۱۲ویں صدی کی انسانی آبادی کیلئے ایک سلگتا مسئلہ، پانی کی فراہمی

عارف عزیز(بھوپال)

٭عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں اس کے عالمی کمیشن برائے آبی وسائل کے سربراہ ڈاکٹر اسماعیل سراج الدین نے کئی سال قبل جو کہا تھا وہ اب حقیقت میں تبدیل ہورہا ہے ان کا خیال تھا کہ ”۰۲ویں صدی میں کئی جنگیں تیل کے لئے لڑی گئیں لیکن 21 ویں صدی میں یہ جنگیں پانی کو لیکر لڑی جائیں گی“ اور اس کے لئے حالات بھی پیدا ہورہے ہیں، فی الحال یہ جنگیں انفرادی اور علاقائی نوعیت کی ہیں لیکن جلد ہی ان کا دائرہ وسعت اختیار کرسکتا ہے۔
    یہ اس کرہئ ارض میں ہورہا ہے جس کے دوتہائی حصہ میں آج بھی کھارا پانی بھرا ہوا ہے اور صرف ایک تہائی حصہ زمین پر مشتمل ہے اور اس میں پہاڑ ہیں، جنگل ہیں، کھیت ہیں اور آبادی پھیلی ہوئی ہے، اس آبادی کے بڑے حصہ کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، اسی لئے وہ مسموم پانی استعمال کرکے مختلف بیماریوں کا شکار بن رہا ہے۔ دوسری طرف دنیا کی آبادی دس ارب انسانی نفوس کے ایک بڑے عدد کو پار کرچکی ہے آبادی کے اس روز افزوں پھیلاؤں کے لئے پانی کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے جتنی برق رفتاری سے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہورہا ہے اتنی ہی تیزی سے پانی کے وسائل ساتھ چھوڑ رہے ہیں، کل کارخانے بڑھ رہے ہیں، زراعت کے طور طریقوں میں تبدیلی آرہی ہے، اسی کے ساتھ ترقیات کے نام پر اندھا دھند جنگل کاٹے جارہے ہیں جس سے موسم کا نظام درہم برہم ہورہا ہے، بے موسم برسات، سردی میں گرمی اور گرمی میں سردی اسی کا نتیجہ ہے۔
    ماہرین کا دعویٰ ہے کہ فضا میں نقصان دہ گیس کی مقدار بڑھ رہی ہے اور اس کا اثر زمین کے درجہئ حرارت میں اضافہ کی صورت میں سامنے آرہا ہے، ایک طرف مانسون میں غیر یقینی پیدا ہوئی ہے تو دوسری طرف اس کی وجہ سے سمندر کی سطح بڑھ کر نئے خطرات کی نشاندہی کررہی ہے۔
    آبی وسائل کے ماہر سائنس داں، انسانیت کو درپیش پانی کے اس مسئلہ کے خطرناک پہلوؤں کو محسوس کرتے ہوئے اس کے انسداد پر توجہ دلا رہے ہیں، پانی قدرت کی انمول دولت ہے اس لئے  رشیوں اور منیوں نے اسے زندگی قرار دیا ہے۔ سبھی مذاہب نے پانی کی اہمیت کو تسلیم کرکے اسے فضول بہانے سے منع کیا ہے عالمی ادارے اقوام متحدہ ۲۲ مارچ کے دن کو ”یوم آب“ قرار دکر پانی کے  بحران کی مثال ٹائم بم سے دے چکا ہے، اس کے خیال میں آج دنیا کی پچاس فیصد آبادی پانی کی قلت سے دوچار ہے اور ایسے مکانوں میں سر چھپانے کے لئے مجبور ہے جہاں نہ پینے کے پانی کا مناسب انتظام ہے، نہ ہی صاف پانی کی سربراہی کا کوئی نظم ہے، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے ۰۸ ممالک پانی کی قلت سے پریشان ہیں جن سے ان کی زراعت ہی نہیں شہریوں کی صحت کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
    اس رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ دنیا میں کوئی ایک ارب ۰۴ کروڑ انسان پینے کے لائق پانی اور کوئی ۲ ارب ۰۳ کروڑ نفوس پاکی اور صفائی بھر پانی سے محروم ہیں، دنیا میں ہر سال ۵۷ لاکھ افراد آلودہ پانی کے استعمال سے ہلاک ہوجاتے ہیں، فی الوقت دنیا کے ۹۲ ملکوں میں تقریباً ۵۴ کروڑ انسان پانی کی شدید کمی سے جوجھ رہے ہیں اور اس صدی کے ۰۵ سال بعد ۲ارب ۰۵ کروڑ لوگوں کو پانی کی سخت قلت کا شکارہونا پڑے گا۔
    عالمی غذائی اور زرعی تنظیم کا تجزیہ ہے کہ ہر ۱۲ برسوں کے بعد دنیا میں پانی کی طلب دو گنا بڑھ جاتی ہے لیکن آبی وسائل میں اضافہ نہیں ہوتا، اعداد وشمار کے مطابق دنیا کی آبادی جہاں ۲۲ فیصد بڑھی ہے وہیں آب رسانی میں صرف ۷ فیصد اضافہ درج ہوا ہے۔
    دنیا کی آبادی میں اس اضافے اور پانی کے وسائل میں کمی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پانی کے باعث مختلف ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہورہی ہے، یہی نہیں ملک اور ریاست کا رشتہ، ریاست اور شہر کا تعلق، شہر اور محلوں کا ربط وضبط یہاں تک کہ پانی کی وجہ سے پڑوسیوں، عزیزوں اور ملنے جلنے والوں کے تعلقات بھی بگڑتے جارہے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ترکی اور شام ہمسایہ ممالک میں پانی کے مسئلہ کو لیکر جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی، دوسری طرف مصر نے ایتھوپیا کو واضح الفاظ میں تنبیہ کردی تھی کہ اگر اس نے دریائے نیل سے مزید پانی لیا تو اس کے خطرناک نتائج کا وہی ذمہ دار ہوگا۔ 
    جنوبی ایشیا کے ممالک میں پانی کے تعلق سے جنگ کا فوری اندیشہ تو نہیں لیکن یہاں بھی پڑوسی ملکوں کے درمیان پانی کا تنازعہ موجود ہے، جہاں نیپال کی طرف سے کوہ ہمالیہ کے جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے ہندوستانی دریاؤں میں پانی کی کمی واقع ہورہی ہے وہیں نیپال کو ہندوستان سے مہا کالی دریا کے تعلق سے شکایت ہے، ہندوستان سے بہنے والے دریا پاکستان اور بنگلہ دیش کی سمت بھی جاتے ہیں اور یہ دونوں ممالک ہندوستان پر ان دریاؤں کے پانی کے نامناسب استعمال کا الزام عائد کرتے رہے ہیں اور ہندوستان کے بعض ترقیاتی منصوبوں پر انہیں شدید اعتراض ہے، واضح رہے کہ دنیا کی ۰۴ فیصد آبادی پانی کے لئے ۰۵۲ دریاؤں کے پانی پر انحصار کرتی ہے اور یہ دریا ایک سے زیادہ ممالک میں بہتے ہیں۔
    عالمی آبی کمیشن نے بالکل صحیح کہا ہے کہ اگر ۱۲ ویں صدی کی انسانی آبادی کے ہر ایک فرد کو پانی دستیاب کرانا ہے تو اس پر خصوصی توجہ دینا ہوگی اس کے لئے منصوبہ بندی اور اس سیکٹر میں مناسب سرمایہ کاری ضروری ہے جس کے بغیر آبی وسائل بڑھانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور دنیا کی انسانی آبادی کی سب سے اہم ضرورت یعنی پانی کی قلت دن بدن بڑھتی جائے گی۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )

26جنوری2019)(فکروخبر)

«
»

مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات

چمکی بخار کا قہر اور ہمارا نظام صحت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے