وحشت کا تیسرا مہینہ

   مسعود ابدالی

بمباری کے ساتھ اہل غزہ کو بیماریوں نے بھی آگھیرا ہے۔ عالمی ادارہ صحت WHO کے مطابق غزہ میں آبنوشی کے وسائل تباہ ہو جانے کی وجہ سے وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ نو دسمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اسہال، خارش، سانس کی تکلیف اور ہیضے سمیت 15 مہلک وبائی امراض میں مبتلا تین لاکھ سے زیادہ مریض سامنے آئے ہیں۔
سات دسمبر کو غروب آفتاب سے دوسرے دن سورج ڈوبنے تک جنوبی غزہ پر اسرائیلی بمباروں نے 450 حملے کیے۔ غزہ کی پوری پٹی صرف 21 کلومیٹر لمبی ہے یعنی آتش و آہن کی اس موسلا دھار بارش کا ہدف 80 کلومیٹر کا رقبہ تھا۔ اوسطاً ہر ایک مربع کلومیٹر پر کم ازکم پانچ بم کرائے گئے۔ سوختہ جانوں کی مزاج پرسی کے لیے امریکی ساختہ بنکر شکن بم استعمال ہوئے۔ ہر بم میں دو ہزار پاونڈ بارود اور آتشگیر مواد بھرا تھا اس طرح 24 گھنٹوں کے دوران اس 10 کلومیٹر لمبے اور آٹھ کلومیٹر چوڑےرقبے پر 9 لاکھ پاونڈ بارود برسایا گیا۔ ستم ظریفی کہ چند ہی دن پہلے دبئی کی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں دنیا بھر کے زعما نے ماحولیاتی کثافت پر فکر انگیز بھاشن دیے تھے۔ بمباری کے دورانیے یعنی جمعرات کی شب سے جمعہ کی شام کا انتخاب ’شرعی ضرورت‘ کے تحت کیا گیا کہ جمعہ کو غروب آفتاب سے ’سبت‘ کا آغاز ہو جاتا ہے اور اس دوران خون خرابے کو کچھ ’متقی‘ مناسب نہیں سمجھتے۔ اس لیے سنیچر کے لیے مختص بم بھی جمعہ کی شام تک گرا لیے گئے کہ ’خلافِ شرع شیخ صاحب تھوکتے بھی نہیں‘
اس وحشت کے ساٹھ دن مکمل ہونے پر غزہ کی وزارت صحت نے جو اعداد وشمار جاری کیے ہیں ان کے مطابق دو ماہ کے دوران آٹھ ہزار 640 سے زیادہ بچے مارے گئے، یعنی اوسطا 6 بچے فی گھنٹہ۔ علمائے تاریخ زیادہ بہتر بتا سکیں گے لیکن ہمارے خیال میں اس رفتار سے تو فرعون نے بھی بچوں کو ذبح نہیں کیا ہوگا۔ اور اب بمباری کے ساتھ بے در وبے گھر اہل غزہ کو بیماریوں نے آگھیرا ہے۔ عالمی ادارہ صحت WHO کے مطابق غزہ میں آبنوشی کے وسائل تباہ ہوجانے کی وجہ سے وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ نو دسمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اسہال، خارش، سانس کی تکلیف اور ہیضے سمیت 15 مہلک وبائی امراض میں مبتلا تین لاکھ سے زیادہ مریض سامنے آئے ہیں۔ غزہ دنیا کا گنجان ترین علاقہ ہے اور ستر فیصد مکانات تباہ ہوجانے کی وجہ سے 24 لاکھ نفوس تنگ و تاریک کوٹھریوں اور خیموں میں ٹھنسے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وبائی امراض کی افزائش منٹ بلکہ سیکنڈوں کے حساب سے ہو رہی ہے۔
اسرائیلی بمبار تاک تاک کر رہائشی عمارات، مدارس و جامعات، بیمارستان و شفاخانے اور مساجد و کلیسا کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے قدیم ترین مسجد عثمان بن کاشغر شہید کر دی گئی۔ خان یونس کے قریب الزیتون محلے کی یہ مسجد 620 ہجری یا 1220 عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔ مسجد عثمان محض ایک عبادت گاہ نہ تھی بلکہ اقوام متحدہ نے اسے ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ اسی کے ساتھ ڈاکٹر، مہندسین، دانشور و معلمین بھی اسرائیلیوں کا ہدف ہیں۔ دو ہفتہ پہلے ہم نے الشفا میں تعینات امریکی تعلیم یافتہ ماہر امراض گردہ (Nephrologist)حمام اللہ کا ذکر کیا تھا جنہیں ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ اس ہفتے ایک باکمال قلمکار، ادیب، شاعر ، دانشور اور مشفق استاد ڈاکٹر رفعت الاریر اپنے اہل خانہ کے ساتھ پیوندِ ارضِ فلسطین ہوگئے، 44 سالہ رفعت کا تعلق غزہ کے مضافاتی علاقے الشجاعیہ سے تھا۔ انہوں نے غزہ کی جامعہ اسلامیہ سے انگریزی میں بی اے، یونیورسٹی کالج آف لندن سے ایم اے اور جامعہ ملائیشیا (UPM) سے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کیا تھا۔ موصوف جامعہ اسلامیہ غزہ میں انگریزی اورCreative Writings کے پروفیسر، انگریزی و عربی میں کئی کتب کے مصنف، صاحب دیوان شاعر اور نیویارک یارک ٹائمز کے کالم نگار تھے۔ دو سال پہلے اسرائیلی بمباری سے ان کے 30 رشتے دار مارے گئے اور اب گھر پر فضائی حملے میں ڈاکٹر صاحب اپنی بیوی اور بچوں سمیت اللہ کو پیارے ہوگئے۔ کینیڈین پارلیمنٹ کے رکن اور نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ ڈان ڈویس Don Davies نے اسے ثقافتی نسل کشی قرار دیتے ہوئے ٹویٹر پر لکھا ’’اسرائیل اب غزہ کے ممتاز ماہرینِ تعلیم، مصنفین، مورخین، شاعروں، فنکاروں، صحافیوں، اساتذہ کو نشانہ بنانے اور ہلاک کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے۔ یہ ثقافتی نسل کشی ہے‘‘۔
اتوار 10؍ دسمبر تک غزہ میں مارے جانے والے نہتے شہریوں کی تعداد 17700تھی، جن میں عورتوں اور بچوں کا تناسب 72 فیصد سے زیادہ ہے۔ قتلِ عام کی مہم میں عملی تعاون کے لیے صدر بائیڈن نے اسرائیل کو ٹینکوں کے 45000 گولے ہنگامی بنیادوں پر فراہم کرنے ایک تجویز پر کانگریس سے گفتگو شروع کر دی ہے۔ اس سودے کی مجموعی مالیت 50 کروڑ ڈالر ہے۔ امریکی صدر 14 ارب 30 کروڑ ڈالر کا پیکیج کانگریس کو پہلے ہی بھیج چکے ہیں۔
قہر و جبر، قتلِ عام اور مفاد عامہ کے ڈھانچے کی مکمل بربادی کے ساتھ فوج کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے غزہ کے پناہ گزین خیموں سے نہتے بچوں کو پکڑ کر انہیں ہتھیار ڈالنے والے حماس کے سپاہی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جلدی میں جعلی وردی بنوانا ممکن نہیں تو معصوم بچوں کی شرمناک برہنہ پریڈ آج کل اسرائیلی میڈیا کی زینت ہے۔ ان ہتھکنڈوں کے باوجود عسکری محاذ پر اسرائیل کو شدید مزاحمت بلکہ ہزیمت کا سامنا ہے۔ نفسیاتی دباو بڑھانے کے لیے اب زیر زمین سرنگوں کو بحر روم کے پانی سے بھرنے کی خبریں دی جارہی ہیں۔ گزشتہ دنوں وال اسٹریٹ جرنل نے خبر شائع کی کہ اسرائیل نے پانچ بڑے پمپ نصب کردیے ہیں جن سے پانی ان سرنگوں میں بھرا جائے گا۔ لیکن اس خبر پر حماس کا رد عمل آنے سے پہلے اسرائیلی جنگی قیدیوں کے لواحقین چیخ پڑے کہ اس کارروائی سے اور کچھ ہو نہ ہو زیر زمین پناہ گاہوں میں رکھے گئے قیدی زندہ درگور ہو جائیں گے۔ جب اس موضوع پر بحث شروع ہوئی تو یہ پہلو سامنے آیا کہ زمینی کارروائی کے 43 دن گزر جانے کے باوجود اب تک کسی ایک بھی سرنگ کا سراغ نہ لگایا جاسکا۔ حماس نے دام ہمرنگِ زمین کی شکل میں جعلی سرنگیں کھود کر ‘آگ کے جو گڑھے’ بنائے ہیں اس کی لپیٹ میں آکر کئی اسرائیلی فوجی راکھ بن گئے۔
جمعہ 8 دسمبر کو حماس کے ایک اڈے پر قید اسرائیلی سپاہی سعر بروش (Saar Baruch) کو رہا کرانے کے لیے اسرائیلی چھاپہ ماروں کا ایک دستہ پہنچا لیکن فلسطینی ہوشیار تھے۔ مقابلے میں اسرائیلی کے دو چھاپہ مار شدید زخمی ہوئے، اسرائیلیوں کی جوابی فائرنگ سے سعر بروش مارا گیا جس کی عمر 24 سال تھی۔
ابلاغِ عامہ پر مکمل گرفت کی وجہ سے ‘سب اچھا’ اور کامیاب پیش قدمی کی خبریں شائع ہورہی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے دور میں سینسر اب اتنا موثر نہیں رہا اور پھر محاذ سے آنے والے تابوت اور زخمیوں کو کیسے چھپایا جائے۔ جانی نقصان کم دکھانے کے لیے ہلاک ہونے والے سپاہیوں کو زخمی کہا جا رہا ہے جو سفید جھوٹ بھی نہیں کہ میدان جنگ میں مارے جانے والے زیادہ تر سپاہی مجروح ہوتے ہیں اور پھر زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
عبرانی روزنامہ یدیوت ہرنات (YediothA Ahronth) کے مطابق غزہ میں پانچ ہزار اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے جس میں سے 2000 معذور ہوچکے ہیں۔ معذور ہونے والوں میں 19 سے 24 سال کی خواتین کی اکثریت ہے۔ افغانستان میں بھی حملہ اور فوج کی ہلاکتیں بہت زیادہ نہیں تھیں لیکن بیس ہزار کے قریب جوان معذور ہوگئے۔ سابق فوجیوں (Veteran) کے اجتماعات میں وہیل چیر اور بیساکھیوں پر گھسٹتے ان جوانان رعنا کو دیکھ کر عبرت آتی ہے
احمد شاہ ابدالی کی والدہ زرغون جان نے جنگ پر جاتے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ دشمن کا ہلاک لشکری قوم کا ہیرو بن کر دشمن کے لیے حوصلے کا سبب ٹہرے گا جبکہ معذور سپاہی دوسروں پر بوجھ اور قوم کے لیے نشان عبرت بن جاتا ہے۔ لہٰذا دشمن کے سینہ و سر کو نشانہ بنانے کے بجائے اس کی آنکھوں، پیروں اور کمر پر ضرب لگاؤ ۔
سات اکتوبر کو حماس حملے پر اسرائیلی فوج کو جو شرمندگی ہوئی تھی اس کی جھینپ مٹانے کے لیے فوج غزہ پر مکمل قبضہ کے لیے ضد کی حد تک پر عزم ہے۔ اس مہم پر بہترین سپاہی بھیجے گئے ہیں۔ سیاست دانوں اور جنرلوں نے اپنے لخت جگر محاذ کی طرف روانہ کیے تاکہ ان کی فاتحانہ واپسی خاندان کے لیے فخر اور سیاسی سرمایہ بن سکے لیکن یہ نو خیز بچے تابوتوں اور بیساکھیوں پر واپس آ رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ اور ہنگامی کابینہ کے رکن جنرل غادی ایلیسنکوٹ Gadi Elisenkot کا 25 سالہ جواں سال بیٹا سارجنٹ مائر ایلسنکوٹ حماس کے کھودے گئے آگ کے ایک گڑھے میں گر کر جل مرا اور اس کی تدفین کے دوسرے دن جنرل صاحب کا بھیتیجا غزہ میں مارا گیا۔ اس سے پہلے وزیر اعظم نتن یاہو کے بھتیجے کے زخمی ہونے کی اطلاع آئی تھی۔ ان خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ‘اس جنگ میں ہم نے اپنے بہت سے بہت ہی قیمتی بچے کھو دیے’
غزہ میں اسرائیلی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا نقصان بھی خاصا ہے۔ تل ابیب کو اپنے مرکاوا Merkava ٹینک پر فخرہے جو مضبوطی اور ہلاکت خیزی کے اعتبار سے امریکہ کے ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے ابراہام ٹینک سے دو ہاتھ آگے ہے۔ غزہ کوچ کرنے سے پہلے Slat Armor کے نام سے اس کے گرد بکتر بند کا ایک اور حصار قائم کرکے اسے ٹینک شکن میزائیل سے محفوظ کر دیا گیا ہے، لیکن گزشتہ دو ہفتوں کے دوران مقامی طور پر تیار کردہ الغول مشین گن نے درجنوں مرکاوا ٹینکوں کا شکار کیا۔ حماس ذرائع یہ تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں۔ جنگ کے دوران اپنی کامرانیوں پر مبالغے کے ردے چڑھانا عام ہے کہ بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے، چنانچہ حماس کے دعووں پر تحفظات غیر منطقی نہیں لیکن اسرائیلی وزارت دفاعی پیدوار کے ذرائع بتا رہے ہیں کہ غزہ سے آنے والے فرمائشوں کے باعث ان ٹینکوں کے تینوں بڑے خریدار فلپائن، چیک ریپبلک اور کولمبیا کو مائیکاوا کی فراہمی عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہے۔
اسی کے ساتھ مستکبرین کی سپاہ میں Gastrointestinal diseases کے پھیلاو کی خبر ہے۔ اشدود ہسپتال میں وبائی امراض مرکز کے سربراہ ڈاکٹر طل بروشTal Brosh کا خیال ہے کہ بیماری کا سبب Shigella نامی جرثومہ ہے جو اِن جوانوں کے باسی کھانوں میں پیدا ہوگئے ہیں۔ (حوالہ روزنامہ یدیوت ہرنات ) سیانے پیٹ کی خرابی کو خوف کا شاخسانہ کہہ رہے ہیں۔ اس بیماری کے بعد عمدہ معیار کے ڈائپرز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل کے دفاعی ماہرین بھی غزہ میں اپنی فوج کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ فوج کے سابق نائب سربراہ جنرل یائیر گولانYair Golan نے اسرائیلی جریدے الارض (Haaretz) سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج حماس کو شکست نہیں دے سکتی اور نہ عسکری کارروائی سے کوئی ڈرامائی تبدیلی ممکن ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم (بات چیت کے ذریعے) اپنے قیدی چھڑالیں اور پٹی پر امدادی سرگرمیاں بحال کر دیں۔ زمینی صورتحال اسرائیل کے حق میں نہیں ہے۔
آخر میں ایک 80برس کی جواں حوصلہ خاتون کا ذکر جو فلسطینی میڈیا کی زینت ہیں۔ محترمہ ہادیہ نصار نامی ان خاتون نے بہت مشکلات جھیلیں، جبری بے دخلی المعروف نکبہ کے دوران ہادیہ صاحبہ گھر سے نکالی گئیں اور غزہ آکر بس گئیں۔ یہاں یہ شفیق خاتون سب کی ماں جی تھیں۔ کہیں کوئی مشکل ماں جی حاضر۔ بچے کی ولادت تو ماں جی خدمت کو موجود، کہیں فوتگی ہوگئی تو دلاسے کو سب سے پہلے ماں جی۔ بہت ہی زندہ دل، ہسنے مسکرانے اور پریشان دلوں کو سکون پہنچانے میں ماں جی کی زندگی گزر گئی۔ بمباری کی حالیہ مہم کے دوران ماں جی کبھی ایک بستی جاتیں کبھی دوسرے محلے۔ سب یتیم بچوں کی دادی، زخمیوں کی تیمار دار۔ بن ماں بچوں کو آزادی کے ترانے کی شکل میں لوری سنانا، جوان لڑکوں کی ہمت بندھانا اور اللہ معنا (اللہ ہمارے ساتھ ہے) کہہ کر امید کے چراغ روشن کرنا ماں جی کا کام تھا۔ کیا بچی بالیاں اور کیا نوجوان سب ہی کے لیے ماں جی امید کی کرن تھیں۔ جب کوئی اسرائیل کی طاقت سے ڈراتا تو بہت فخر سے کہتیں انا اکبر من اسرائیل (میں اسرائیل سے بڑی ہوں)۔
8 دسمبر کو ماں جی ایک نشانچی ڈرون کا شکار ہوگئیں۔ ماتھے پر لگنے والی گولی شفیق ماں کے کاسہِ سر کو پاش پاش کرگئی۔ اللہ اپنی اس بندی پر رحم فرمائے جو پوری پٹی کے لیے مادرانہ شفقت کا استعارہ تھی۔ شاید جنت جانے والے 7000 بچوں کو دادی اماں کی لوری کے بغیر نیند نہ آتی ہو تو اللہ نے انہیں اپنے پھولوں کے پاس بھیج دیا اور ملاقات بھی ایسی کہ اب تو اللہ کی جنتوں میں ہمیشہ کا ساتھ ہے انشاءاللہ ۔ بے شک یہی اصل کامیابی ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)

بشکریہ : ہفت روزہ دعوت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے