از قلم: محمد فرقان
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
سوشل میڈیا کا مشہور و معروف میسنجنگ ایپ واٹس ایپ نے نئے سال میں اپنی سروس اور پرائیویسی پالیسی میں تبدیلیاں متعارف کرواتے ہوئے صارفین کو نوٹیفکیشنز بھیجی ہیں۔ اور نئی پالیسی کو قبول نہ کرنے کی صورت میں صارف اپنے واٹس ایپ اکاؤنٹ تک رسائی کھوبیٹھے گا اور اسے اکاؤنٹ ڈیلیٹ کرنا پڑے گا۔ صارفین کو نئی پالیسی قبول کرنے کے لیے آٹھ فروری تک کا وقت بھی دیا ہے۔ نئی پالیسی کے مطابق واٹس ایپ صارفین کا ڈیٹا نہ صرف استعمال کرے گا بلکہ اسے تھرڈ پارٹی بالخصوص فیس بک کے ساتھ شیئر بھی کرے گا۔ واٹس ایپ کی نئی پالیسی کے مطابق وہ صارف کا نام، موبائل نمبر، تصویر، سٹیٹس، فون ماڈل، آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ ساتھ ڈیوائس کی انفارمیشن، آئی پی ایڈریس، موبائل نیٹ ورک اور لوکیشن بھی واٹس ایپ اور اس سے منسلک دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مہیا کرے گا۔ اس کے ساتھ واٹس ایپ ٹرانزیکشن اور پیمنٹ کے نئے فیچر کی انفارمیشن بھی شئیر کرے گا۔ نئی پرائیویسی پالیسی میں واضح طور پہ کہا گیا ہے کہ انتظامیہ صارفین کا ڈیٹا سٹور کرنے کے لیے فیس بک کا عالمی انفرا سٹرکچر اور اس کے ڈیٹا سنٹرز استعمال کر رہی ہیں۔ ان میں امریکہ میں موجود ڈیٹا سنٹر بھی شامل ہے۔
صارفین کی جانب سے واٹس ایپ پرائیویسی پالیسی میں تبدیلی پر خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اور ان میں ڈر و خوف کا ماحول پایا جارہا ہے۔واٹساپ صارفین کی ایک بڑی تعداد واٹساپ کو الوداع کہ چکی ہے اور ایک بڑی تعداد الوداع کہنے کی تیاری میں ہے۔صارفین اپنی پرائیویسی بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور واٹس ایپ کا متبادل تلاش کرتے ہوئے دیگر میسیجنگ ایپ کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔ پرائیویسی کے خطرات مسلمانوں کیلئے زیادہ معنیٰ رکھتی ہیں کیونکہ یہود و نصاریٰ کے رگوں کے اندر دوڑنے والے خون کے ایک ایک قطرے میں اسلام دشمنی شامل ہے۔ اور حالیہ دنوں میں اپنی پرائیویسی کو لیکر مسلمان بھی فکرمند نظر آرہے ہیں۔ لیکن کیا ہم مسلمانوں کو واقعی اپنی پرائیویسی کی فکر ہے؟ کیا واقعی پرائیویسی ہمارے لئے کوئی معنیٰ رکھتی ہے؟ کیا ہم واقعی اپنا ڈیٹا محفوظ رکھنا چاہتے ہیں؟ یقیناً ہم پرائیویسی کو لیکر فکر مند نظر آرہے ہیں۔ لیکن کیا ہمیں معلوم نہیں کہ ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے جب ہماری زندگی کی پرائیویسی کا نام و نشان ختم کردیا جائے گا اور ہماری زندگی کا مکمل ڈیٹا سب کے سامنے کھول کر رکھا جائے گا اور شئیر کیا جائے گا!
جی ہاں! آپ نے صحیح پڑھا کہ عنقریب ایک ایسا ہولناک دن آنے والا ہے جب آپکا مکمل ڈیٹا نوع انسانی کے سامنے رکھا جائے۔ جس دن جن و انس، چرند و پرند سب حیرت کے عالم میں ادھر ادھر بھاگتے ہونگے اور ایک بھیانک آواز سے سب کے جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر روئی کی طرح اڑنے لگیں گے، آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے، پورا عالم فنا ہوجائے گا اور اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔ ہاں ہم اسی ہولناک دن کی بات کررہے ہیں جس دن سنگین حادثات پیش آئیں گے، ہر طرف شر پھیلا ہوگا اور مصیبت چھائی ہوگی، مردے قبروں سے اٹھیں گے اور میدان محشر میں آئیں گے، جہاں اللہ کی عدالت لگی ہوئی ہوگی، بڑے بڑے شیر دل اور بہادر لوگوں کے دل بھی زور زور سے دھڑکنے لگیں گے اور ان کی آنکھیں فرط خوف سے جھکی ہوں گی، اوپر آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی انہیں ہمت نہیں ہوگی، لیکن ہر ایک کو بار گاہ الٰہی میں پیش ہونا ہوگا، رب کے سامنے آکر ہم کلام ہونا پڑے گا، درمیان میں کوئی ترجمان بھی نہیں ہوگا، زندگی کا مکمل ڈیٹا یعنی دنیا میں کیے ہوئے سب اعمال سامنے ہوں گے، ان کے بارے میں جواب دہی ہوگی، انسان کا ہر عمل اللہ کے علم، لوح محفوظ اور کرامً کاتبین کے رجسٹر میں محفوظ ہوگا۔یہی وہ قیامت کا دن ہوگا جس دن پرائیویسی کا کوئی تصور نہ ہوگا، جہاں آپکے والدین، بیوی بچے، رشتہ دار اور پوری نوع انسانی کے سامنے آپکی زندگی کا مکمل ڈیٹا رکھا جائے گا اور حساب و کتاب ہوگا، ایک ترازو میں آپ کے اعمال تولے جائیں گے اور اعمال کے اعتبار سے نیک لوگوں کو جنت کا عیش اور بد لوگوں کو جہنم کا عذاب نصیب ہوگا۔ ایسے ہولناک دن میں اپنی پرائیویسی کو محفوظ رکھنے کے بارے میں کیا ہم نے کبھی سوچا ہے؟ جبکہ روز محشر ایک ایسی پالیسی ہے جسکو صدیوں سے بیان کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن میں واضح الفاظ میں میدان محشر کی ہولناکی اور حساب و کتاب کا تذکرہ کیا ہے۔ قرآن کے سورۃ الانفطار میں فرمایا ”اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ“ کہ جب آسمان پھٹ جائے۔”وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ“ اور جب ستارے جھڑ جائیں۔ ”وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ“اور جب سمندر ابل پڑیں۔”وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ“ اور جب قبریں اکھاڑ دی جائیں۔”عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ“ تب ہر شخص جان لے گا کہ کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑ آیا۔ (سورۃ الانفطار، آیت 1 یا 5)۔ ایک اور جگہ سورۃ الجاثیۃ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ”قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ“ کہ کہہ دو اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مارتا ہے پھر وہی تم سب کو قیامت میں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔(سورۃ الجاثیۃ، آیت 26)۔اور فرمایا ”وَوَتَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً، کُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعٰٓی اِلٰی کِتَابِہَا، اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ“ اور آپ ہر ایک جماعت کو گھٹنے ٹیکے ہوئے دیکھیں گے، ہر ایک جماعت اپنے نامہئ اعمال کی طرف بلائی جائے گی، (کہا جائے گا) آج تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔(سورۃ الجاثیۃ، آیت 28)۔ اور فرمایا ”ہٰذَا کِتَابُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ“ یہ ہمارا دفتر تم پر سچ سچ بول رہا ہے، کیونکہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے اسے ہم لکھ لیا کرتے تھے۔ (سورۃ الجاثیۃ، آیت 29)۔ ایسی متعدد آیات و احادیث میں قیامت کی ہولناکی اور آخرت کا واضح طور پر تذکرہ کیا گیا ہے۔ اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ اس دنیائے فانی میں انسان کو آخرت کی تیاری کیلئے ہی بھیجا گیا ہے اور اس بات کو بار بار یاد دلوانے کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقریباً سوا لاکھ پیغمبروں کو اپنے بندوں کے درمیان بھیجا۔لیکن افسوس کی بات ہیکہ آج ہم قیامت کے ہولناک دن کو بھول چکے ہیں۔ ہم واٹساپ اور اسکی نئی پالیسی کے بارے میں تو فکر مند ہیں لیکن ہم نے میدان محشراور اسکے حساب و کتاب کی پالیسی کو بھلا دیا، ہمیں یہ بات تو خوب ستارہی ہے کہ واٹساپ ہمارا ڈیٹا فیس بک اور دیگر کمپنیوں کے سامنے رکھے گا لیکن ہائے افسوس کہ ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میدان محشر میں ہم لوگوں کی زندگی کا مکمل ڈیٹا ہمارے آباؤ اجداد اور نسلوں کے سامنے رکھا جائے گا، ہم اپنی پرائیویسی کی فکر کرتے ہوئے واٹساپ کا متبادل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن کیا ہم نے میدان محشر میں اپنی پرائیویسی کو محفوظ رکھنے کیلئے بنا حساب و کتاب جنت میں داخل ہونے کے متبادل طریقہ کو کبھی تلاش کیا؟ جبکہ یہ بات متعدد حدیثوں سے ثابت ہیکہ بعض خوش نصیب اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس روز ہر حزن و غم سے محفوظ ہوں گے، ان کے دل مطمئن ہوں گے، ان کی طبیعتوں میں کسی قسم کا اضطراب نہ ہوگا اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے، انھیں بتائیں گے یہی وہ تمہارا دن ہے، جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا اور وہ لوگ بنا حساب و کتاب جنت میں داخل ہوجائیں۔لیکن افسوس کہ ہم دنیاوی زندگی کو پرتعیش اور کامیاب بنانے میں اس قدر مشغول ہیں کہ اپنی آخرت کو ہی بھول گئے۔ حالانکہ دنیا کی زندگی تو چند دن کی ہے اور اسی زندگی میں ہم آخرت کیلئے اچھے اعمال کرکے جنت میں اپنے لئے ہمیشہ کی زندگی کو کامیاب بناسکتے ہیں۔ اسی کو کسی نے کہا تھا:
دنیا کی عشرت یاد رہی محشر کا منظر بھول گئے
جی ایسا لگایا جینے میں مرنے کو مسلماں بھول گئے
قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آخرت لازمی ہے اور آنے والی ہے۔ دنیوی زندگی محدود ہے اور اخروی زندگی لا محدود ہے۔ ہرانسان کو دنیا کی زندگی میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ آخرت میں ملنے والا ہے۔ دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیاں فکر آخرت سے کبھی خالی نہیں رہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی آخرت کی فکر میں گزاری اور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم دی کہ آخرت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اسکی تیاری کریں۔ صحابہ کرام اور صلحاء عظام کی زندگیوں پر بھی فکر آخرت غالب رہتی تھی۔ اللہ کی عظمت، اس کا جلال، آخرت کی فکر اور یوم الحساب کی ہولناکی کا تصور ان کے دل و دماغ پر چھا گیا تھا۔ وہ قرآن کریم پڑھتے یا سنتے تو سسکیاں لینے لگتے۔ وہ قبریں دیکھتے تو اتنا روتے کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہوجاتی۔ وہ میدان جنگ میں حیدر کرار تھے لیکن تنہائیوں میں خدا کے خوف اور آخرت کی فکر سے اس طرح کانپتے، تلملاتے اور بے چین ہوتے جیسے انہیں کچھ ہوگیا ہو۔ وہ صداقت وامانت میں صدیق ہوتے لیکن چڑیوں کوچہچہاتے دیکھتے تو کہہ اُٹھتے کاش میں بھی چڑیا ہوتا کہ آخرت کے حساب کتاب سے بچ جاتا۔ ہائے افسوس کہ آج ہم نے نہ صرف اپنے اسلاف کی تعلیم کو بھلا دیا ہے بلکہ اپنے مقصد زندگی اور اپنی منزل کو ہی بھلا بیٹھے ہیں۔ہماری منزل اللہ کی رضا، اس کی خوشنودی، جنت کا حصول ہے۔ ایک مومن کا اصل گھر آخرت ہے، یہ دنیا اس گھر کی تیاری کی جگہ ہے۔ لہٰذا اس کو اس کی تیاری کرتے رہنا چاہیے۔ ہمہ وقت، ہر لحظہ، ہر آن اس کی فکر کرنی چاہیے۔ اس عارضی گھر دنیا کو اپنا وطن نہ سمجھے، سفر کے دوران سو نہ جائے، اس میں مگن نہ ہوجائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو منزل پر پہنچنا دشوار ہوجائے گا۔ اور ایک مومن کا اللہ سے ایک معاہدہ ہوا ہے اور وہ جان ومال کے بدلے جنت کا معاہدہ ہے۔ اللہ نے فرمایا: ”إِنَّ اللَّہَ اشْتَرَیٰ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ“بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے جنت ہے۔(سورۃ التوبہ: 111)۔ جنت بہت قیمتی چیز ہے یہ تبھی ملے گی، جب زبان کے اعلان کے ساتھ عمل سے ثابت کیاجائے۔ اپنی جان ومال، اپنی تمام صلاحیتوں، قوتوں، لیاقتوں اور ہنرمندیوں کے ساتھ اس کے حصول کے لیے لگا جائے۔ ہرطرف سے کٹ کر اللہ کی رضا کے لیے یکسو ہوجائیں۔ جس دن ہم اسے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوگئے تو یاد رکھیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں ہمارے قدم چومیں گی اور ہماری آخرت کی پرائیویسی محفوظ رہے گی۔ اور ایسے حالات میں جب قرب قیامت کی نشانیاں ظاہر ہونی شروع ہوچکی ہیں تو آخرت کی تیاری میں غفلت آگے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔لہٰذا اب وقت ہیکہ ہم خواب غفلت سے جاگیں اور آخرت کی تیاری کریں کیونکہ قیامت اب قریب ہے۔
کوئی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی
جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آبھی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
(مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی وڈائریکٹر ہیں!)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں