کیا یوم خواتین منانے سے تحفظ خواتین کا مسئلہ حل ہوجائے گا

 

ذوالقرنین احمد

موجودہ دور میں یہ سلسلہ زور پکڑ چکا ہے کہ مختلف عنوانات پر مختلف قسم کے دنوں کو منایا جارہا ہے اوراس میں دن بدن شدت سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلے صرف مذہبی تہوار اور جمہوری نظام حکومت کے دنوں کو سرکاری سطح پر منایا جاتا تھا لیکن اب نئی نسل برتھ ڈے، فادرز ڈے مدرز ڈے، چلڈرنس ڈے، وغیرہ کو بڑے اہتمام سے مناتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح عالمی یوم خواتین بین الاقوامی طور پر 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور عوام میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کے لیے ترغیب دینا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ خواتین کی قربانیاں کسی بھی خاندان میں ناقابل فراموش ہیں۔ لیکن آج کے موجودہ معاشرے میں دیکھا جائے تو خواتین پر تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ صرف شادی شدہ خواتین ہی نہیں بلکہ بچیوں کے ساتھ بھی زیادتیوں کی خبریں روزانہ سوشل میڈیا اور اخبارات کی جھلکیوں میں نظر آتی ہے۔

آج ہم غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ خواتین پر ہورہے مظالم اور تشددکو روکنے کیلئے مختلف طریقوں سے این جی اور وومن ایمپاورمنٹ، وومن پروٹیکشن اسکواڈ بنائیں جارہے ہیں۔ حکومتیں بھی ضرورت محسوس کرتے ہوئے قانون سازی کر رہی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خواتین پر ظلم و تشدد، زنا بالجبر، قتل غارتگری کا ننگا ناچ جاری ہے۔ لیکن جرائم میں کمی واقع نہیں ہورہی ہے۔ تمام تدابیر کے بعد بھی کوئی فرق محسوس نہیں کیا جارہا ہے۔ خواتین کہیں نہ کہیں ظلم و تشدد کو برداشت کرتی نظر آتی ہے یا پھر خودسوزی کا شکار ہوجاتی ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ خواتین کو عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا ہے عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کے بعد برسوں کیس چلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے خواتین کے گھر والوں کو وکیلوں کی جیبوں کو بھرنا پڑتا ہے عمر بڑھتی جاتی ہے لیکن انصاف نہیں ملتا ہےمجبوری وہ کیس واپس لیتے ہیں۔ یہ ملک کے ناکام اور غیر منصفانہ سسٹم کی علامت ہے جس میں کرپشن کا اہم دخل ہے۔

اس طرح کے مسائل کی ہر معاشرے میں بلکہ ہر گلی محلے میں کوئی نہ کوئی شادی شدہ لڑکی شکار ہے۔ سسرال والوں کے ظلم کا شکار ہے اور اگر غیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ ہے یا بیوہ ہے تو پھر معاشرے کی بدنظری کا شکار ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب نے خواتین کو آزادی نسواں کے نام پر اتنی آزادانہ سوچ کا حامل بنا دیا ہے کہ وہ اب سسرال شوہر بچے پالنے، گھروں میں رہنے ، گھر کے کام کاج ان تمام چیزوں سے اوپر اٹھ کر آزادنہ تنہا  زندگی گزارنے کو آزادی سمجھ رہی ہے۔ لیو ان ریلیشن شپ کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔  بغیر سے شادی کے ازدواجی تعلقات قائم کرنا ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔ یہ الگ موضوع ہے۔ لیکن اصل مسئلہ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

پوری دنیا میں ہر سال یوم خواتین منایا جارہا ہے لیکن یہ دنوں کو منانے سے خواتین کے تحفظ کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے۔ بلکہ جب تک ملک میں خواتین بچیوں پر بڑھ رہے جنسی جرائم اور دوسری قسم کے ظلم و تشدد سے خواتین کو تحفظ فراہم نہیں کیا جائیگا تب تک یہ دنوں کو منانا فضول ہے‌۔ ہر سال کروڑوں خواتین ظلم و جبر، جنسی زیادتیوں کا شکار ہوتی ہے۔لیکن کسی مجرم کو فوری طور پر سزا نہیں دی جاتی ہے اور نا ہی سزا اتنی سخت ہوتی ہے کہ جس کی وجہ  پھر کوئی دوبارہ غلط قدم اٹھانے سے خوف کھائے۔ اگر زنا کرنے والے مجرموں کو فوری طور پر سرعام پھانسی کی سزا دی جائے تو ممکن اور یقینی ہے کہ پھر ملک میں زنا بالجبر کے کیسوں میں حد درجے گراوٹ واقع ہوسکتی ہے۔

اسلام نے خواتین کو تمام حقوق فراہم کیے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے خواتین کو گھر کی چار دیواری میں قید کردیا ہے ان کا یہ تصور بلکل غلط ہے۔ وقت اور حالات کے مطابق خواتین نے عظیم قربانیاں دیں ہے اور آج بھی وہ بڑی عظیم جد وجہد کر رہی ہے۔ ایک گھر کو گھر بنانے میں خواتین کا اہم کردار ہوتا ہے بغیر خواتین کے گھر گھر نہیں کہلاتا ہے۔ ایک عورت بچوں کی پرورش، شوہر کی خدمات ، کھانا پکانا، گھر کے کام کاج، ساتھ میں سسرال والوں کی ذمہ داریاں، ساس سسر کی خدمات وغیرہ یہ تمام کام کرنے کے باوجود وہ بچوں کی اچھی دیکھ بھال کرتی ہے انکی صحیح پرورش کا خیال رکھتی ہے اور تمام بیزی شیڈول میں سے خود کیلئے تھوڑا بہت وقت نکال لیتی ہے۔ مختلف دنوں میں خواتین کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہے۔ لیکن آج کے دور میں خواتین نے آزادی نسواں کے فریب میں آکر ایک اور بوجھ اپنے اوپر لاد لیا نوکری، جاب کرنے لگی اسکی وجہ سے دن بھر ایک مشین کی طرح مصروف اور پھر بچوں کی پرورش شوہر کی خدمات کیلئے وقت ان تمام چیزوں میں شاید وہ خود کو ایک مزدور کی طرح محسوس کرنے لگی ہوگی۔ لیکن اس کا احساس سبھی کو نہیں ہوتا ہے۔
ان تمام قربانیوں کے بعد عورت کو صرف عزت و آبرو سچی محبت کی ضرورت ہوتی ہے تعریف کی ضرورت ہوتی ہے۔م نا وہ کوئی انعام مانگتی ہےاور نا کوئی بڑا مطالبہ کرتی ہے خاندانی نظام کی بقاء اور استحکام کیلئے عزت نفس کا احترام اور محبت بے حد ضروری ہے۔ آج مادی ضرورتوں کو تو پورا کیا جاتا ہے لیکن کچھ ضرورتوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ رشتوں میں مضبوطی کیلئے خوشگوار گفتگو بھی ضروری ہے۔ کھلے دل سے بول چال ضروری ہے‌۔ خواتین کی خدمات پر تعریف کرنا، خاندان کے دیگر افراد کے سامنے انکی عزت و احترام کا پورا خیال رکھنا یہ تمام چیزیں ان کا حق ہے۔ کیونکہ صرف ایک دن خواتین کے نام منسوب کردینے سے اور اس دن کو منانے سے خواتین کی عزت عظمتوں اور رفعتوں کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ روزمرہ کی زندگی میں خواتین کو عزت و احترام اور انکے حقوق کی ادائیگی کو پورا کرنا یہی حقیقت ہے باقی سب باتیں ہے۔ عملی زندگی میں تمام باتوں کو نافذ کرنا بے حد ضروری ہے۔ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ایک بہترین معاشرے کی تشکیل ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ خواتین خود اپنے بچوں کی پرورش اس انداز میں کریں کے انکے بچوں کی وجہ سے کسی خواتین پر ظلم نہ ہو اور معاشرے کی تمام خواتین ان سے محفوظ رہے۔ پھر اس طرح کے مختلف دنوں کی منانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ، اس لیے ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کو زندگیوں میں عملی طور پر داخل کریں اسلامی تعلیمات میں ہی قوموں کی نجات ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

تہمت وبہتان-بڑی سماجی برائی

بنگال کی سیاست اور مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے