اِن دنوں اس ماہِ مبارک کا آخری عشرہ چل رہاہے،جوگوناگوں فضائل و خصوصیات کا حامل ہے،جہاں مجموعی طورپریہ عشرہ جہنم سے خلاصی اور عمومی نجات کاعشرہ ہے،وہیں اس عشرے کی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں شبِ قدرجیسی عظیم الشان رات ہے کہ جس میں اگر عبادت کی توفیق مل گئی،توگویاایک ہزارمہینے عبادت کی گئی ،یعنی ہزارمہینے عبادت کرنے کا ثواب ملنا یقینی!اس کے علاوہ ایک اور اضافی عبادت اعتکاف بھی اِسی عشرے میں مشروع ہے ،جوسنت ہے اوراس کااجروثواب بھی بے پناہ ہے اوراس پربھی بہت سے خوش قسمت اللہ کے بندے عمل کرتے اوراللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں۔
ایک طرف اِس ماہ مبارک کی وہ ضوافشانیاں اوربندہ نوازیاں ہیں،جومذکورہوئیں،مگردوسری جانب سیاست اوراس سے وابستہ لوگ، جماعتوں اور افراد و اشخاص کی سرگرمیاں بھی اس ماہِ مبارک میں زوروشورسے جاری ہیں۔اسلام کی نگاہ میں افطارایک بہت ہی بابرکت عمل ہے اوروہ صرف اسی کے لیے ہے، جوروزہ رکھتاہے،مگرہم شروع مہینے سے لے کر اب تک دیکھ رہے ہیں کہ پورے ملک سے لگاتارخبریں آرہی ہیں کہ آج فلاں سیاسی پارٹی کی طرف سے افطار پارٹی کاانعقادکیاگیااورآج فلاں کی طرف سے۔یہ مہینہ رمضان کاہے،اس میں شیطان بند کردیے جاتے ہیں اور لوگ برائی سے زیادہ نیکی کی طرف مائل ہوتے ہیں،مگرخدابھلاکرے ہمارے ملک کے سیاست دانوں کاکہ وہ رمضان میں توشیطانوں کوبھی مات دے دیتے ہیں،روزہ تورکھتے نہیں اورہرایسی پارٹی میں مع تن و توش حاضر رہتے ہیں اوراس موقعے پراپنی پارٹی کے پرچارپرسارسے بھی نہیں چوکتے۔سیاست میں رواداری برتنے کے نام پرمسلمانوں کوبے وقوف بنانے کاہنرکوئی ان سیاست دانوں سے سیکھے،ا ن ہی افطارپارٹی والے سیاست دانوں کوپیشِ نگاہ رکھ کرچندسالوں پہلے راحت اندوری نے کہاتھا
سیاست میں ضروری ہے رواداری ،سمجھتاہے !
وہ روزہ تونہیں رکھتا،پرافطاری سمجھتاہے !
اس سال توکمال ہوگیا،جہاں بہارمیں آنے والے اسمبلی الیکشن کے پیش نظرنام نہاد جمہوریت نوازپارٹیوں کے ساتھ بی جے پی نے بھی افطارپارٹی کی،وہیںیہاں سینٹرمیںآرایس ایس کے مغبچے’’مسلم راشٹریہ منچ‘‘کی جانب سے بھی۳۰؍جون کوافطارپارٹی کاانعقادکیاگیااوراس میں ’’مسلمانوں‘‘نے شرکت بھی کی اوراس اجتماع میں منچ کے سربراہ اندریش کمار(مالیگاؤں بم بلاسٹ کیس میں مشتبہ!)نے قرآن کے حوالے سے امن وامان اورقومی ہم آہنگی جیسے عنوان پرخطاب کیا؛حالاں کہ اس کے ایک دوروزبعدہی یہ خبربھی آئی کہ آرایس ایس کی ہم فکروہم پیشہ جماعت ہندومہاسبھانے راشٹریہ منچ کی طرف سے برپاکی جانے والی اس پارٹی کی مخالفت کی اورکہاکہ ہم افطارپارٹی والی سیاست میں یقین نہیں رکھتے۔کانگریسی لیڈران بھی شکستِ مسلسل کے بعداب مکمل فرصت میں ہیں اورابھی رمضان کے مہینے میں خوب افطارپارٹیاں اٹینڈکررہے اور’’بزعمِ خویش ‘‘قومی یکجہتی وہم آہنگی کا ثبوت فراہم کررہے ہیں۔دلی کے وزیر اعلیٰ اروندکیجریوال بھی مسلسل رنگ برنگی ٹوپیوں میں دیکھے جارہے ہیں،حالاں کہ ابھی انھوں نے ایک تازہ فیصلہ کرکے مسلمانوں کے تئیں ایک گونہ جانب داری و تعصب کامظاہرہ بھی کرہی دیاہے،ان کی حکومت نے جہاں پاکستان سے ہجرت کرکے آنے والے ہندووں کے لیے سرکاری طورپرراشن پانی کا اعلان کیا،وہیں دہلی کے مختلف علاقوں میں بے خانماں پڑے ہوئے برماکے لوگوں کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا،شایداس لیے کہ وہ مسلمان ہیں۔مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتابنرجی کوبھی ۱۰؍جولائی کوایک افطارپارٹی میں ہاتھ اٹھائے دعاکرتے ہوئے دیکھاگیا،انھوں نے اپنی وہ تصویراپنے فیس بک پیج پربھی پوسٹ کی تھی اورمسلمانوں سے اظہارِیکجہتی کیاتھا۔آل انڈیا مجلسِ اتحادالمسلمین کی توخیرشبیہ ہی سیاسی جماعتوں اور مین اسٹریم میڈیانے ایسی بنادی ہے،جس سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ یہ ایک کٹراورمتعصب سیاسی جماعت ہے اورفرقہ ورانہ سیاست میں یقین رکھتی ہے؛حالاں کہ حقیقت یہ نہیں ہے ،ہاں البتہ یہ ضرورہے کہ روایتی سیاسی جماعتوں کے پرانے استحصالی رویوں اور’مسلم ناموں والے‘ سیاسی لیڈران کی منافقانہ چالوں سے پریشان مسلم نواجوانوں میں اس پارٹی کابڑاcrazeہے۔ابھی گزشتہ ہفتے اس پارٹی کے روحِ رواں اور حیدرآباد سے ممبرپارلیمنٹ بیرسٹراسدالدین اویسی نے اترپردیش کا ہنگامی دورہ کیا اوراس دوران ان کی پارٹی کی طرف سے بھی مختلف شہروں میں اجتماعی افطارکانظم کیاگیاتھا،دہلی کے اسلامک کلچرسینٹرمیں بھی اے آئی ایم ایم کی طرف سے ایک افطارپارٹی ہوئی تھی۔ان موقعوں پراویسی نے حسبِ عادت ایسے بیانات بھی دیے،جن کی وجہ سے قومی میڈیاان کے پیچھے پڑارہتاہے۔اویسی نے میرٹھ میں آرایس ایس کی افطار پارٹی کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ آرایس ایس مسلمانوں کوڈبل کراس کرنا چاہتا ہے …….اور ان کا کہنا بالکل صحیح تھا۔
یہ توسیاسی افطارپارٹیوں کی بات ہوئی،مگرایک قسم نیم سیاسی افطارپارٹیوں کی بھی ہے اور ان کا انتظام و انعقادہم مسلمانوں کی نمایندگی کرنے والی اور ہماری ’خیرخواہی‘ میں سرگرم رہنے والی ملی ورفاہی جماعتیں اور تنظیمیں کرتی ہیں۔ان پارٹیوں میں شریک ہونے والے زیادہ ترلوگ وہ ہوتے ہیں،جن کے ذریعے سے صاحبِ تنظیم کوکچھ فائدہ ہویا ہونے والاہویاہوتاہویاجاننے والے احباب یا مقامی یاقومی سطح پر صاحبِ وجاہت لوگ ایسی پارٹیوں میں مدعوکیے جاتے ہیں۔دراصل ان اداروں کومختلف اسلامی ممالک کے سرکاری و غیر سرکاری ذرائع سے غریب روزہ داروں میں افطاراورکھاناوغیرہ تقسیم کرنے کے لیے معقول رقوم ملتی ہیں،جن کابہت ہی معمولی حصہ یہ ادارے نہایت ہی غیر معقول اندازمیں چندہم پیشہ وآسودہ حال افرادکواکٹھاکرکے اوران کے افطاروڈنرپرخرچ کرکے اپنے فرض سے’’سبک دوش‘‘ہوجاتے ہیں۔اس قسم کی افطارپارٹیوں میں شرکت کے لیے بندے کا روزہ دارہونا بالکل بھی شرط نہیں، بارسوخ سیاست داں ،جدیددورکا دانش وریا اسی قسم کے کسی امتیازی وصف سے متصف ہونا ضروری ہے اوربلانے میں بھی اس چیزکوضرورملحوظ رکھا جاتا ہے کہ ان سے وقت ضرورت پڑنے پرکچھ’’کام‘‘بھی نکالاجاسکے،ورنہ توشہرشہر،گلی گلی ایسے روزہ داروں کی کوئی کمی نہیں،جوبے چارے پانی ہی سے سحری کرتے اور اسی سے افطار بھی کرتے ہیں،مگرچوں کہ ان کی غیرت و عفت اور پاک دامنی ان کے اندرون پر پردہ ڈالے ہوتی ہے؛اس لیے ان کی حاجت مندی کی جانب کسی کی نگاہ بھی نہیں جاتی۔اس قسم کی افطارپارٹیوں پراردوکے بزرگ مزاحیہ شاعر جناب اسرارجامعی کے یہ کاٹ دارمصرعے بالکل درست ہیں کہ:
ان کوپوچھوکبھی تواے اسرار
جوبے چارے یہاں ہیں روزہ دار
بہرِنام ونموددیتے ہو
روزہ خوروں کودعوتِ افطار!
اور انفرادی طورپراِس قسم کی پارٹیوں کا انعقادوہ لوگ کرتے ہیں،جومسلم معاشرے میں مال دارلوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔نیتوں کا حال توخیراللہ جانتاہے،مگربچے بچیوں کی ’روزہ کشائی‘کے نام پر جو چونچلے کیے جاتے ہیں اوراس میں لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور اخباروں میں تصاویراورخصوصی خبریں شائع کروائی جاتی ہیں،اس کی ہماری شریعت میں کہاں اجازت ہے!پھریہ کہ اس قسم کے لوگ جن لوگوں کواپنی پارٹی میں مدعوکرتے ہیں،اس میں اپنے اسٹیٹس کالحاظ ضروررکھاجاتا ہے،سوبالانشینوں کی افطارپارٹیوں میں نچلے درجے کے مسلمان روزہ دارکاکوئی گزرنہیں ہوتا۔امیرِشہریاتواپنے ہم جنس کوبلاتاہے یا ان لوگوں کوجوان کی کاسہ لیسی کی صلاحیت سے لیس ہوتے ہیں اوریہاں بھی دعوت میں یہ بالکل بھی نہیں دیکھاجاتاکہ مدعوروزے سے رہتاہے یانہیں،بس یہ دیکھاجاتاہے کہ’مس میچ‘نہ ہونے پائے اورجب بڑے صاحب کے یہاں دعوت ہو،تب توملک کے اِس کونے سے اُس کونے تک بھی لوگ پہنچ جاتے ہیں،چہ جائیکہ ایک شہریا محلے کی بات ہو،شاعرکی سنیے
نہیں روزے سے ہیں توکیا،اداکاری تو کرنی ہے!
امیرِ شہرکی دعوت ہے،افطاری توکرنی ہے!
کہاں ہے شیروانی اورٹوپی لائیے بیگم!
ابھی دن ہے،مگرپہلے سے تیاری توکرنی ہے!
روزہ ایک نہایت ہی اعلیٰ اور افضل عبادت ہے اورافطاری کرانابھی اسی مناسبت سے ایک بہت ہی مقبول عمل ہے،ہمارے نبی اکرمﷺکا ارشادِ گرامی ہے کہ جس نے کسی روزے دارکوایک گھونٹ پانی یا کھجورکے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے ہی افطارکرادیا،توافطارکرانے والے کو روزے دارجتنا ثواب ملے گا اور روزے دارکے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ کیاجائے گا۔اس فضیلت کو دیکھتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک کی یہ کوشش ہونی چاہیے اپنی اپنی وسعت ومقدرت کے بقدر روزہ دارکوافطارکرانے کااہتمام کریں اورعنداللہ اجروثواب اور قربت و رحمت کے حصول کے حق دار بنیں،مگراسلام میں اس کی اجازت کہیں نہیں کہ افطارپارٹی کے نام پرسیاسی دھماچوکڑی مچائی جائے،ایسی پارٹی منعقد کی جائے ،جس میں روزہ دارکم اور روزہ خورزیادہ مدعوہوں،ایسااجتماع برپاکیاجائے،جس کے پس منظرمیں مالی منفعت،وجاہت کے حصول اور اپنے اثرورسوخ کے اظہار کی نیت کارفرماہو۔علماے کرام کواس قسم کی بدعتوں اور رسموں سے مسلمانوں کوروکناچاہیے،انھیں بتانا چاہیے کہ افطارکرانے کا مطلب کیاہے اوروہ کن لوگوں کواور کیسے کراناچاہیے،یہ دیکھ اورجان کر بڑی حیرت اور افسوس ہوتاہے کہ خالص نیتاؤں اورسیاسی لیڈران،جن میں زیادہ تر غیرمسلم ہوتے ہیں،کی جانب سے منعقدکردہ افطارپارٹیوں میں جبہ برداروں اور خرقہ پوشوں کی بھی ایک بڑی جماعت موجودہوتی ہے اورپارٹی کے اختتام پرعجیب عجیب پوزمیں فوٹوبھی ضرورکھنچوائے جاتے ہیں؛تاکہ پتاچلے کہ ہم فلاں لیڈرسے کتنے قریب ہیں اورفلاں صاحب تک ہماری کتنی رسائی ہے!!
جواب دیں