وقف املاک ا ور مسلمان

اس وقت ملک میں35وقف بورڈ کام کرتے ہیں۔ ملک میں سب سے زیادہ آمدنی کرناٹک وقف بورڈکی ہے ۔ یہ ایک اچھی مثال ہے ،ملک کے دیگر ریاستوں کے لیے،سب برا حال مہاراشٹر وقف بورڈ کا ہے ا ور سب سے زیادہ ناجائزقبضہ جات مہاراشٹرمیں ہی ہوئے ہیں۔سیاسی لیڈروں اوروقف کے ذمہ دران کی مہربانی سے۔موجودہ ملک کے اوقاف کے جائیداد کی قیمت جونکالی گئی ہے1.2لاکھ یعنی 12000بلین۔اگر اس رقم کا 10%حصہ یعنی 12000کروڑ بھی مسلمانوں کے تعلیمی،سماجی،مسائل پرخرچ کیا جائے تو بغیر سرکاری خزانے کو ہاتھ لگائے ان کی ترقی ہوسکتی ہے۔
وقف اور اسلام
وقف اسلامی قانون کا ایک اہم جز اور مسلمانوں کی ملی زندگی کا ایک روشن رخ ہے۔مسلمانوں نے ہر دور اور ہر دیار میں اس کارخیراورفلاحی پروگرام کورواج دیا ہے۔وقف صر ف محتاجوں اور مفلسوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہpublic worksسب کے لیے اس میں امیر وغریب کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ 
وقف کے معنی: وقف کی تعریف یہ ہے کہ ملکیت باقی رکھتے ہوئے جائداد کا نفع سب کے لیے یا کسی خاص طبقے کیلئے مختصکردیاجائے۔نہ اس کو بیچا جاسکتاہے اور نہ منتقل کیاجاسکتا ہے۔وقف کا اصل مصدر وقف یقف ،وقفاََ وقوفاََسے مشتق ہے ،جس کے لغوی معنی ٹہرنا ،روک لینا ،کسی شئے کومقید کرلینا ،کسی تیسرے شخص کی ملکیت میں جانے سے روکنے کے ہے۔
وقف کا حکم: لفظ وقف کے استعمال کرنے سے وقف تام(یعنی مکمل) وقف لازم آجاتاہے۔ اب اس کا بیچنا،ہبہ(گفٹ کرنا)وغیرہ حرام و ناجائزہوجاتاہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’اگرتم چاہوتو اس کی اصل کو باقی رکھ کر اس کی پیداوارکو صدقہ کردو مگریہ کہ اس کی اصل نہ بیچی جاسکتی ہے۔نہ خریدی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس میں وارثت جاری ہوسکتی ہے۔)وقف اگر وسیع معنی میں استعمال کیا جائے اس کو اصطلاحی زبان میں وقف بالاستعمال کہتے ہیں۔ 
اسلام میں سب سے پہلے وقف پیغمبرحضرت محمدﷺنے کیا ۔آپ ﷺنے سات باغوں کووقف کیا جو اسلام میں پہلاوقف خیری تھا۔یہ سات باغات’’مخیریق‘‘یہودی کے تھے جوجنگ احدمیں مسلمانوں کی طرف سے لڑتے ہوئے ماراگیاتھا۔اس نے وصیت کی تھی کہ اگر میں ماراجاؤں تومیرے اموال(پراپرٹی)حضرت محمدﷺ کے لیے ہوگی۔وہ انہیں اللہ کی مرضی سے صر ف کریں(خرچ)۔دوسرا وقف اسلام میں حضرت عمر فاروق خلیفہ دومؓ نے کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے زمانہ ہی میں صحابہ کرامؓ نے کئی وقف کیے۔جب پیغمبراسلام کے سامنے کوئی شوسل مسئلہ آتاتوآپﷺ صحابہ کرام کو ترغیب دیتے،صحابہ کرام فوراََ وہ چیز دیں دیتے ۔ 
اسلام کے مالیاتی نظام میں وقف کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اسلامی تاریخ کے ہردور میں غریبوں اورمسکینوں کی ضروریات کو پوراکرنے ،انہیں معاشی طورپر خود کفیل بنانے ،مسلمانوں کو علوم و فنون سے آراستہ کرنے ،مریضوں پریشان حالوں کی حاجت روائی کرنے اور اصحاب علم و فضل کی معاشی کفالت میں اسلامی وقف کا بہت اہم رول رہا ہے۔
ہندوستان میں وقف کی صورتحال :
ہمارے عظیم بھارت میں وقف کے بارے میں حکومت کتنی سنجیدہ ہے ،اس پراگربحث کی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ملک آزاد ہوا تو مسلمانوں کے پاس کچھ بھی نہیں تھا ،آزادی کے بعد ہونے والے لامتناہی فسادات نے ان کی کمر توڑ ڈالی تھی،ان کی جان و مال کو بڑی بے رحمی سے لوٹا جارہا تھا،بڑے بڑے زمیندار ملک چھوڑ کر پاکستا ن جارہے تھے ۔ کروڑوں کی جائیدادوں کو کوڑیوں کے داموں میں بیچ کر وہ چلے گئے ،ان کی بے شمارر جائیدادتوں پر قبضہ کرلیاگیا۔ہزاروں مسجدوں،درگاہوں،قبرستانوں ،خانقاہوں،عاشور خانوں ،مدرسوں جبراََ قابض کی گئیں۔جب مسلمانوں کو ذرا ہوش آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی،مسلمان ان جائیدادوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے اجڑتے ہوئے،مسجدوں میں جانوروں کو باندھتے ہوئے دیکھتے رہیں اور خون کے آنسو روتے رہیں۔
وہ وقف اراضی جو مسلم بادشاہوں و حکمرانوں ،نوابوں اور اہل ثروت نے مسلمانوں کے فلاح بہبود ان کی تعلیمی ،سماجی واقتصادی زندگی کو سدھارنے کے لیے وقف کی تھیں،اس پر اکثر مقامات پرحکومت نے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرائیں،کئی ایکٹر زمینوں کی حصار بندی کردی اور بہت معمولی کرایہ پر اس کو رکھ لیا ۔آج بھی کئی جگہوں پرایک روپیہ سے دس روپیے تک سالانہ کرایہ پر بے شمار وقف پراپرٹی پر حکومت اپنے دفاتر چلار ہی ہے۔
مسلمانوں نے بہت شور وغوغا مچایا تو اس وقت کی کانگریس حکومت نے ایک لنگڑا للا وقف ایکٹ بنایاجسے 1954وقف ایکٹ کہا جاتاہے ۔جسے مولاناابوالکلام آزادنے سب سے پہلے پارلیا منٹ میں پاس کرایاتھا۔جس میں بے شمار خامیاں اور چور راستے تھے۔ اس پرمسلم قیادت نے آواز اٹھائی تو کانگریس نے وقف ایکٹ 1959بنایا اس میں سابقہ ایکٹ کی طرح کئی خامیاں تھیں،ان کو دور کرنے کے لیے 1964اور پھر 1969فائنل ترمیم کی گئی۔اس کے بعد پورے 26سال تک ملک میں یہی قانون چلتا رہا ۔ بالآخرحکومت نے وقف ایکٹ1995بنایا ۔لیکن بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا تھا کہ حسب معمول اس قانون میں بھی کئی دشواریاں وپیچدگیاں تھیں۔1995کے ایکٹ میں ترمیم کی مانگ بڑھنے لگی تو حکومت نے مجبوراََ ایک اور کمیٹی تشکیل دی جس کا نام وقف ایکٹ 2010رکھا گیا۔ 
وقف کی موجودہ وسابقہ صورتحال کا ہم اگر جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہیں کہ گزشتہ چند دہاہیوں میں ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آمد اور سرمایہ کاری نے زمینات کے ریٹ آسمان تک پہنچا دیے۔اب شہروں اور موقع کی جگہوں پران ملٹی نیشنل و کارپوریٹ سیکٹر کوآفسوں اور کارخانوں کو جگہہ ملنا مشکل ہوگئی۔چنانچہ انہوں نے کبھی متولیوں سے تو کبھی وقف بورڈ کے ذمہ داران نے جن میں سینٹرل بورڈسے اسٹیٹ وقف بورڈکے اعلی عہدیدران شامل ہیں۔یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ حکومت اور برادران وطن نے وقف کی پراپرٹی کوجتنا نقصان پہنچایااس سے کئی گناہ زیادہ نقصان مسلمانوں نے پہنچایا ۔کروڑوں،اربوں روپیوں کی قیمتی جائیدادیں کوڑیوں مول بیچ دی گئیں۔
مختلف کمیٹیوں کا قیام اور ان کی شفارشات 
حکومت نے وقتاََ فوقتاََ اوقاف کی جائیدادو ں کی بھلائی و تحفظ کے لیے کمیٹیاں بنائی۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے کمیشنوں نے بھی وقف کی اصطلاحات کے لیے مشورے اور تجاویزیں پیش کیں۔جن میں جسٹس رنگاناتھ مشراکمیشن،جسٹس راجندرسچر کمیٹی،سلیکٹ کمیٹی ،جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
یہ بات بڑے زوروشور سے کہی جاتی ہیں کہ اگربھارت میں اوقافی جائیدادوں کا صحیح تحفظ کیاجائے تو مسلمانو ں کی سماجی،تعلیمی،اقتصادی ترقی ہوسکتی ہے اور ان کی غربت وپسماندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔اس پر ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی بھارت کی ترقی و خوشحالی نہیں ہے؟20کروڑ مسلمانوں کو اگر یونہی چھوڑدیاجائے جن کی تعلیمی ،سماجی و اقتصادی صورتحال پر کوئی توجہ نہ دی جائے تو کیا یہ ملک کے لیے قابل فخر بات ہے؟گاڑی کا ایک پہیہ تو اچھا رہے اور دوسرا کمزو ر وخستہ حال رہے ،جسم کا ایک عضوتوانا و طاقتوررہے اور دوسرا عضو معطل وشل ہوجائے تو اس کو کیا کہیے گا۔مسلمان تو یہ چاہتے ہیں کہ ’’سرکار ،ہمارے پرکھوں ، نوابوں ، بادشاہوں اور اہل خیر حضرات نے جو جائیدادیں وقف کی تھیں اس کا ہی ہمیں کم از کم جائز حق دیجئے ،آپ برسوں سے اس پر قابض ہیں ہمیں سر دست و زمینات نہ صحیح ان کا موجودہ مارکیٹ ریٹ سے کرایہ تو دیجئے ،بے شمار وقف کی پراپرٹیوں پر جو ناجائزقبضے ہیں انہیں تو ہٹائیے ۔ بجٹ میں ہمارے لیے کیا رکھا ہے۔یہ بات جگ ظاہرہے کہ اس وقت ملک میں انڈین ریلوے،محکمۂ دفاع(ڈیفنس)کے بعد سب سے زیادہ املاک وقف کے پاس ہے۔
1996میں راجیہ سبھاکی سلکٹ کمیٹی قائم کی گئی۔ 2006میں راجندر سچر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔2008میں جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی نے اپنی رپورٹ حکومت کو سونپی۔ تمام کمیٹیوں نے اپنی اپنی شفارشات مرکزی اقلیات امور کو سونپ دی۔
سچر کمیٹی کی شفارشا ت :ہم سب سے سچر کمیٹی کی شفارشات کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ملک میں پھیلے ہوئی پانچ لاکھ وقف املاک کے تحفظ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ،مقننہ ،انتظامیہ اور عدلیہ کی سطح پر وقف معاملات کو زیادہ سے زیادہ ترجیح ملنی چاہیے۔(۲)قومی وقف ترقیاتی کارپوریشن بنایا جائے۔ (۳)پانچ لاکھ رجسٹر ڈ شدہ وغیر رجسٹرڈشدہ جائیدادوں کو کنٹرول رینٹ جیسے قانون سے آزاد کردیاجائے۔ (۴) وقف بورڈکو قانون سازادارے وعدالت کی حیثیت دی جائے۔(۵)جس وقف زمین کا استعمال ایک سال کے اندر حکومت نہ کرسکی ہواسے وقف بورڈکے حوالے کردیاجائے ۔کمیٹی کے مشاہدہ میں یہ بات بھی آئی ہے کہ بے شمار حکومتی ایجنسیاں وقف کی املاک پر قابض ہیں اوران پر بھی چندہی اسکوائرفٹ پرعمارتیں قائم ہیں باقی زمین خالی پڑی ہے۔(۶)جن املا ک پر حکومت کا قبضہ ہے اور وہاں کوئی سرکاری عمارت نہیںیا وہ اراضی خالی پڑی ہیں تو وہ بلاتاخیر مسلم تعلیمی اداروں صحت عامہ کے سینٹرکو دی جائے۔(۷)حکومت کے قبضہ والی جائیدادوں کو چھ مہینے میں خالی کیا جائے اور اس کا کرایہ جوپچاس سال سے چلا �آرہا ہے اسے تبدیل کیا جائے اور موجودہ مارکیٹ کے حساب سے اس کا کرایہ دیا جائے۔(۸)وقف بورڈ کے تمام فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوں،مسلم پرسنل اور اسلامی قوانین کے مطابق کیے جائیں۔اس کے لیے مسلم جماعتوں کی نمائندگی ضروری ہے۔(۹) اس بات کا پورا پورا خیال رکھا جائے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیڈرو رکن کو وقف بورڈکا چیئرمین نہ بنایاجائے۔(۱۰) کلکٹر او رکمشنر کوتعاون کے لیے ہدایت نامہ جاری کیاجائے۔(۱۱) وقف بورڈکی لیز صرف ۱۱مہینہ پر مشتمل ہو اور وقف بورڈ کی ایک نوٹس پر قبضہ خالی کرانے کے اختیارات وقف بورڈکو دیئے جائے ۔
جے پی سی کی شفارشات:سرکاری افسران ،سیاسی منتریوں کی مداخلت پر روک لگانے کے لیے لیزپردینے کے اختیارات اوقاف ہی کودیے جائے ۔ (۲) وقف سروے کمیشن کی تقرری کو لازمی قرار دیاجائے۔ (۳)وقف املاک کے سروے میں15اگست 1947کے تمام اوقاف کی اراضی کو شامل کیاجائے۔ (۴)سینٹرل وقف کونسل کا چیئرمین کسی منتری کونہیں بلکہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈجج یا یونیورسٹی کے وائس جانسلر کوبنایاجائے ۔(۵)سینٹرل وقف کونسل کے سکریٹری کوحکومت ہند کے جوائنٹ سیکریٹری کا درجہ دیاجائے تاکہ سرکاری افسران کی دخل اندازی روکی جاسکے۔ (۶)سروس کارڈبناتے وقت اعلی تعلیمی افرا د کوC.E.Oبنایاجائے جواوقاف ایکٹ 1954کے مطابق صرف مسلمان ہو۔(۷) اوقاف کی قیمتی ارضیات ،عمارتیں کسی انفرادی فردیا سرمایہ دار کو نہ دی جائیں بلکہ رجسٹرڈ ٹرسٹ یا رجسٹرڈ سوسائٹی کودیاجائے۔ (۸) کسی بھی صنعت کار یا شخص کو ذاتی استعمال کیلئے لیز پراوقافی اراضی یا زمین نہ دی جائے ،خواہ وہ اسپتال کے لئے ہو یا کمرشیل پروجیکٹ۔ (۹) وقف کے ناجائزقبضہ جات ہٹانے کیلئے C.E.Oکواختیارات اورناجائز قبضہ جات کے خلاف کاروائی نہ کرنے پر سی او پرجرمانہ عائد کیاجائے۔
وقف پراپرٹی میں کرپشن
ہم پورے ملک میں ہونے والے اوقاف کی جائیدادوں پرقبضہ کی بات فی الحال نہیں کرتے بس چند ریاستو ں کاذکرکرتے ہوئے اپنی بات کوآگے بڑھاتے ہیں۔اترپردیش میں وقف بورڈکی 3000ہزارزمینوں پرناجائزقبضہ جات ہیں جن کی موجودہ قیمت کروڑوں کھربوں میں ہے۔ صرف ملک کی راجدھانی دہلی کی ہم بات کرتے ہیں تویہ حیرت انگیزانکشاف سامنے آتا ہے کہ دہلی میں وقف جائیداد کی تعداد1977ہے جس میں600 پر سرکاری عمارتوں اور زمین مافیا نے قبضہ کررکھا ہے ۔ 138زمینوں پر ڈی ڈی اے نے اپنی عمارتیں تعمیرکر رکھی ہیں۔مرکزی محکمہ تعمیرات نے 108قیمتی زمینات پر عمارتیں تعمیر کررکھی ہیں۔ 53آثار قدیمہ کے قبضے میں ہے۔جبکہ دہلی کے انتہائی قلب20ایسی بڑی بڑی ایکروں میں زمینات ہیں جس پرکسٹوڈی نے 20عدد وائرلیس شعبہ نے 10۔ وزارت دفاع کے قبضہ میں05اور دہلی سرکار کے مختلف دفاتر جن میں دہلی نگر نگم،محکمہ بجلی،این ڈی ایم سی نے 18کے قریب ایسی قیمتی ارضیات پر قبضہ کررکھا جس کی موجودہ قیمت 07ہزار تا 10ہزار روپیے اسکوائر فٹ ہے۔123ایسی جگہہ ہیں جن پر ویشوہند پریشدنے تنازعہ کھڑاکررکھا ہے ۔200 جگہوں پر زمین مافیاؤں نے قبضہ کررکھا ہے جس پر �آج ملٹی نیشنل کمپنیوں کے عالیشان و ملٹی اسٹوریڈMulti Storyed عمارتیں تعمیر کی گئیں ہیں۔ شاپنگ مالس،کارپوریڈسیکٹرکے کئی کمپنیاں وقف کی ان جائیدادو ں پر قابض ہیں اور یہ لوگ وقف بورڈ کو معمولی کرایہ دیتے ہیں ،بلکہ بہت سارے تو کرایہ بھی ادا نہیں کرتے۔
موجودہ وقف ایکٹ :2010میں وقف ایکٹ کا ترمیم شدہ مسودہ لوک سبھا میں پیش ہوااور لوک سبھا نے ایک جھٹکے میں اس کو منظوری دے دی ۔سلمان خورشید بڑی چالاکی سے اس لنگڑے لولے بل کو پارلیمنٹ میں پاس کراناچاہتے تھے اور مسلمانوں کی ملی وسماجی تنظیموں کے اعتراضات کو پھرکبھی دیکھاجائے گا کہہ کرٹالنا چارہے تھے۔اس بل میں بہت سی ایسی دفعات تھیں جس سے وقف کا اصل مقصد فوت ہورہا تھا ۔اس پر مسلم پرسنل لابورڈاور دیگر کئی تنظیموں نے اپنا اعتراض و احتجاج درج کرایا ہے۔ اس میں ایک دفعہ وقف کی تعریف کی تھی جس کی رو سے’’ وقف کوئی مسلمان ہی کرسکتا ہے۔ ‘‘ بورڈکا کہنا تھا کہ ’’وقف کسی بھی مذہب کا ماننے والا کرسکتا ہے اور بھارت میں کئی اوقاف غیر مسلموں کے قائم کئے ہوئے ہیں۔مسجدوں کی تعمیرانہوں نے کرائی ہے،اس لئے وقف کی تعریف ایسی ہونی چاہئے جس کے نتیجہ میں سارے قائم کیے گئے وقف باقی رہیں ،چاہئے واقف غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔
وقف کا ترمیم شدہ مسودہ سلیکٹ کمیٹی کے پاس آیا جس کے چیئرمین سیف الدین سوز بنائے گئے ،ان کو چھ ہفتہ میں رپورٹ دیناتھی اس کام کو ایک سال لگ اس کے باوجود اس میں خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا اوریہ بات سامنے آئی کہ موجودہ لوک سبھا میںیہ مسودہ پیش نہیں ہوگا۔!بڑی بحث ومباحثہ کے بعد وقف کے قانون کا یہ ترمیم شدہ مسودہ بہت سی ترمیمات کے بعد 05ستمبر 2013کو لوک سبھا میں اس کو منظوری دے دی گئی۔
ہم آپ کے سامنے گزشتہ وقف قانون اور موجودہ وقف قانون 2013کا جائزہ و موازانہ پیش کرتے ہیں۔جس سے یہ بات سامنے آجائے گی کہ پچھلے وقف قانون کے مقابلہ میں تازہ قانون کی خاص باتیں کیا ہیں؟اور نئے قانون سازی نے کیا کچھ دینا چاہا ہے۔(۱) اس قانون میں وقف کی ایسی تعریف کی گئی ہے جس کے نتیجہ میں کسی بھی مذہب کے ماننے والے نے وقف کیا ہواور کبھی بھی کیا ہو وہ تسلیم شدہ اور قانونی طورپر وقف ہی ماناجائے گا۔ (۲) ناجائزقبضہ جات (انکروجمنٹ) کی جامع وضاحت کی گئی ہے۔اس قانون کو ’’خالی کروانے والے قانون ‘‘کے ساتھ ملاکر دیکھنا چاہیئے ۔(۳) اگر وقف کا سروے نہیں ہوا ہے تو ہر ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ اس قانون کے نفاذ کے بعدایک سال کی مدت میں سروے مکمل کرلے تاکہ ممکن حد تک کوئی وقف جائدادغیر رجسٹر نہ رہے۔(۴) ایک بہت اچھی دفعہ یہ بھی بنائی گئی کہ جو بہت زیادہ اختلافی دفعہ 86ختم کردی گئی جس کے نتیجہ میں غیر رجسٹرڈ وقف کی قانونی چارہ جوئی کا حق ختم ہورہا تھا۔ اور بہت سی اوقافی جائیداد کو خطرہ لاحق تھا۔(۵) دفعہ 108/A بڑھایا گیا جس کے نتیجہ میں کسی بھی قانون کا وقف کی جائیداد پر ا ثرنہیں ہوگا اور موقوفہ جائیداد اپنی جگہ قائم رہے گی۔ (۶) تازہ ایکٹ نے سینٹرل وقف کونسل کو مضبوط کیا ہے۔ اس کے اختیارات بڑھائے ہیں اور صوبائی وقف بورڈوں کو ایک حد تک سینٹرل وقف کونسل کے سامنے جوابدہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ !(۷) ریوینیوڈپارڈمنٹ کے افسروں کی ذمہ داری ہے کہ اوقاف کی فہرست کے پیش نظر زمین کے کاغذات (لینڈریکارڈ)کو فائنل کرلیں اور اسی لحاظ سے داخل خارج (موٹیشن ) کریں۔(۸) سیکشن 06سے ’’کوئی شخص جو اس وقف سے دلچسپی رکھتاہے ‘‘ کو ختم کردیا گیا اور اس کی جگہ ’’کوئی شخص متاثر ہوتا ہے‘‘ کردیاگیا ۔ وقف کی جائیداد میں اختلاف اورمقدمہ کی شکل میں اس کا بڑا فرق پڑجائے گا اور دورس اثرات ہوں گے۔(۹) سیکشن 32سے وقف بورڈکا یہ اختیار ختم کردیاگیا کہ وہ وقف کی غیر منقولہ جائیداد کو فروخت کرسکتا ہے ،تحفہ میں دے سکتا ہے ،رہن رکھ سکتا ہے یا تبادلہ کرسکتا ہے۔ (۱۰) سیکشن 51میں نئی دفعہ بڑھائی گئی ہے جس کے ذریعہ اصولی طورپر وقف جائیداد بیچنے ،تحفہ میں وقف جائیداد دینے ،تبادلہ کرنے ،رہن رکھنے کی گنجائش ختم کردی گئی ہے مگروقف کی ترقی کے لئے صوبائی وقف بورڈ کو مخصوص اور وسیع اختیارات دیئے گئے ہیں۔(۱۱) وقف کی جائیداد کو اب لیز پر دینے کی مدت اب تیس سال کردی گئی ہے تاکہ وقف کی جائیداد کو ترقی دی جاسکے ۔!(۱۲) وقف ٹربینول کو سہ نفر ی بنایا گیا ہے جس میں جج کے علاوہ ایڈمنسٹریشن کا نمائندہ اور ایک اسلامی اسکالر بھی ہوگااور ٹربیونل کے دائرہ کار کو بڑھایا گیا ہے۔(مولانا ولی رحمانی کے مضمون سے اقتباس )
وقف ایکٹ او روقف جائیداد کس صورت میں مؤثرو محفوظ رہ سکتی ہیں کچھ تجاویز
(۱)سینٹرل وقف کونسل میں تبدیلی ضروری ہے ،عام طور ان لوگوں کو رکن بنایا جاتارہا ہے جنہیں وقف کے موضوع سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور نہ ان پر وقف کی اہمیت اور نہ ہی اس کی شرعی حیثیت واضح ہوتی ہے۔ اس لیے اس میں ملک کے معروف مسلمانوں کی سماجی و ملی تنظیموں کے افراد کو نمائندگی دینا چاہیئے ۔ 
(۲)نچلی عدالتوں یا کسی اتھاریٹی میں وقف سے متعلق جتنے بھی معاملات زیر سماعت ہیں ،قانوناََ انہیں ٹریبیونل میں منتقل ہونا چاہیے۔ بشرطیکہ وہ عدالت یا اتھاریٹی میں سماعت کے بعد فصیلہ پر نہ ہوں۔(۳)وقف املا ک کے تحفظ سے متعلق جسٹس جی آربھٹاریہ کمیشن نے جو شفارشات پیش کی تھیں،ان میں سے چند اہم شفارشات یہ تھیں کہ وقف املاک کو کرایہ یا پٹے پر دیئے جانے سے
متعلق اصول و قواعدکو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جتنی جلد ممکن ہوسکے ملک گیر سطح پر وقف املاک کا ازسرنوسروے اور اندارج کیا جائے،وقف قانون کی غیر قانونی فروخت کے خلاف عدالت میں جانے کا اختیار وقف ٹرسٹیان کو حاصل ہو،ریاستوں میں ضلع سطح پر وقف بورڈتشکیل دیا جائے ،بورڈکی اجازت کے بغیر کسی بھی وقف املاک کی فروخت کو رجسٹرڈ نہ کیاجائے ملک میں اوقاف کی سب سے بری صورتحال مہاراشٹر اسٹیٹ کی ہے اگر یہ صحیح ہوجائے توپورے ملک کے اوقاف کا نظام صحیح ہوجائیگا۔ مہاراشٹرمیں وقف پراپرٹی د و محکموں میں بٹی ہوئی ہے،کچھ جائیدادیں تو وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہیں اور کچھ چیریٹی کمشنر کے پاس ہیں ۔اس کی وجہ یہ بات واضح نہیں ہوپارہی ہے کہ وقف بورڈ کے پاس کتنی جائیدادیں ۔سب سے زیادہ نقصان ان جائیدادوں کو پہنچا ہے جو چیریٹی کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہیں ،زمین مافیاؤں نے یہی سے زمینوں پرقبضہ کیا ہے۔ 
آخری بات : اگر واقعی حکومت وقف پراپرٹی کے بارے میں سنجیدہ ہے تو وہ ایمانداری کے ساتھ ان جائیدادوں کا جس پرحکومت کے ادارے قابض ہے یا جاری ہے ،ان کاموجودہ مارکیٹ ریٹ سے کرایہ اداکریں،شہروں میں واقع ان جائیداوں پرجوقلب شہرمیں ہے جس پرسرکاری ادارے چلتے ہیں،ان کے اطراف کی زمین پر شاپنگ کامپلیکس ،مالس تعمیر کریں او ر ان کا کرایہ مسلمانوں کے فلاح و بہبود پرخرچ کریں۔جس طرح ریلوے نے کئی شہروں میں اپنی جگہوں پرہوٹل اور شاپنگ کامپلیکش تعمیر کروائے ہیں۔مسلمانوں کو بھی چاہئیے کہ وہ مسجدوں ،درگاہوں،عاشور خانوں اور انعامات کی زمینوں پر مسلمانوں کے لیے تعلیمی ادارے قائم کریں اس کے لیے حکومت ان کو فنڈ مہیا کریں۔درگاہوں کی آمدنی مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے لیے خرچ کریں ،جیسا کہ کرناٹک وقف بورڈ ،گلبرگہ ،ہریانہ اور دیگر ریاستوں کے مسلمان کررہے ہیں۔

«
»

ہائے اللہ ! یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں ؟؟

شب قدر ۔ایک رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے