وہ صُبح کبھی تو آئے گی

بہر حال ہمیں اپنے دستور ہند پر فخر ہے جس نے مذہب ،ذات ،نسل ،علاقائی تفر یقات کے باوجود سبھی فر قے کو ایک ساتھ باندھ کر رکھنے کی کامیاب کوشش کی ۔حالانکہ کنسٹی چیونٹ اسمبلی میں بحث کے دوران ڈاکٹر امیبڈ کرنے ڈر افٹنگ کمیٹی و اسمبلی میں استحصال زدہ طبقات کی معقول نمائندگی و مو جود ممبران کے رویئے پر تنقید کرتے ہوئے اس بات کا خد شہ ظاہر کیا تھا کہ اگر آئین ہند میں قانونی پیچیدگی نہ رکھی جائے تو استحصال طبقات و اقلیتوں کے خلاف ،مستقبل کے پار لیا منٹ میں ایسے فیصلے لئے جاسکتے ہیں جو انہیں آزاد ملک میں غلامی کرنے پر مجبور کردے۔حالانکہ اس خدشے کو بھانپتے ہوئے انہوں نے کئی اڑچنیں آئین میں ایسی درج کروادیں جو دلتوں وآدیباسیوں کے حقوق کی پاسبانی کر تا ہے لیکن مسلمانوں کی بڑی پیشہ ور آبادی ،مر کزی سر کار کے ایک کابینی فیصلے سے حق ماری کی اس وقت شکار ہو گئی اور آج تک اسے جھیل رہی ہے۔10 اگست 1950 ء کو ہی ایک آرڈر آیاجسے صدراتی حکم نامہ 1950 کہتے ہیں ۔اس آرڈر کے پیرا گراف نمبر3 کے ذریعہ شیڈول کاسٹ و شیڈول کاسٹ یا ٹرائب دونوں ریزرویشن پر ’’ہندو ہونا لازمی ‘‘ کی شرط جڑدی گئی اور یہی وجہ دیا گیا کہ اقلیتوں میں شیڈول کاسٹ یا ٹرائب ہوتے ہی نہیں ہیں ۔اس حکم نامہ میں پہلی تر میم 1952 ء میں کر شیڈول ٹرائب پر سے مذہبی قید یک مشت ہٹالی گئی اس سے ٹرائبل نسب کے اقلیتوں کو تو راحت ملی لیکن شیڈول کاسٹ پر سے مذہبی قید کا نہیں ہٹا نا مسلمانوں کی اکثریت آبادی کیلئے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا ۔اور اس آرڈر کا ٹارگیٹ در اصل مسلم آبادی ہی تھا اسلئے سکھوں و بودھوں کو تو دوبارہ اس زمرے میں یکے بعد دیگرے شامل کر لیا گیا ۔لیکن اس سے پیدا شدہ مسلمانوں کی حالت کا آئینہ سچر کمیٹی کے ذریعہ دکھا دیا گیا ۔آپ اندازہ لگا کر دیکھیں کہ جہاں ایک طرف ہندو فر قہ کے دلت سیاسی و بیورو کریسی حصہ داری میں کہاں سے کہاں چلے گئے وہیں مسلمانوں کی بڑی آبادی ان دلتوں کے روایتی چھوڑے ہوئے جگہوں کو بھرنے کیلئے مجبور ہوگئے ۔بنکر، مو چی گیری ،بھنگی گیری ،پاسی گیری ،قلندری کو آج کون مجبور ہے ؟ٹائر پنکچر بنانا ،بیڑی بنانا ،کپڑے سلنا ،مرغی انڈا بیچنا ،سبزی وگوشت بیچنے کا کام کون کر رہا ہے ؟کل تک جھگی جھونپڑیوں میں کون رہتا تھا اور آج اس میں کون سی آبادی کی تعداد زیادہ ہے ۔رکشہ ٹھیلہ چلانے کھیتوں ومکان بنانے میں مزدوری کون کر رہا ہے ۔یہ سب آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں ۔اس حق سے محروم رہنے کی وجہ کر ہم نے نہ جانے کتنے ایم پی ،ایم ایل اے ،ڈاکٹر ،انجینئر ،افسر ،پروفیسر کھو دیے نہ جانے کتنے غریبوں کو ہم اندر ا آواس یوجنا ،عمر رسیدہ پنشن ،لال کارڈ نہیں دلواسکے ،کتنے بچوں کی جاہلیت دور کرواکر تعلیم نہ دلواسکے ۔ ایک معمولی اور آئین مخالف آرڈر نے ایک قوم کو کتنی بد حالی والی سطح پر پہنچا دیا ۔اس سے بھی بڑی سازش مسلمانوں کے خلاف اور کوئی رچا جا سکتاہے جو 1950ء کے 10 ؍اگست کو کی گئی ۔ہندوستانی مسلمانوں کو ایک 
جمہوری طر ز نظام میں کئی زخم اقلیتی اداروں ،پر سنل لا ء وبابری مسجد کے آڑ میں دیئے گئے لیکن جو حق ماری 1950 ء میں کی گئی اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے کیو نکہ اس نے ہمارے معاشرے کیلئے میٹھے زہر کا سا کام کیا ۔1994 سے لمبی لڑائی کے ذریعہ (ملکی سطح ) پر اب یہ معاملہ مر کز ی کابینہ و سپریم کورٹ دونوں کے بیچ آکر معلق بنا ہو اہے ۔بس اب اس صبح کا انتظار ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو ۔سیکولر آئین اور آزاد سپریم کو رٹ کی پہل سے یہ امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ صبح ضرور آئیگی جس کا انتظار مسلمانان ہند گذشتہ 62 سال سے کر رہا ہے ۔

«
»

ہندوستان میں کاسہ بدست بچوں کی بہتات

جنیوا ٹو کی کامیابی کے امکانات کم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے