اپنی اس اندھی تقلید میں سول لائنس میں واقع ولسونیاکالج Wilsonia Collegeیہ بھول گیا کہ نہ صرف ملک بلکہ بیرون ممالک میں بھی اس روش کیخلاف رجحان بدل چکا ہے۔ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ موقف میں علما کرام کے فتوی کیخلاف چلنے سے صاف انکار کردیا تھانیز6جولائی2009 کو اپنے تاریخی فیصلہ میں داڑھی کیخلاف رائے زنی پر معافی طلب کرلی تھی ۔ گذشتہ مہینہ23جنوری کوامریکی فوج میں بھی یونیفارم کے حوالہ سے سخت قوانین کو نرم کرتے ہوئے نہ صرف داڑھی کے علاوہ پگڑی، یہودی ٹوپی اور ٹیٹو رکھنے کی اجازت دی جاچکی ہے بلکہ پچھلے سال توجرمنی کے لیئن فیلڈن شٹوٹگارٹLeinfelden-Echterdingen میں داڑھی اور مونچھوں کے باقاعدہ عالمی مقابلے بھی منعقدہوئے ہیں۔ اس مقابلہ میں 3 سو سے زائد افرادنے مونچھوں اور داڑھی کی مختلف کیٹیگریزکے تحت حصہ بھی لیا۔اس کے باوجودگذشتہ روز 24فروری بروز پیر کو 12 ویں کے طالب علم کو داڑھی رکھنے پر داخل نامہ دینے سے انکار کر دیا گیا ۔معاملہ اتنا بڑھا کہ اس کیخلاف طالب علم کے اہل خانہ اور قریبی لوگوں نے کالج کے باہر مظاہرہ کیا اور ڈائریکٹر کیخلاف مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام عائد کرتے ہوئے سول لائنس تھانے میں تحریربھی پیش کر دی ۔یہی وجہ ہے کہ کالج کے پرنسپل اے ایس سنت رام کوتعزیرات ہند کی دفعہ 298 کے تحت ضلعی مجسٹریٹ سنجے کمار نے تفتیش کیلئے ایس ایس پی آشوتوش کمار کو متعین کیا ہے ۔
داڑھی پھر بنی نشانہ:
ہوا یوں کہ جگر کالونی باشندے شپنگ ایجنٹ وجاہت خان کا18 سالہ بیٹا عبد الباسط علی خان ولسونیا انٹر کالج کی 12ویں کلاس میں زیر تعلیم ہے ۔ اس کے امتحانات منگل سے ہونے ہیں جبکہ وہ پیر کو کالج میں داخلہ نامہAdmit Card لینے گیا ۔ملک میں جاری عصبیت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ڈائریکٹر شیرین سترام نے اس سے کہا کہ داڑھی منڈوانے کے بعد ہی اسے اجازت نامہ ملے گا ۔عبدالباسط نے گھر پہنچ کر اہل خانہ کوصورتحال سے آگاہ کیاتواس کے والد نے اپنے بھائی ندیم خاں سے معاملہ دیکھنے کی درخواست کی ۔ انہوں نے کالج پہنچ کر ڈائریکٹر اور اسٹاف سے داخلہ نامہ دینے کو کہا ۔ اہل خانہ نے صاف کہہ دیا کہ داڑھی کٹوانا شریعت کیخلاف ہے جبکہ ڈائریکٹر اپنے موقف پراڑی رہیں۔ کالج کے ڈائریکٹر کیخلاف غم و غصہ پھیل گیا۔نوبت ییاں آن پہنچی کہ سماج وادی پارٹی کے صدر شعیب پاشا اور سماج وادی پارٹی لیڈر یوسف ملک کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ۔ دونوں رہنماؤں کی قیادت میں وہ اے ڈی ایم سٹی پروین مصر سے ملاقات کی گئی ۔عجیب بات یہ ہے کہ اے ڈی ایم سٹی کی دخل اندازی کے باوجود ڈائریکٹرنے داخل نامہ دینے سے انکار کر دیا ۔تادم تحریر سماج وادی پارٹی رہنماؤں اور اہل خانہ کیساتھ کچھ وکلا نے بھی ولسونیا کالج کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔یہ ساری دوڑ دھوپ کیا رنگ لاتی ہے ‘ یہ تو وقت ہی بتائے گاجبکہ عبدالباسط جیسے ہی ایک مسلمان طالب علم نے سپریم کورٹ سے مقدمہ جیت لیا تھا۔مبصرین نے اس کی تائید میں برملا کہاتھا کہ اگر کوئی پختہ ایمان والا مسلمان اسلامی شعائر پر خلوص سے کار بند ہے تو پھر عدالت عظمیٰ بھی اس کے موقف کی تائید کرتی ہے۔
پرانی چوٹ ہوئی تازہ:
اب عبدالباسط کی باری ہے کہ وہ اپنی ثابت قدمی کاثبوت پیش کرے جبکہ مدھیہ پردیش کے ایک کا نوینٹ اسکول میں پڑھنے والے طالب علم محمد سلیم کو بھی اسکول نے محض اسی لئے خارج کردیا تھاکہ اس نے عالم شباب میں داخل ہونے کے بعدماحول کیخلاف اسلامی شعائر میں پناہ حاصل کی تھی اورروزہ نماز کی پابندی کیساتھ اپنے چہرے کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے مزین کیا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ ولسونیا انٹر کالج کی طرح ہی عیسائی مشنری کے اسکول کو محمد سلیم کا یہ نور ایک آنکھ نہیں بھایا اسے عبدالباسط کی طرح ہی اسکول مخالفت کا سامناکرنا پڑا۔ حتی کہ اس بنیاد پراسے اسکول سے خارج کردیا گیا جبکہ اس نے داڑھی منڈوانے سے صاف انکار کردیا تھا۔محمد سلیم کے والد نے اپنے بیٹے کے اس بنیادی آئینی حق کے تحفظ کیلئے نہ صرف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایابلکہ معاملہ مدھیہ پریش ہائیکورٹ تک جاپہنچا ‘یہ الگ بات ہے کہ وہاں بھی اس کی درخواست مسترد کردی گئی۔ لیکن محمد سلیم نے ہار نہیں مانی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی پناہ حاصل کی۔ ابتدامیں یہاں بھی ایک سیکولر اور منصف مزاج جج نے اس کی داڑھی پر ایسی منفی رائے زنی کی کہ پورے ملک میں ہنگامہ مچ گیا ۔سلیم نے دلبرداشتہ ہوکر گھر بیٹھنے یا اپنی داڑھی صاف کرواکے اسکول کی تعلیم جاری رکھنے کی بجائے اولولعزمی ا مظاہرہ کیا اپنے داڑھی رکھنے کے آئینی حق کی حفاظت کے لئے جدوجہدکرتا رہا۔ آخر کار 11ستمبر کو عدالت عظمیٰ نے اس کے حق میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے مدھیہ پردیش کے نرملا کا نوینٹ اسکول کوہ حکم جاری کیا کہ وہ 10ویں جماعت کے طالب علم محمد سلیم کو داڑھی سمیت اسکول میں واپس لے۔
قانونی پیچیدگیاں اور جدوجہد:
عدالت عظمیٰ میں محمد سلیم کی کامیابی بظاہر ایک فرد واحد کی کامیابی سمجھی گئی تھی جبکہ موجودہ حالات میں یہ عبد الباسط کیلئے بھی مشعل راہ ہے۔اس وقت یوپی کے مرادآبادمیں آبادعبد الباسط اور اس کے متعلقین کیلئے ایک مثال ہے کہ 4برس قبل کچھ اسی قسم کے حلات مدھیہ پردیش میں بھی پیش آئے تھے جہاں نرملا کا نوینٹ اسکول میں 10ویں کلاس کے طالب علم کو گرمی کی چھٹیوں کے دوران جب تبلیغی جماعت میں جانے کا موقع ملا تو اس نے دین کی عظمت قبول کرتے ہوئے داڑھی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جب چھٹیاں ختم ہونے کے بعدجب وہ اسکول پہنچا تو اس کے اسکول انتظامیہ نے اس کی داڑھی پر متعدد سوالیہ نشان قائم کردئے۔محمد سلیم سے کہا گیا کہ وہ داڑھی صاف کرواکے اسکول آئے‘بصورت دیگر اسے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ محمد سلیم نے داڑھی منڈوانے کی حکم عدولی کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس کا مذہبی معاملہ ہے جس میں مداخلت کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔اسکول انتظامیہ نے اس جرات مندی کی پاداش میں محمد سلیم کو اسکول سے خارج کردیا۔ محمد سلیم کے والد نے اسکول انتظامیہ کے اس فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کیا۔معاملہ جب مدھیہ پردیش ہائی کورٹ تک پہنچاتو اس کی درخواست مسترد کردی گئی۔ محمد سلیم کے والدنہ ہمت نہیں ہاری اور عدالت عظمیٰ پردستک دی جہاں اس معاملہ نے ایک عجیب رخ اختیارکر لیا۔ سیکولر اور صاف ذہن کے حامل جسٹس مارکنڈے کاٹجونے نہ جانے کس مغالطہ محمد سلیم کے مقدمہ کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ ’ملک کو طالبان کے راستہ پر لے جانے کی اجازت نہیں دی سکتی۔داڑھی کیخلاف کاٹجوکے منفی تبصرہ پر ملک بھر کے مسلمانوں میں ہیجان برپا ہوگیاجبکہ داڑھی رکھنے کے آئینی حق پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔
انصاف کی جیت:
آخر کار جسٹس کاٹجو نے اپنی اصلاح کی اور یہ ریمارکس واپس لیتے ہوئے معافی طلب کرلی مانگ لی۔ جسٹس موصوف کے اس یوٹرن کا خیر مقدم کیا گیا۔اس سے قبل عدالت میں محمد سلیم نے اپنا مقدمہ اعلیٰ سطحی بنچ کے سپرد کرنے کی درخواست کی اورجسٹس کاٹجو کے ریمارکس پر اعتراض کیا۔ جسٹس آروی رویندرن کی زیر قیادت بنچ نے جسٹس کاٹجو کے ریمارکس سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور چیف جسٹس آف انڈیا سے درخواست کی کہ اس معاملہ کو دوسری بنچ کے سپرد کردیا جائے۔ محمد سلیم کی خصوصی درخواست پر جسٹس اگروال اور جسٹس سنگھوی پر مشتمل بنچ میں سماعت کی گئی جبکہ 6جولائی کو کاٹجو نے محمد سلیم سے بھی باضابطہ معذرت خواہی کی ۔موجودہ واقعہ میں نہ صرف عبدالباسط کو بلکہ ولسونیا انٹر کالج کے ڈائریکٹر کو بھی سمجھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کی تبدیل شدہ بنچ نے محمد سلیم کے حق میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے نرملا کانوینٹ اسکول انتظامیہ کی سرزنش کی تھی اور کہا تھاکہ صرف داڑھی رکھنے کی پاداش میں آپ نے طالب علم کو اسکول سے نکال دیا؟اگر کوئی سکھ طالب علم ہوتو کیا سے داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی؟کل آپ یہ کہیں گے کہ داڑھی یونیفارم کیخلاف ہے لہٰذا منڈوانی ہوگی۔ عدالت نے مزید کہاتھا کہ آج کل تو کانوں میں بالیاں پہننا ایک فیشن بن گیا ہے۔ اگر کوئی طالب علم کانوں میں بالیاں پہن لیتا ہے یا پہن لیتی ہے تو کیا اسے بھی اسکول سے نکال دیا جائے گا؟ جسٹس بی این اگروال اور پی ایس سنگھوی پر مشتمل بنچ نے مشنری ہائی اسکول کونوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ محمد سلیم کا اسکول میں داخلہ بحال کیا جائے۔
فتوؤں پر دخل اندازی نہیں:
ان واقعات کے علاوہ ملک میں ایسے بے شمار موضوعات ہیں جن پر مسلمانوں کو دین کی روشنی میں عملدرآمد پر اختیار حاصل ہے۔عبد الباسط کے حامیوں کو سمجھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ نے منگل کوبھی اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ’ ہم فتوؤں پر دخل اندازی نہیں کر سکتے ۔‘یہ بات شریعت اور فتوؤں پر دائر درخواست کی سماعت کے دوران کہی گئی جبکہ عدالت نے کہا کہ’ یہ سیاسی مذہبی مسائل ہیں‘ ہم ان پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ اس ملک میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گنگا جل تمام بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے ۔ یہ تو یقین کا معاملہ ہے ۔ دہلی کے وکیل وشولوچن مدن نے اس بارے میں ایک پٹیشن دائر کی ہے جس میں دارالقضا اور دارالافتاء اداروں کی طرف سے جاری کئے جانے والے فتووں کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ مدن نے دلیل دی کہ فتووں کی وجہ سے ایک مسلم لڑکی کو اپنے شوہر کو چھوڑ کر اپنے اس سسر کیساتھ رہنا پڑا جس پرمنہ کالا کرنے کا الزام لگایا تھا ۔مدن نے کہا کہ ملک کے 52 سے 60 اضلاع میں دارالقضا اور دارالافتاسرگرم ہے جہاں مسلم بڑی تعداد میں رہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان فتووں کو چیلنج نہیں کر سکتے جبکہ یہ فتوی ان کی زندگی اور شہری کے طور پر ان کی آزادی میں دخل ڈالتے ہیں ۔اس پر عدالت نے وکیل مدن کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ آپ زیادہ ڈرامیٹک ہو رہے ہیں ۔ عدالت نے متنبہ کیاکہ’ آپ زیادہ ڈرامیٹک نہ ہوں ، اس لڑکی کا دفاع ہم کریں گے ۔ آپ سمجھ رہے ہیں کہ سارے فتوے بے بنیاد ہوتے ہیں ۔ کچھ فتوے سمجھداری بھرے بھی ہو سکتے ہیں اور لو گوں کیلئے فائدہ مند ہو سکتے ہیں ۔ اس ملک کے لوگ بہت سمجھدار ہیں ۔ اگر دو مسلمان ثالثی کرانے کیلئے راضی ہیں تو اس پر کون روک لگا سکتا ہے ؟ مسلم پرسنل لابورڈ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی فتوی بنیادی حق کو متاثر کرتا ہے تو کوئی بھی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے ۔
وہ اپنی خونہ چھوڑیں گے‘
ہم اپنی وضع کیوں بدلیں؟
جواب دیں