نئی دہلی (فکروخبر) – سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف (ترمیمی) بل 2025 کو چیلنج کرنے والی مختلف درخواستوں پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے اس کی نئی تاریخ 15 مئی مقرر کر دی ہے۔ یہ سماعت اُس وقت ہوگی جب جسٹس بی آر گوائی چیف جسٹس آف انڈیا (CJI) کا عہدہ سنبھالیں گے۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جو 13 مئی کو سبکدوش ہو رہے ہیں، نے کہا کہ وہ اس معاملے میں کوئی عبوری فیصلہ محفوظ نہیں رکھنا چاہتے۔ لہٰذا، انہوں نے تجویز دی کہ یہ معاملہ جسٹس بی آر گوائی کی سربراہی میں نئی بینچ کے سامنے پیش کیا جائے، جو 14 مئی کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔
آج کی سماعت کے دوران، چیف جسٹس کھنہ نے کہا کہ انہوں نے مرکزی حکومت کا جوابی حلف نامہ اور درخواست گزاروں کے جوابی دلائل کا مطالعہ کیا ہے، مگر تفصیلی طور پر نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ ریٹائرمنٹ سے پہلے اس نازک مسئلے پر کوئی عبوری حکم جاری کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔
درخواست گزاروں کی جانب سے سینئر وکیل کپل سبل اور اے ایم سنگھوی پیش ہوئے، جبکہ مرکزی حکومت کی نمائندگی سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کی۔ تمام فریقین نے چیف جسٹس کی تجویز سے اتفاق کیا کہ معاملہ نئی بینچ کے سامنے پیش کیا جائے۔
درخواست گزاروں نے متعدد دفعات پر اعتراضات اٹھائے ہیں، جن میں شامل ہیں:
‘وقف بائی یوزر’ کی شق کا خاتمہ، جس کے تحت صدیوں پرانی مساجد اور درگاہوں کی قانونی حیثیت متاثر ہو سکتی ہے۔
مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت۔
وقف املاک کی رجسٹریشن کے لیے پانچ سالہ عملی مسلمان ہونے کی شرط۔
‘وقف علٰی الاولاد’ کے تصور کو کمزور کرنا۔
آثار قدیمہ سے محفوظ شدہ مقامات پر وقف کے قیام پر پابندی۔
عدالت نے ان اعتراضات پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور 17 اپریل کو تجویز دی تھی کہ کوئی بھی وقف املاک، چاہے وہ ‘وقف بائی یوزر’ ہوں یا دیگر، کو اس وقت تک غیر موثر نہ کیا جائے جب تک عدالت اس معاملے پر فیصلہ نہ دے۔
خیال رہے کہ موجودہ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں اس حساس معاملے پر گزشتہ سماعت میں عدالت نے حکومت سے کئی اہم سوالات کیے تھے، جس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ عدالت کسی عبوری فیصلے پر پہنچ سکتی ہے، مگر اب معاملہ نئی سربراہی کے تحت سنا جائے گا۔
وقف (ترمیمی) بل 2025 کو لے کر مسلم تنظیمیں اور کئی سیکولر جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ ترامیم وقف قانون کو کمزور کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش ہے، جس کا بنیادی مقصد ملک بھر میں موجود وقف جائیدادوں کو سرکاری کنٹرول میں لے کر انہیں ہتھیانا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند، اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے اور دستخطی مہمات جاری ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوراً اس قانون کو واپس لے اور وقف جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
یہ بل پہلے لوک سبھا میں پیش کیا گیا جہاں 13 گھنٹے طویل بحث کے بعد 288 ووٹوں سے منظور کیا گیا، جبکہ 232 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ اس کے بعد بل راجیہ سبھا میں بھی زیر بحث آیا، جہاں 128 کے مقابلے میں 95 ووٹوں سے اسے منظوری ملی۔ اگرچہ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ترامیم وقف بورڈز میں شفافیت، جوابدہی اور انتظامی بہتری لانے کے لیے ضروری ہیں، مگر ناقدین اسے اقلیتی حقوق پر حملہ تصور کر رہے ہیں۔
اب تمام نگاہیں 15 مئی کو ہونے والی آئندہ سماعت پر مرکوز ہیں۔ یہ سماعت ایک نئے چیف جسٹس کی قیادت میں ہوگی۔