انھوں نے زندگی میں کچھ پانے کے لئے اپنا خاندان چھوڑا، گھربار چھوڑا، بھائی ، ماں اور بیوی چھوڑی اور سنگھ کے دفتر میں آکر رہنے لگے۔ بچپن میں وہ اپنے والد کی چائے کی دکان پر بیٹھتے تھے اور ان کی مدد کرتے تھے ۔ والد کے انتقال کے بعد چچا یہ دکانچلانے لگے تو وہ ان کی بھی مدد کرنے لگے مگر ان کا دل دکان اور گھر میں نہیں بلکہ آر ایس ایس کے دفتر میں لگتا تھا۔ ان کے ایک سونح نگار نے لکھا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی زندگی میں کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا مگر مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ کیا حاصل کرنا ہے۔ لکشمن راؤ انعامدار پہلے وہ شخص تھے جنھوں نے ان کا تعلق آر ایس ایس سے قائم کرایا اور ’’بال سویم سیوک‘‘ کے طور پر انھیں شاکھا میں شرکت کے لئے تیار کیا۔ اسی نے مودی کے سپنے کو ایک رنگ و آہنگ دیا ۔اس کے بعد مودی کا تعلق اپنے خاندان سے کم ہونے لگا۔ گھر والوں سے دور ہوتے گئے۔ شادی ہوئی تو بیوی کے ساتھ بھی زیادہ دن نہیں گذارے اور سنگھ کی محبت بیوی کی محبت پر غالب آگئی۔ بیوی نے پوری زندگی تنہا گذاردی اور زبان پر شکایت تک نہیں لائی۔ ادھر مودی نے بھی اس کی خبر لینا ضروری نہیں سمجھا۔ ماں بھی ان سے ملنے کے لئے ترستی رہی مگر انھوں نے خود کو سنگھ کے کاموں کے لئے وقف رکھا۔ آج وہ جو کچھ ہیں اسی سنگھ اور اس کے رہنما لکشمن راؤ انعامدار کی وجہ سے ہیں۔ لیکن اس اجما ل کی تفصیل بھی ہے۔
کون تھا وکیل صاحب؟
لکشمن راؤ انعام دار عرف وکیل صاحب جس نے مودی کو بہت زیادہ متاثر کیا ۔وہ مہاراشٹر کا رہنے والا تھا۔ پونے سے ۱۳۰ کیلو میٹر جنوب کی جانب ایک گاؤں ہے ’کھاٹو‘جہاں وکیل صاحب کی پیدائش ۱۹۱۷ء میں ہوئی۔ اس نے آرایس ایس میں شمولیت اختیار کی اور آزادی کی لڑائی میں بھی حصہ لیا۔ اس نے حیدر آباد میں نظام کے خلاف ہونے والی جد و جہد میں بھی حصہ لیاجس کے تحت حکومت ہند نے فوج اتار کر نظام کی حکومت کا خاتمہ کیا اور اسے ہندوستانی جمہوریہ کا حصہ بنایا۔ ایک مراٹھی ریوینیو افسر کے دس بچوں میں سے ایک وکیل صاحب بھی تھا جس نے ۱۹۴۳ء میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد پونے یونیورسیٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ درمیانے قد کا ایک تندرست آدمی تھا جو سفید دھوتی اور کرتہ پہنتا تھا۔ وہ خود کو چاک و چوبند رکھنے کے لئے نوجوانوں کے ساتھ کھوکھو اور کبڈی کھیلتا تھا۔
مودی متاثر ہوئے
وکیل صاحب نے اس نے اپنی پوری زندگی آر ایس ایس کے لئے وقف کردی تھی ۔اس نے احمد آباد کے ہیڈ گیوار بھون (دفتر آر ایس ایس )میں رہائش اختیار کر رکھی تھی اور اس کا کام دن رات سنگھ سے لوگوں کو جوڑنا تھا۔ نوجوانوں کو وہ سمجھاتا اور سنگھ کے قریب لانے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ دفتر میں آنے والوں کی خاطر ومدارات بھی کرتا اور اپنے ہاتھ سے چائے بناکر پلاتا تھا۔ اس کی اس خود سپردگی نے مودی کو متاثر کیا اور اس کے عقیدت مند ہوگئے۔ وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے وکیل صاحب کی سوانح عمری بھی تحریر کی ہے۔ وہ پہلی بار اگرچہ دس سال کی عمر میں ملے تھے مگر پھر بعد میں بھی جوان ہونے کے بعد ملتے رہے اور اس سے مشورے کرتے رہے۔ مودی نے سترہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اور اس کے بعد شمالی ہند کے دورے پر نکل پڑے تھے۔ تب ان کی شادی جسودا بین کے ساتھ ہوچکی تھی اور اس دورے سے واپس ہوئے تو ان کی بیوی انتظار کر رہی تھیں۔ اس کے بعد انھوں نے جسودا بین کو میکے جانے کو کہا اور خود ہیڈ گوار بھون میں ڈیرا ڈال دیا۔ پھر جسودا بین نے انھیں کبھی نہیں دیکھا۔یہاں کمرہ نمبر تین میں مودی ٹھہرے تھے اور ایک میں وکیل صاحب
کا قیام تھا۔ مودی اپنے تمام معاملات میں اسی سے مشورے کرتے تھے۔ اسے گجرات میں بابائے سنگھ کا کہا جاتا ہے۔ اسی کے کہنے پر مودی نے پولٹیکل سائنس میں ایم اے کیا تھا۔اس نے ایک روز مودی سے کہا کہ تمہارے اندر بہت سی صلاحیتیں ہیں ان کا استعمال کیوں نہیں کرتے۔ تمہیں اپنی تعلیم آگے جاری رکھنی چاہئے ۔ یہ بات مودی کو اچھی لگی اور انھوں نے پہلے بی اے اور پھر ایم اے کیا۔ اسی نے تمام کتابیں لاکر انھیں دی تھیں جو دلی یونیورسیٹی کے نصاب کی تھیں۔ مودی نے خود لکھا ہے کہ میں جب بھی کسی مسئلے میں الجھتا تھا تو اسی سے مشورے کرتا تھا۔
مودی کا خراج عقیدت
نریندر مودی نے اس تعلق کو ایک یاد گار شکل دینے کی غرض سے ایک سکنڈری اسکول قائم کیا جس کا نام لکمشمن گیان پیٹھ سکنڈری اسکول رکھا گیا۔ اس میں طلبہ کے قیام کا بھی انتظام کیا گیا جس کے لئے ہاسٹل بنائے گئے۔ مودی نے اس کی جو سوانح عمری لکھی ہے اس کا اجراء ۷ ریس کورس روڈ پر اٹل بہاری واجپائی نے کیا تھا۔
نریندر مودی قدم بہ قدم
نریندر مودی کی پیدائش ۱۷ستمبر ۱۹۵۰ء کو واڈ نگر کی ایک گجراتی فیملی میں ہوئی۔ ان کے والد دامودر داس مودی ایک چائے کی اسٹال چلاتے تھے جہاں انھوں نے اپنے والد کے ساتھ چائے فروخت کی۔یہ ان کی ابتدائی زندگی تھی مگر جلد ہی وہ آر ایس ایس سے بال سویم سیوک کے طور پر جڑ گئے۔۱۹۶۰ء میں جب وہ آرا یس ایس سے جڑے تو ان کی عمر صرف دس سال تھی اور وہ اسکول کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انھوں نے سنگھ کی جو پہلی مٹینگ اٹینڈ کی اس میں لکشمن راؤ انعامدار (وکیل صاحب) نے خطاب کیا تھا اور یہی مودی کا رہنما بن گیا۔ مودی کے مستقبل کے پروگرام کو طے کرنے مین بھی اس نے بہت مدد کی تھی اور مودی ان سے بہت متاثر ہوئے ۔
۱۹۶۷ میں نریندر مودی نے اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور گھر چھوڑ کر شمالی ہند کو دیکھنے کی غرض سے نکل پڑے۔ وہ پورے ملک کی سیاحت کر کے اسے دیکھنا اور سمجھنا چاہتے تھے اور یہ اس ملک کو سمجھنے کی شروعات تھی۔ ۱۹۷۰ء میں مودی نے دوبارہ وکیل صاحب سے اپنے تعلقات کی تجدید کی تب وہ آر ایس ایس کے احمد آباد واقع ہیڈ کوارٹر ہیڈ گیوار بھون میں تھے۔ ۱۹۷۲ء میں مودی باقاعدہ طور پر آرایس ایس میں شامل ہوگئے اور ایک پرچارک کے طور پر کام کرنے لگے۔ انھیں وکیل صاحب نے ہی شامل کرایا تھا اور انھیں نے رہنمائی کی تھی۔
۱۹۷۵ء میں جب ایمرجنسی کا نفاذ ہوا اور آر یس ایس کے لوگوں کی دھر پکڑ شروع ہوئی تو سنگھ کے لوگوں کو چھپنا پڑا۔ زمین دوز ہونے والوں میں مودی بھی شامل تھے۔ مودی نے خود کو حکومت سے بچانے کے لئے سکھ کا گیٹ اپ لے لیا۔ انھوں نے داڑھی بڑھالی اور سر پر سرداروں والی پگڑی پہننے لگے اور وہ گرفتاری سے بچ گئے۔
۱۹۸۰ء میں نریندر مودی ایک سمبھاگ پرچارک بن گئے اور یہ آر ایس ایس کے اندر ان کی ترقی تھی۔ ۱۹۸۴ء میں مودی کو قلبی غم ہوا جب ان کا رہنما وکیل صاحب کی موت ہوگئی۔ وہ کینسر جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا تھا۔
۱۹۸۵ء مودی کے لئے یادگار سال تھا جب ان کی خدمات اور سنگھ کے تئیں خود سپردگی سے خوش ہوکر سنگھ نے انھیں بی جے پی کےاندر بھیج دیا۔ اس طرح انھوں نے اپنے سیاسی کریئر کی شروعات کی۔ حالانکہ تب تک بی جے پی بس برائے نام پارٹی تھی۔ اس کا وجود صرف دوسیٹوں تک محدود تھا اور ملک میں اس کی کوئی پہچان نہ بنی تھی۔اس کے بعد بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کی تحریک شروع ہوئی جس نے اسے ملک میں ایک بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر پہچان بنانے میں مددکی۔ ۱۹۹۱ء میں مودی کا سیاسی قد اونچا ہونے لگا جب مرلی منوہر جوشی نے کنیا کماری سے سری نگر تک رتھ یاترا نکالی اور اس کے اہتمام کی ذمہ داری مودی کو دی گئی۔ان دنوں شنکر سنگھ واگھیلا نے مودی کو حاشیئے پر ڈال رکھا تھا۔ ۱۹۹۵ء میں مودی پارٹی کے قومی سکریٹری بنے اور راجدھانی دلی میں پارٹی ہیڈ کوارٹرمنتقل ہوگئے۔ جب کہ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ بن گئے اور ۲۰۱۴ء میں وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ (
جواب دیں