مصری فوج کے ٹینکوں نے ۱۵/اگست کوبغیرکسی اعلان کے نہتے وپرامن شہریوں پر چڑھائی کرتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اوراحتجاجی کیمپوں کوبلڈوزروں سے تہس نہس کردیا۔مصری فوج کی فائرنگ سے برطانوی سکائی ٹی وی نیوز کا۶۱سالہ کیمرہ مین (Mick Deane) مک ڈین بھی ماراگیا۔نہتے شہریوں کی ہلاکت کے بعدپورے مصرمیں ہنگامے پھوٹ پڑے اورمختلف شہروں میں اخوان المسلمون کے کارکنوں اورسیکورٹی فورسزکے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں۔فوجی حکومت نے صورتحال پرقابو پانے کیلئے مصرمیں ایک ماہ کیلئے ایمرجنسی نافذکرنے کااعلان کردیاجب کہ قاہرہ اوراسکندریہ سمیت دس صوبوں میں رات کا کرفیو نافذ کردیاگیاہے۔مصری فوجی کاروائی کے خلاف امریکاکے پٹھواوریہودیوں کے ہم نوامحمدالبرادی کوبھی نائب صدارت کے عہدے سے مستعفی ہوناپڑا۔
اخوان المسلمون کاگزشتہ چھ عشروں کے دوران میں زیادہ تروقت وحشت وبہیمت سے بھرپور’’حکومتی مظالم‘‘برداشت کرتے ہوئے گزراہے۔اخوان المسلمون کی خاتون رکن ’’زینب الغزالی‘‘مجاہدہ کی اسیری کی داستان پڑھ کرساراوجودکانپنے لگ جاتاہے اورقرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یادتازہ ہوجاتی ہے۔ان لوگوں کاقصورصرف یہ ہے کہ وہ اپنے وطن میں اسلامی وقانین کی بالادستی اورعوام میں اسلامی شعائرسے محبت ،عقیدت اورموّدت دیکھناچاہتے ہیں۔پہلے سابق صدرجمال عبدالناصرنے ان پرانسانیت سوزمظالم کے پہاڑ توڑے،بعدمیں حسنی مبارک نے اپنے تیس سالہ دورآمریت میں ان کومسلسل قیدوبندکی صعوبتوں میں مبتلارکھااوربعدازاں حسنی مبارک کاتختہ الٹنے کے بعداخوان المسلمون کوانتخابات میں حصہ لینے کاموقع ملاتو وہ اقتدار میں آئی لیکن چونکہ مصرکے اہم اداروں کے اہم مناصب پرحسنی مبارک کی باقیات اورامریکانوازافرادکاقبضہ تھاجن میں عدلیہ سے لیکر انتظامیہ تک سبھی ادارے شامل ہیں، تو انہوں نے صدرمرسی کوایسے داخلی جھمیلوں میں الجھائے رکھاکہ وہ عوامی مسائل کی جانب خاطر خواہ توجہ نہ دے سکے جس کو بنیاد بنا کر امریکی منصوبہ سازوں نے صدرمرسی کے خلاف اپنے گماشتوں کے ذریعے احتجاجی تحریک شروع کردی اورالتحریراسکوئرپرامریکانوازنوجوانوں میں ڈالروں کی بارش برسا کر دھر نا شروع کروادیا۔
صدرمحمدمرسی نے اقتدارمیں آنے کے بعدفوج کی سربراہی اپنی مرضی سے السیسی کے حوالے کردی تھی۔اس کی بنیاد بھی السیسی کی بیگم کاحجاب بناتھاجس کودیکھتے ہوئے صدرمرسی نے السیسی کومحب اسلام سمجھاتھالیکن السیسی کے ساتھ امریکی وزیردفاع کادرپردہ رابطہ قائم تھاجنہوں نے السیسی کے ذریعے پہلے حکومت کووارننگ دلائی ،پھروقت پوراہونے سے قبل ہی فوج کیلئے گرین سگنل دے دیااورفوج نے اقتدارپرشب خون مارکرمرسی کوگرفتارکرکے نامعلوم مقام پرپہنچادیا۔اخوان المسلمون کی نمائندگی چھوٹے قصبوں اوردیہاتوں میں چھائی ہوئی ہے جب کہ بڑے شہروں میں امریکانوازاکثریت میں ہیں، اس لئے صدرمرسی کی گرفتاری اورتختہ الٹے جانے کے خلاف عوامی ردعمل میں کچھ وقت لگااورجب احتجاج شروع ہواتوفوج اس پرقابوپانے میں بری طرح ناکام ہوگئی۔عوامی احتجاج کودیکھتے ہوئے اب مصری فوج نے ’’بہادری کے جوہر‘‘دکھاتے ہوئے اپنے ہی ملک کوفتح کرنے کی کوشش شروع کردی اورنہتے احتجاج کرنے والوں پرٹینک چڑھادیئے اوربے دریغ فائرنگ سے ان کاصفایاشروع کردیا۔آزاداورباوثوق ذرائع اب تک ہزراوں لوگوں کی ہلاکت کی تصدیق کررہے ہیں جبکہ حکومت نے اپنے استعماری اورصہیونیوں آقاؤں کوخوش کرنے کیلئے یہ طے کرلیاہے کہ جائزحق مانگنے والوں کوعبرت کانشانہ بنادیاجائے تاکہ آئندہ کوئی بھی سیاسی قوت فوج کے سامنے سراٹھانے کے قابل نہ رہے۔
مظاہرین کایہ کہناتھاکہ مصری فوج قاہرہ میں پرامن ،دین دوست اورجمہوریت نوازشہریوں کویوں درندگی کانشانہ بنارہی تھی جیسے محصور غزہ میں اسرائیلی فوج بستیوں اورشہروں پر ٹینکوں ،بکترگاڑیوں اوربھاری جنگی مشینری سے ٹوٹ پڑتی ہے۔مصر کے سرکاری روزنامے ’’الاہرام‘‘ میں اس بہیمانہ کاروائی سے قبل ہی یہ خبرشائع ہوچکی تھی کہ اعلیٰ سطح ’’غاصبین اقتدارکے‘‘اجلاس میں کریک ڈاؤن کے پہلے روزہی ۲۵ہزاراخوانیوں کے قتل عام کافیصلہ کرلیاگیاتھاگویامصری اقتدارپرقابض’’ابنائے فراعنہ‘‘بھی قتل وغارت گری کابازار مزید گرم رکھیں گے۔قرآن کے مطابق ’’ماضی کافرعون مصریوں کے بیٹوں کوقتل کرتااورعورتوں کوزندہ رکھتا…….‘‘ لیکن اکسیویں صدی کاماڈرن اورباوردی فرعون تومصری عورتوں کوبھی ذبح کرنے سے دریغ نہیں کررہا۔غضب تویہ ہے کہ عالمی ادارے،عالمی حقوق اوربنیادی انسانی حقوق کاچیمپئن مغرب خاموش تماشائی کرداراداکررہاہے۔
غیروں سے کیاشکوہ،عالم اسلام کی جانب سے بھی مصری فوج کی اس سفاکیت کے خلاف مطلوبہ ردعمل صرف اورصرف ترکی اورپاکستان کی جانب سے آیاہے،باقی ممالک کے حکمران مہربہ لب بتوں کی طرح ساکت وجامدہیں۔مصرکے وزیرخارجہ نبیل فہمی نے دوروزپہلے انتباہ کیاتھاکہ’’دھرنے جلدختم کردیئے جائیں گے‘‘۔ان کاکہناتھا’’مذاکرات کامیاب نہ ہوئے توان دھرنوں کوقانون کے مطابق منتشرکردیاجائے گا‘‘۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ دنیاکاوہ کون سا قانون ہے جواپنے ہی ملک کی فوج کواپنے ہی شہروں کے باسیوں پرصبح سویرے ٹینکوں،بکتربندگاڑیوں اوربلڈوزروں سمیت دھاوابولنے کو قانون کی حکمرانی کیلئے ناگزیرجانتاہے،جوسیکورٹی فورسزکواچانک پرامن مظاہرین کے ساتھ تاتاریت،نازیت اورصہیونت کے مظالم کی تاریخ ’’زندہ کرنے‘‘پراکساتاہے،جو مسلح فوجی دستوں کونہتے شہریوں کوراستے سے ہٹانے کیلئے ’’لائسنس ٹوکل‘‘فراہم کرتاہے،جو۵۰۰سے زائد معصوم بچوں اورعفت مآب خواتین کوخیموں میں زندہ جلاڈالنے کوکریک ڈاؤن کے عنوان سے جائزتصورکرتاہے۔مصری عوام یہ قربانیاں کسی فردِ واحد کے اقتدارکی بحالی کیلئے نہیں بلکہ اقتدارپرفوج کی غیرآئینی ،غیرقانونی اورناجائزقبضے کے خلاف دے رہے ہیں۔یہ ایک کڑواسچ ہے کہ عالم اسلام کے اکثرممالک کی افواج (الاماشاء اللہ)استعمارکی آلہ کارہیں اورمسلم ممالک میں کرائے کے سپاہیوں کاکرداراداکرہی ہیں۔مسلم ممالک کارقبہ استعمارکے مذموم اہداف وعزائم کی جولانگاہ ہے اوران کے حکمران طبقات استعمارکی کٹھ پتلیوں اورتابع مہمل کاکرداراداکررہے ہیں،ایسے میں قاہرہ کے شہدا ’’جو تاریک سمندرمیں روشنی کے جزیرے کی حیثیت ‘‘رکھتاہے کی بیش بہاقربانیوں نے ثابت کردیاہے کہ آج کے مصرمیں حکمرانوں کایہ نقطۂ نظرغلط ہے کہ ’’جوبھی فاتح ہے سب کچھ اسی کا ہے‘‘۔
حالات وحقائق نے ثابت کردیاہے کہ مصری عوام میں اخوان المسلمون اورصدرمحمدمرسی کی مقبولیت،محبوبیت میں روزبروزعدیم المثال اضافہ ہوتاچلاجارہاہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی میڈیایہ مجرمانہ چشم پوشی کیوں کررہاہے جویہ تاثردے رہاے کہ محمدمرسی مقبولیت کھوبیٹھے ہیں؟یہ میڈیا۳۰جون ۲۰۱۲ء ہی سے اخوان المسلمون کی حکومت گرنے کی فضا بنارہاتھا۔صدرمرسی پہلے منتخب مصری صدرہیں کہ جن کی جبری برطرفی پر۳جولائی سے اب تک مصرکے طول وعرض میں عوام بلاتوقف سراپااحتجاج ہیں۔قاہرہ میں رابعہ العداویہ اور نہفہ چوک میں لا کھوں عوام ڈیڑھ ماہ تک دھرنادیئے بیٹھے تھے اوران کے مطالبات تھے کہ جبری معزول صدرمحمدمرسی کوفوری بحال کیاجائے،فوج بیرکوں میں واپس جائے اورمصری عوام کے مینڈیٹ کی توہین کرنے پران سے معافی مانگی جائے۔
دنیابھرکے جمہوری ممالک میں اقتدارسے معزول یابرطرف کئے گئے کسی بھی صدریاوزیراعظم کے ساتھ عوام نے اس محبت،وارفتگی،سرفرشانہ ولولوں اورجاں نثارانہ جذبوں کے ساتھ اظہارِ یگانگت نہیں کیاجس کامظاہرہ مصری عوام نے صدرمحمدمرسی کے ساتھ کیاہے۔یہ امرقابل ذکرہے کہ اخوان المسلمون کے مرشدعام ڈاکٹربدیع نے ۴جولائی کوقاہرہ میں لاکھوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فوجی مداخلت کوغیرقانونی حرکت بلکہ بغاوت قراردیتے ہوئے کہاتھا:’’جرنیلو!مصر،مصریوں کوواپس کردو،ہم فوجی بغاوت مستردکرتے ہیں ،ہم مصری عوام کی آزادی کیلئے لڑنے اورمحمدمرسی کی بحالی تک احتجاج جاری رکھنے کااعلان کرتے ہیں۔ہماری انقلابی تحریک پرامن ہے اورانشاء اللہ پرامن تحریک بندوقوں اور ٹینکوں سے زیادہ طاقت وراورمضبوط ہوگی،ہماری جدوجہدجمہوریت کیلئے ہے اورہم فوجی اقدامات کونہیں مانتے ‘‘۔مصری عوام نے اس آوازمیں اپنی آوازملادی اوراس آوازکوعملی شکل دینے کیلئے مصر کی گلیاں،بازاراپنے خون سے رنگین کردیئے اوریہ سلسلہ تادمِ تحریرپورے جوش وجنون اوروالہانہ جذبے کے ساتھ جاری ہے جس کی مثال عصرِ حاضرکی تاریخ میں نہیں ملتی۔
صدرمرسی کومعلوم نہیں کس خفیہ مقام پراب تک قیدِ تنہائی میں رکھاہواہے لیکن ان کے حق میں مظاہرکرنے والے اورمصری عوام کے جمہوری اوراسلامی جذبات کی نمائندگی کرنے والے سپوتوں کونہائت بیدردی اوربے خوفی کے ساتھ سرعام اندھے کنوئیں میں پھینکاجارہاہے۔ظلم وبہیمت کایہ مظاہرہ صرف ۱۴/اگست اوربعدکے دنوں ہی میں نہیں ہوا،اس سے قبل جمعہ کے روزبھی مصری فوج نے انتہائی بیدردی کے ساتھ گولیوں کی تابڑتوڑبارش کرکے ۵۲ابنائے مصرفرزندان اسلام اورفرزندانِ اسلام کی لاشیں سڑکوں پرتڑپتی چھوڑدیں تھیں۔حالیہ دنوں میں تومصری فوج نے بوچڑوں اورقصابوں کی طرح ریاستی جبرکاقہراس طرح نازل کیاکہ لاتعدادبے گناہوں کی گردنیں اڑادیں۔قاہرہ میں دوسرے شہروں سے آنے والی ریل اوردیگرگاڑیوں کے ’’داخلے پرپابندی‘‘عائدکردی گئی مباداان مظاہرین کے حامی ان کے مددکیلئے غول درغول آکرثابت نہ کردیں کہ مصری عوام کی اکثریت کس کے ساتھ ہے۔مصرکے دوسرے بڑے شہراسکندریہ میں بھی کم وبیش یہی عالم رہا،یہ سب کچھ دن دہاڑے کیاجارہاہے ۔قتل عام رکانہیں توملک کے بڑے حصے میں اہم شہروں اور قصبات میں کرفیونافذکردیاگیاہے۔
عالمی میڈیاقتل عام اوربہیمت کے اس ’’برہنہ فوجی رقص‘‘کودیکھتااوردکھاتاہے۔عوام پرمصری فوج کی جانب روارکھے گئے بدترین ظلم کی ایک ایک لمحے کی خبردنیاکے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک پھیلارہاہے لیکن کہیں بھی انسانیت کے ضمیرپرجوں تک نہیں رینگ رہی۔مصرکے فوجی مظالم کے خلاف کسی اقدام کااعلان نہیں کیاجاتا۔امریکاکی جانب سے ہلکے پھلکے اندازانتہائی معمولی تشویش یارسمی مذمت کااظہارکیا جاتاہے،عالمی ضمیربیدارنہیں ہوتا،انسانی حقوق کی پاسداری کے دعوے کرنے والی بڑی تنظیمیں واجبی رسمی بیانات سے آگے نہیں بڑھتیں۔یورپ کے روشن خیال’’گورے دانشور‘‘اوران کے مشرق میں بسنے والے معدودے چند’’کالے برخوردار‘‘اپنامنہ بندرکھے ہوئے ہیں،اپنے لب سی لئے ہیں۔ اسرائیل اورعالمی یہودی لابی کی خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہیں،اس لئے کہ مصر’’عرب دنیاکے اہم ملک‘‘میں اگرعوام کی منتخب کردہ حکومت کوچندسال بھی کام کرنے کاموقع مل گیاتویہودی ریاست کے قیام کے مخالف اور’’فلسطین کی آزادی‘‘کے متوالوں کو’’استبدادی شکنجوں‘‘میں دباکررکھنامشکل ہوجائے گا۔
۲۱۰۲ء میں جب محمدمرسی جب انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے مصرکے صدربنے تھے تواسرائیل کے اندرتشویش کی لہراس وقت دوڑگئی تھی اوریہ خدشہ پیداہوگیاکہ نئی منتخب حکومت سابق صدرانوارسادات کے اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے ۱۹۷۹ء کے’’ کیمپ ڈیوڈمعاہدے‘‘کوبرقراررکھے گی نہیں؟یہ وہ معاہدہ ہے جس کے نتیجے میں مصری فوج نے پے درپے اورذلت آمیزشکستوں سے دوچارہونے کے بعداسرائیل کونہ صرف جائزریاست کے طورپرتسلیم کیابلکہ عملاًفلسطینی عوام کے خلاف اس کاساتھ دینے کی راہ پرچل نکلی۔معاہدہ کرنے والے انورسادات کو۱۹۸۱ء میں ایک فوجی نے سلامی کی پریڈمیں قتل کردیاتھا ،اس کے جانشین حسنی مبارک نے اپنی ۳۱سالہ آمریت کے دوران میں امریکااور اسرائیل کی آخری حدتک چاپلوسی کی۔غزہ کے فلسطینیوں پرعرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے یہودی ریاست کاکھل کرساتھ دیا،اس کے عوض امریکاسے ہرسال ڈیڑھ بلین ڈالر کی خیرات وصول کرتارہالیکن مصری عوام کی اقتصادی خوشحالی کیلئے مؤثر اوردیرپانتائج کاحامل ایک بھی قدم نہ اٹھایا۔
سوال پیداہوتاہے کہ کیامریکاکومسلمان ممالک میں صرف ایسی جمہوریت پسندہے جواس کی لونڈی بن کر رہے؟فوج،ڈکٹیٹروں کی ماننداس (امریکا)کی اتباع میں کوئی کسراٹھانہ رکھے،کسی عرب ممالک کی جمہوریت ہوتوامریکاکے ساتھ اسرائیل کی بھی تابع مہم بنی رہے۔یہ چونکہ ناممکنات میں سے ہے ،اس لئے امریکانے عالم عرب میں جمہوریت کے پہلے قابل ذکر اوربہت حدتک ’’قابل فخرتجربہ(اخوان صدر)کو‘‘کامیاب نہیں ہونے دیا۔غاصب جرنیل عبدالفتاح السیسی کی پیٹھ ٹھونک رہاہے۔اس کے ہاتھوں انسانی حقوق انتہائی بیدردی کے ساتھ پامالی کوبرداشت کررہاہے۔امریکامسلم دنیاکی ہراس جمہوریت سے بیزاری محسوس کرتاہے اوراسے چلنے نہیں دیتاجواپنے عوام کی تمام جائزطریقوں سے نمائندگی کے ساتھ ان کے دینی اوراسلامی جذبوں کی بھی مظہرہوکیونکہ ایسی حکومت تہذیبوں کے تصادم کے اس دور میں امریکااوریورپ کی نظریاتی شکست کی علامت بن سکتی ہے، اس کی کامیابی کی صورت میں اسلام اورجمہوریت کے درمیان ہم آہنگی وجودمیںآجاتی ہے۔یہ امرامریکی اوریورپی دانشوروں اوران کے پالیسی سازوں کومنظورنہیں کیونکہ اگرکسی بھی مسلم ملک کے اندراسلام اورجمہوریت کے درمیان کامیاب ملاپ ہوجاتاہے تواس سے مسلم دنیاکے اندرسیکولرازم کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی،تہذیبوں کی جنگ میں مسلمانوں کی فتح کے دروازے کھلنے شروع ہوجاتے ہیں۔ نجانے سیدسلیمان ندوی کیسے یادآگئے!
ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں وہ ایک قطرۂ خوں جو رگِ گلو میں ہے۔
جواب دیں