وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ربیع الاول کا مہینہ اس عظیم رسول ونبی کی ولادت با سعادت کے حوالہ سے جانا اور پہچانا جاتا ہے جس سے بہتر انسان اس روئے زمین پر نہیں آیا ،ہمارا ایمان تمام انبیاء ورسل پر ہے اور ہم سب کی عظمت وفضیلت کے قائل ہیں ،یہ ہمارے ایمان مفصل اور ایمان مجمل کا حصہ ہے ،لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اور ہمارے آقا ومولیٰ فخر موجودات،سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء کا سرداراورسیدالمرسلین والاولین والآخرین بنایا ،آپ کے اوپر سلسلۂ نبوت کا خاتمہ فرمایا،معراج کی رات مسجد اقصیٰ میں انبیاء کی امامت کرائی؛ تاکہ سب انبیاء پر آپ کی فضیلت پورے طور پر کھل کر سامنے آجائے ،ایسی فضیلت کہ انبیاء بھی اس امت میں آنے کی تمنا کرنے لگیں ،آپ کو یہ فضیلت بھی عطا ہو ئی کہ سارے جہاں کا رسول بنا کر آپ کو بھیجا گیا ،قرآن کریم جیسی رحمت وہدایت والی کتاب آپ کو دی گئی،آپ ﷺ سے پہلے جتنے انبیاء ورسل آئے سب مخصوص علاقے مخصوص زمانے اور بعض مخصوص قبائل کے لئے تھے ،اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کو اعلان کرنے کے لئے فرمایا: کہہ دیجئے اے لوگو! میں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ،آپ کی شان میں یہ بھی ارشاد ہوا کہ آپ سارے جہاں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ،سارے جہاں میں انسان وجن ہی نہیں، شجرو حجر، نباتات وجمادات،حیوانات اور تمام بری وبحری مخلوقات بھی شامل ہیں ،اس کامطلب یہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم سب کیلئے رحمت ہیں ،اور آپ کی رحمت سب کو محیط ہے۔

رحمت کی اس عمومیت کااندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہر طرف ظلم وجور کا بازار گرم تھا، انسان انسان کے خون کا پیاسا تھا ،قبیلے آپس میں دست وگریباں تھے،عربی عجمی اور کالے گورے کے نام پرخود ساختہ برتری کے پیمانے وضع کر لئے گئے تھے ،اس کی وجہ سے انسانوں میں طبقاتی جنگ نے عروج پکڑ لیا تھا،حق وہ سمجھا جاتا تھا جواس قبیلے کے کسی فرد کے ذریعہ صادرہوا ہو،خواہ وہ ظلم وستم کے زمرے میں کیوں نہ آتا ہو،برائیاں عام تھیں اور اخلاق حسنہ کا وجود کم ترہوگیا تھا،عورتوں کے اوپر ہر طرح کا ظلم کیا جاتا تھا ،بلکہ بہت سارے قبائل میںلڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا،ہنستی کھیلتی زندگی کو زندہ مٹی میں دفن کر دینا انسانی شقاوت وبدبختی کی انتہا تھی،لڑائیاں ہوتیں توانسانوں کے ساتھ پورے علاقہ کو تاراج کردیا جاتا ،شریف انسان غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے،اور بالکل وہ منظر ہوتا جس کا نقشہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کھینچاہے کہ جب شاہان وقت کسی آبادی پر غلبہ حاصل کرتے ہیں تو آبادی میں فسادو بگاڑ پیدا کرتے ہیںاوروہاں کے شرفاء کو ذلیل ورسواکر کے چھوڑتے ہیں، ان لڑائیوں میں جانور،درخت ،کھیت کھلیان اور فصلوں کو بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

ان حالات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے،چالیس سال تک اپنی پاکبازی، کردار کی بلندی، امانت ودیانت کی رفعت کانمونہ اس طرح پیش کیا کہ مخالفین بھی آپ کو صادق اور امین کہا کرتے، آپ کی بے داغ جوانی اور اعلی اخلاقی کردارکی شہادت دیتے،وہ ایمان اور کلمہ کے مسئلہ پر مذبذب رہے،کیونکہ اس کلمہ کے اقرار سے ان کی ریاست اور چودھراہٹ کو خطرہ محسوس ہوتا تھا؛ لیکن کبھی کسی نے ان کے کردار پر انگلیاں نہیں اٹھائیں۔

چالیس سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیا ،مخالفین کے سب وشتم اور نازیبا حرکات کو سنااور سہا، یہ رحمت ہی کی ایک قسم ہے کہ آپ نے قدرت کے باوجود اور بارگاہ الٰہی سے مقبولیت کے یقین کے باوجود ان کے لئے کبھی بد دعانہیں کی ،حد یہ ہے کہ طائف کی گلیوں میں جب پائے مبارک لہو لہان ہوئے ،موزے خون سے بھر گئے ،اوباشوں نے آپ کو پتھر مارا ،اس وقت بھی آپ نے ان کے لئے دعائیں کیں ،اے اللہ اس قوم کو ہدایت دے، وہ مجھے نہیں جانتی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ شاید اس قوم سے کوئی فرد دین رحمت میں داخل  ہو جائے ،جنگ کے بعد قیدی مسجد کے ستون سے بندھے ہوئے ہیں،بندش کی سختی کی وجہ سے قیدی کراہ رہے ہیں، آپ کی آنکھوں سے نیند غائب ہے،جب تک بندش ڈھیلی نہیں کی گئی آپ کو سکون نہیں ملا۔

فتح مکہ کے موقع سے سارے دشمن سامنے تھے ،عرب روایات کے مطابق انہیں قتل بھی کیا جاسکتا تھا اور غلام بھی بنایا جا سکتا تھا ،لیکن رحمت للعالمین نے اپنی شان رحمت کا مظاہرہ کیا اوراعلان کردیا کہ آج تم لوگوں سے کوئی داروگیر اور مؤاخذہ نہیں، تم سب لوگ آزادہو، اتناہی نہیں حضرت ابو سفیانؓ جو اسوقت تک ایمان نہیں لائے تھے، ان کے گھر میں داخل ہونے والے کو بھی امان دے دیا، ہندہ؛ جس نے حضرت حمزہ کا مثلہ کروایاتھا ان کے کان ناک کٹوائے تھے، کلیجی گردہ کو کچا چبا کر اپنی قسم پوری کی تھی، آپ کی شان رحمت نے اس کو اپنے جلو میں لے لیا، کیا شان رحمت تھی آپ کی،کوئی دوسرا ہوتا تو چن چن کر بدلہ لیتا کہ یہی زمانے کی روش رہی ہے ،آپ نے سب کو معاف کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسلام دین رحمت ہے ،یہاں امن ہے شانتی ہے،سکھ ہے، چین ہے اور دشمنوں کو بھی معاف کرنے کا وہ جذبہ ہے جو کسی اور مذہب میں نہیں پایا جاتا ۔

انسانوں میں غلاموں اور باندیوں کی زندگی اجیرن تھی، وہ جسم وجثہ کے اعتبار سے انسان تھے ،لیکن ان کی زندگی جانوروں سے بد تر تھی، ان کی اپنی کو ئی زندگی نہیں تھی وہ آقاہی کے لئے جیتے اور مرتے تھے ،پوری وفا داری اور خدمت کے باوجود انہیں ظلم وستم کاسامنا تھا ،آقا صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے بھی رحمت ثابت ہوئے،آپ نے مختلف طریقوں سے لوگوں کو غلامی کی زنجیروں سے نکالنے کا کام کیا ،کبھی فدیہ کے طور پر لکھانے پڑھانے کاکام لے کر، کبھی قسم ،ظہار وغیرہ کے کفارہ میں آزاد کرنے کا حکم دے کر ،عمومی حکم یہ دیا کہ غلاموں کا خیال رکھو ،جو خود کھائو اسے کھلائو،اوراسے ایسا ہی پہنائو جیسا تم پہنتے ہو،اس سے طاقت سے زیادہ کام نہ لو ،آپ نے حضرت زیدؓ کے ساتھ حسن سلوک کرکے دکھلایا ،جس کے نتیجہ میں حضرت زید ؓ نے اپنے والدین کے ساتھ جانے کی بہ نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہنا پسند کیا۔

عورتوں پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سایہ فگن ہوئی تو حکم دیا کہ عورتوں سے بہتر سلوک کرو،وہ تمہارے ماتحت اور تمہارے حکم کی پابند ہیں ،تم دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق ہیں، کسی کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کی جائے،اور حسن سلوک کے ساتھ ان سے پیش آئو،اگر تم امساک بالمعروف نہ کر سکو تو انہیں حسن سلوک کرکے چھوڑ دو،تاکہ وہ اپنی زندگی اپنے انداز میں جی سکیں یا دوسری شادی کر کے نئے سفر کا آغاز کر سکیں ،زمانۂ جاہلیت میں بیوہ عورت منحوس سمجھی جاتی تھی ،آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے علاوہ بیوہ اور مطلقہ عورتوں کو اپنے نکاح میں لے کر امت کو پیغام دیا کہ بیوہ اور مطلقہ عورتیں منحوس نہیں ہیں ،شوہر کے مر جانے اور بعض دفعہ نباہ نہ ہونے سے طلاق پڑ جائے تو ان کی دلجوئی ،خبر گیری کی جتنی شکلیں ممکن ہیں، اختیار کی جائیں اور انہیں بے سہارا نہ چھوڑا جائے۔

آپ نے بچوں پر رحم کرنے کا بھی حکم دیا ،ان کی اچھی تعلیم وتربیت پرجنت کی بشارت دی ،ان کا نفقہ باپ کے سر رکھا، تاکہ انہیں بال مزدوری سے بچایا جائے،اور ان کے بچپن کی حفاظت کی جاسکے ،ان کے اچھے نام رکھنے کی تلقین کی اور بچوں کو بے سہارا چھوڑنے کو پسند نہیں فرمایا ۔انہیں جینے کا حق دیا اور ان کو روزی میں تنگی کے خوف سے ہلاک کرنے سے منع فرمایا۔

یتیموں کی کفالت کو کار ثواب قرار دیا اور فرمایا کہ میں اور یتیموں کی کفالت کرنے والا ہاتھ کی دو متصل انگلیوں کی طرح قیامت میں ساتھ ہوں گے،خود آپ نے یتامیٰ کی سر پرستی کی اور عید کے دن ایک روتے بچے کو گلے لگا کر ہمیں سبق دیا کہ ان کی کفالت کی فکر کرو ،ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھو ،یہ ہاتھ رکھنا قیامت میں تمہیں کام آئے گا ۔

آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت جب جانوروں کی طرف متوجہ ہوئی تو بلا وجہ انہیں ہلاک کرنے سے منع کیا، اگرگوشت کھانے کے لئے انہیں ذبح کرنا ہے توایسا طریقہ اپنائو کہ اسے کم از کم تکلیف ہو،اگر جانور نقل وحمل کے لئے رکھے گئے ہو ںتو اس پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادو،ایک اونٹ کی بلبلاہٹ سن کر آپ سمجھ گئے کہ اس کامالک اس پر زیادتی کرتا ہے ،اونٹ کے مالک انصاری صحابی کو بلا کر فرمایا کہ اللہ رب العزت نے ان جانوروں کو تمہارا محکوم بنایا ہے؛ اس لئے ان جانوروں پر رحم کرو،نہ توا نہیں بھوکا رکھو ،اور نہ ہی ان کی طاقت سے زیادہ کام لو ،ایک بار حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے چڑیا کے دو بچوں کو پکڑ لیا ،چڑیا چِلّانے لگی ،آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان بچوں کو ان کی جگہ پر رکھ آؤ،آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ایک فاحشہ نے اپنے موزہ میں بھر کر کتے کو پانی پلایا تواس کی بخشش ہو گئی،اور ایک عورت نے بلِّی کو باندھ کر رکھا ، کھاناپینا نہیں دیا ،بالآخر وہ مر گئی تواس عورت کو اسکی وجہ سے اسے جہنم کا مستحق قرار دیا گیا ،یہ واقعات بتاتے ہیں کہ جانوروں پرآپ کی شفقت و رحمت کس قدر تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ،تم زمین والوں پر رحم کروآسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔

درختوں کو بلا ضرورت کاٹنے اور جنگ کے موقع سے انہیں برباد کرنے سے بھی منع کیا گیا ،کیونکہ یہ ہمارے لئے ماحول کے تحفظ کا بڑاذریعہ ہیں ،فرمایا گیا کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور تمہارے پاس اتنی مہلت ہو کہ تم ایک پودا لگا سکتے ہو تو لگا دو ،پھلدار درخت لگانے والوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہو اکہ جس درخت کے پھل سے انسانوں نے اور پتوںسے جانوروں نے فائدہ اٹھایا تو یہ صدقہ ہے ،اور ایسی تمام کوشش جس سے ماحول خراب ہو، فضائی آلودگی پیدا ہو’’ فساد فی الارض ‘‘کے قبیل سے ہے۔ 

ماحولیات کے تحفظ اور ہر قسم کے جاندار کے لئے پانی کی اہمیت ظاہر ہے،حکم دیا گیا کہ اسے ناپاک نہ کرو ،پینے اور دوسری ضرورتوں کے لئے اسے پاک وصاف رکھو ،پانی میں پیشاب نہ کرو، سو کر اٹھو تو بغیر ہاتھ دھوئے پانی کے برتن میں ہاتھ مت ڈالو ،پانی پیتے وقت برتن میں سانس مت لو ،مشکیزے ،گھڑے اور پانی کے برتن کو ڈھانک کر رکھو،یہ ہدایات ہر اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ورحمت کا مظہر ہیں۔

رحمۃ للعالمین ہونے کا سب سے بڑا مظاہرہ قیامت کے دن ہوگا، جب سارے انبیاء کرام بخشش کے لیے سفارش اور شفاعت سے انکار کردیں گے ، سارے انسان پریشان ہوں گے، ہر آدمی اپنے گناہوں کے بقدر پیسنے میں ڈوبا ہوگا، نفسی نفسی کا عالم ہوگا، نہ بیٹا باپ کا ہوگا، نہ بیوی شوہر کی ہوگی، ہر آدمی سراسیمہ اور حواس باختہ ہوگا، ایسے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم امت کی شفاعت کے لیے بار گاہ الٰہی میں سر بسجود ہوں گے اور وہ سب کچھ مانگیں گے جو اللہ رب العزت ذہن ودل میں ڈالیں گے اور پھر خوش خبری سنائی جائے گی کہ گناہگاروں کو بخش دیا گیا اور جس شخص کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان ہوگا وہ اس شفاعت سے سوئے جنت روانہ ہو سکے گا، اس طرح آپ کی رحمت سے اللہ کی مخلوق دنیا میں بھی مستفیض ہو رہی ہے اور آخرت میں بھی شفاعت کام آئے گی۔شاعر نے کہا ہے:

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا 

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

اتر کر حراء سے سوئے قوم آیا

اور ایک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے