مولانا عبد القوی ذکی حسامی امام وخطیب مسجد لطف اللہ حیدرآباد اس دنیا میں جو کچھ حالات،واقعات، خواہ اسکا تعلق خوشی سے ہو یا غمی سے،ترقی ہو یا تنزلی سے، سب اسی انسان کے اعمال کا مظہر ہوتے ہیں، وہ جو کچھ کام کرتا ہے، اسکے ثمرات ونتائج اللہ رب العزت ظاہر فرماتا ہے […]
مولانا عبد القوی ذکی حسامی امام وخطیب مسجد لطف اللہ حیدرآباد
اس دنیا میں جو کچھ حالات،واقعات، خواہ اسکا تعلق خوشی سے ہو یا غمی سے،ترقی ہو یا تنزلی سے، سب اسی انسان کے اعمال کا مظہر ہوتے ہیں، وہ جو کچھ کام کرتا ہے، اسکے ثمرات ونتائج اللہ رب العزت ظاہر فرماتا ہے تاکہ انسان کوپتہ ہو وہ کیا کررہا ہے اسکو مزہ چکھاتا ہے،تاکہ وہ لوٹ آئے قرآن میں اللہ نے فرمایا ظھر الفساد فی البر والبحر بماکسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون (القرآن) لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی،اسکی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا تاکہ انہوں نے جو کام کئے ہیں،اللہ ان میں سے کچھ کامزہ انہیں چکھائے شاید وہ باز آجائیں، سال ِ گذشتہ جوکچھ نقصانات دینی و دنیوی لحاظ سے دنیا بھر میں برپا ہوئے ہیں، وہ کئی اعتبارات سے انسانیت کو درس عبرت دیتا ہے،اس نے باطل اور باطل قوت پر اترانے والوں کو انکی اوقات یاد دلائی،اس نے خدائی نظام سے ٹکرانے والوں کوانکی حیثیت یاد دلائی، عارضی حکومت پر ظلم وسفاکی کی داستاں رقم کرنے والوں کو ان کے انجام پتہ بتلایا، غرض جہاں اس نے دنیا کی اور قوموں کو للکارا وہیں امت مسلمہ کی بھی نقشِ اول میں گوشمالی کی،سوال یہ ہیکہ یہ سب کیوں کر ہوا؟ کس نے کیا؟اور وہ کیا بتلانا چاہتا ہے؟ مختصر ا ًجواب یہ ہیکہ اللہ کے حکم سے ہوا،اللہ اپنی قدرت بتلانا چاہتا ہے، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سب کیوں کر ہوا،قرآن نے جواب دیا بما کسبت ایدی الناس یہ سب لوگوں کی کمائی ہے،در اصل انسان نے جسکا نقطہ آغازاس نطفہ غلیظہ سے ہوا،جونجس العین ہے اوراس سے پاکی فرض عین ہے، اسی مرحلہ کو طاقِ نسیان میں رکھ دیا، اور اپنے حقیقی پالنہار سے منھ موڑ لیا،اوریہ سمجھا وہی اس دنیا کا مالک ہے، حالانکہ اس کائنات کا مالک اللہ ہے،بندوں کواس رب ذوالجلال نے جس بات کا حکم دیا اس سے انسانیت نے انحراف کی راہ لی، اس نے عدل کا حکم دیا، ہم نے ناانصافی و بے انصافی کی دستاویز تیارکر لئے، اس نے حلال کسب معاش اختیار کرنے کو کہا،ہم نے ہر وہ طریقہ رائج کرلیاجو اسکے غضب کو دعوت دیتے ہوں، اس نے محرم ونامحرم کے درمیان خط کشید کی، ہم نے اس کو زیر پاؤں روند ڈالا، اس نے اطاعت وبندگی کا حکم جاری کیا، ہم اس کی نافرمانی وسرکشی سمت چل پڑے،اس نے مساجد کو نماز،دینی تعلیم سے آباد کرنے کوکہا، ہم اس پر سودے بازی اوراجارہ داری کے مرتکب ہوئے، اس نے فقرا ومساکین کو مالیات میں سے حصہ شرعی ادا کرنے کو کہا،ہم خواہشات سے بڑھ کر محرمات پر پیسہ خرچ کرنا شروع کیا،اس نے دینی ودنیوی ضروریات پر خرچ کرنے کو کہا، ہم اسراف وتبذیر کے بانی اورشیطان کے حامی بن گئے،اس نے کلام الہی کو دستور زندگی بنانے کو کہا، ہم طا غوتی نظام کی پیروی کرنے لگے، اس نے امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا حکم دیا، ہم نے اس فریضہ سے آنکھ بند کرلی،اس نے اعمال آخرت کیلئے ہمیں وجود بخشا،ہم امورِدنیویہ میں الجھ کر رہ گئے، جس رب سے ہم نے عہد الست میں ایفائے عہدکا وعدہ لیا تھا اسکوپورا کرنے میں ناکام ہورہے،جسکی بنا پر خدا نے اظہارِناراضگی اس انداز میں کی کہ اپنے گھر کے دروازے ہمارے لئے وقتی طور پر بند کردئیے،امت کے مقتداء علماء وصلحاء کی اموات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا،جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، رمضان جو عبادتوں کا موسم تھا،اس موسم بہار کی لطف اندوزی سے دور رکھا،ان تمام سے بڑھ کر حرمین شرفین اور روضہ رسول ﷺمیں داخلہ ممنوع کردیا،یہ وہ چیزیں ہیں جس سے ہم امت مسلمہ کو سبق لینا ہے، اپنا احتساب کرنا ہے،اپنے کئے پر احساس ندامت پیدا کرنا ہے، اور آئندہ محتاط رہنے کا عزم کرنا ہے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا اپنا اپنا نامہ اعمال درست کرلو،اپنی روش جو اغیار کی نقالی پر چل رہی ہے اس سے توبہ کرلو،قبل اسکے وہ دن آجائے جو یوم الحساب کہلاتا ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہیکہ الکیس من دان نفسہ وعمل مابعدالموت (ترمذی)عقلمند وہ آدمی ہے جس نے نفس کو قابو میں رکھا اور مرنے کے بعد والی زندگی کیلئے اعمال کا توشہ تیار کیا ہو،ہم اور آپ عقلمندی کا پیمانہ یہ مقرر کیا ہے کہ جس نے دنیا کے مال ومتاع اور آل اولاد،سامان تعیش کی فراہمی،اعلی مناصب کے حصول،اور دنیوی جاہ جلال کو حاصل کیا ہو، وہی عقل ِ کامل کا مصداق ہے،در حقیقت یہ نہیں ہے،بلکہ یہ سب فریب ہے،ریگستاں میں مقامِ سراب ہے، جس سے آنکھ مچولی کرنا ایک نادانی ہے، مسلمان کیلئے یہ زندگی فکر عقبیٰ کیلئے دی گئی ہے، اور لمحہ لمحہ احتساب کی طرف توجہ دہانی کی گئی،اہل اللہ کا یومیہ معمول تھا کہ رات جب بستر پر دراز ہوتے قبل اسکے دن بھر کی روداد پر نظر ڈالتے کہیں نیکی ہوتی ہوئی نظر آئے اس پر شکر بجالاتے،گناہ ہوجائے تو توبہ کرتے،احنف ابن قیس ؒ اپنی انگلی چراغ پر رکھتے جلتی تو اپنے نفس سے کہتے جب تو فلاں گناہ کررہا تھا اس وقت دوزخ کی آگ کا تجھے خوف نہ ہوا جو اس سے ہزاروں گناحرارت والی ہے، قال رسول اللہ ﷺبادرو بالاعمال سبعاًھل تنظرون الا فقراًمنسیاً،او غنی مطعیاً،او مرضاًمفسداً،او موتا ًمجھزاٍاو الدجال فشر غائب ینتظر او الساعۃادھی وامر (ترمذی)نبی اکرم ﷺ نے فرمایا سات احوال سے پہلے اعمال کرلو (۱) تم انتظار نہیں کرتے مگر بھلادینے والی محتاجگی کا(۲) سرکشی والی مالداری کا(۳) بگاڑدینے والی بیماری کا(۴) انتہائی بڑھاپاکا(۵) فنا ہونے والی موت کا (۶) دجال پس وہ بن دیکھی ہوئی برائی ہے جسکا انتظار کیا جارہا ہے (۷) قیامت، پس قیامت سخت حادثہ کڑوا گھونٹ ہے۔جس طرح دنیوی معاملات میں تاجر آدمی شام بیٹھ کر نفع نقصان کا حساب لگاتا ہے،اورجائزہ لیتا ہے، اسی طرح ہر مسلمان کو بھی معمولات زندگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ زندگی کا ایک سال اختتام پذیر ہورہا ہے،کیا پایا،کیا کھویا، گذشتہ سال کے آفتاب جاتے جاتے دنیا کویہ پیغام دے گیا، ایک دن آئیگا،تم بھی ختم ہوجاؤگے،تمہارا اقتدار،تمہاری سلطنت،تمہاری انانیت،اور تمہاری زندگی ایک دن ایسے ہی غروب ہوجائیگی جیسے آج میں ڈوبا ہوں۔
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 31/ دسمبر 2020 ادارہ فکروخبر بھٹکل
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں