو طرفہ پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑا میدان ہے۔ حجاج کرام ۸ ذی الحجہ کو اور اسی طرح ۱۱، ۲۱ اور ۳۱ ذی الحجہ کومنی میں قیام فرماتے ہیں۔ منی میں ایک مسجد ہے جسے مسجد خیف کہا جاتا ہے۔ اسی مسجد کے قریب جمرات ہیں جہاں حجاج کرام کنکریاں مارتے ہیں۔ منی ہی میں قربان گاہ ہے جہاں حجاج کرام کی قربانیاں کی جاتی ہیں۔
پیر (۹ ذو الحجہ) کو عازمین حج منی سے عرفات کے لئے روانہ ہو جائیں گے، جہاں انہیں ظہر تک پہنچنا ہوتا ہے۔ عرفات منی سے تقریباً ۰۱ کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ عرفات کے شروع میں مسجد نمرہ واقع ہے، جہاں ظہر کے وقت حج کا خطبہ پیش کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ظہر وعصر کی نمازیں ظہر کے وقت میں ادا کی جاتی ہیں۔ اسی جگہ پر حضور اکرم ﷺ نے خطبہ دیا تھا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے۔ جس کے بعد حجاج کرام وقوف عرفہ کی ادائیگی میں غروب آفتاب تک دعاؤں میں مشغول رہتے ہیں۔ عرفات کے میدان میں ایک پہاڑ ہے جسے جبل رحمت کہتے ہیں، اس کے قریب قبلہ رخ کھڑے ہوکر حضور اکرم ﷺ نے وقوف عرفہ کیا تھا۔ پہاڑ پر چڑھنے کی کوئی فضیلت احادیث میں وارد نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کے نیچے یا عرفات کے میدان میں کسی بھی جگہ کھڑے ہوکر کعبہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعائیں کرنی چاہئیں۔وقوف عرفات حج کا سب سے اہم رکن ہے، جس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الحج عرفہ یعنی وقوف عرفات ہی حج ہے۔ یہ چند گھنٹے حجاج کرام اور پوری امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کے لئے بہت اہم ہیں، اس لئے حجاج کرام کو اس موقع پر اپنے لئے، اپنے گھر والوں اور پوری امت کے لئے خوب دعائیں کرنی چاہئیں۔ اس مبارک گھڑی کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو فرمان پیش ہیں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عرفہ کے دن کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ ک ثرت سے بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں، اس دن اللہ تعالیٰ (اپنے بندوں کے) بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے اُن (حاجیوں) کی وج ہ سے فخر کرتے ہیں اور فرشتوں سے پوچھتے ہیں (ذرا بتاؤ تو) یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ (مسلم)
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: غزوہئ بدر کا دن تو مستثنیٰ ہے اسکو چھوڑکر کوئی دن عرفہ کے دن کے علاوہ ایسا نہیں جس میں شیطان بہت ذلیل ہورہا ہو، بہت راندہ پھر رہاہو، بہت حقیر ہورہا ہو، بہت زیادہ غصہ میں پھر رہا ہو، یہ سب کچھ اس وج ہ سے کہ وہ عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا کثرت سے نازل ہونا اور بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کا معاف ہونا دیکھتا ہے۔(مشکوۃ)
عرفہ کا روزہ: حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔ (صحیح مسلم) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ لہذا ہمیں ۹ ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوپاک کے لوگ اپنے علاقہ کے اعتبار سے ذو الحجہ کی نویں تاریخ کو روزہ رکھیں یا سعودی عرب کے مطابق جس دن حج ہوگا اُس دن روزہ رکھیں۔ سعودی عرب اور ہندوپاک کی چاند کی تاریخ میں عموماً ایک دن کا فرق ہوتا ہے۔ پہلی بات تو عرض ہے کہ احادیث مبارکہ میں پہلی ذو الحجہ سے نویں ذوالحجہ تک روزے رکھنے کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے اس لئے اگر دونوں دن روزہ رکھ لیا جائے تو سب سے بہتر ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک ہی روزہ رکھنا چاہتا ہے تو اس کے متعلق فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف ہے کہ کونسے دن رکھا جائے۔ اختلاف ہونے کی وجہ سے دونوں اقوال میں سے کسی ایک قول کو اختیار کرنے کی گنجائش ہے کیونکہ یوم عرفہ کا روزہ رکھنا فرض یا واجب نہیں ہے بلکہ مسنون ہے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے کہ ہندوپاک کے لوگ اپنے علاقہ کے اعتبار سے نویں تاریخ کو روزہ رکھیں کیونکہ یوم عید الفطر، یوم عیدالاضحی اور یوم عاشورہ کی عبادتوں کی طرح یوم عرفہ کاروزہ بھی اپنے علاقہ کی چاند کی نویں تاریخ کو رکھا جائے، لیکن اس مسئلہ میں جھگڑنے کے بجائے وسعت سے کام لیں اور اپنی رائے کو دوسرے پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں۔ ہاں ایک بات عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد سے مکہ مکرمہ پر کفار مکہ کا قبضہ ہونے کی وجہ سے مسلمان حج ادا ہی نہیں کرسکے تھے۔ نویں ہجری میں مسلمانوں نے پہلا حج کیا اور اُس کے اگلے سال یعنی ۰۱ ویں ہجری کو حضور اکرمﷺ نے حج کیا جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے، جس کے صرف تین ماہ بعد آپ ﷺ اس دنیا سے رخصت فرماگئے۔ ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس میں یہ وضاحت ہو کہ یوم عرفہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت ۹ ہجری یا اُس کے بعد آئی ہے۔ نیز یوم عرفہ اور وقوف عرفہ دونوں الگ الگ ہیں۔ وقوف عرفہ کا مطلب احرام کی حالت میں عرفات کے میدان میں وقوف کرنا، یعنی وقوف عرفہ صرف حاجی کرسکتا ہے اور عرفات کے میدان میں ہی۔ خلاصہئ کلام یہ ہے دونوں دن روزہ رکھیں اور اگر ایک ہی دن رکھنا چاہتے ہیں تو جو آپ کے علماء کہیں اُس کے مطابق عمل کرلیں۔
امسال (۲۴۴۱ھ) سعودی عرب میں ۹ ویں ذی الحجہ پیر کو اور برصغیر میں منگل کو ہے۔ خلیجی ممالک کے لوگ اگر یوم عرفہ کا روزہ رکھنا چاہئیں تو امسال پیر (۹۱ جولائی ۱۲۰۲ء) کو رکھیں۔ ہندوپاک کے لوگ اگر پیر اور منگل دونوں دن روزہ رکھ لیں تو بہتر ہے ورنہ منگل (۰۲ جولائی ۱۲۰۲ء) کے دن روزہ رکھ لیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں