’’سرپرائز ہے‘‘ ’’کیسا سرپرائز؟‘‘ ’’قبل ازوقت پتہ چل جانے پر ا س کو سرپرائز تھوڑی کہیں گے؟‘‘اہلیہ نے سوال کیا
’’سو تو ہے۔لیکن وہ ہمیں بلالیتے ، ہم ہوآتے‘‘میں نے کہا
’’کہہ تو وہ بھی ایسا ہی رہے تھے لیکن میں نے منع کردیا کہ چھٹیاں نہیں ہیں ، اس لئے وہ یہیں آکرسب کریں گے ‘‘اہلیہ نے جواب دیا
’’یہیں آکر سب کیاکریں گے؟‘‘میں نے سوال داغا
’’کچھ لوگوں کو کھانا بھی کھلانا ہے ‘‘ ’’آخرکیوں ؟‘‘ ’’سرپرائز ہے‘‘
’’آخر ایسا کیا ہوگیا ہے ؟‘‘ میں نے اپنے دماغ کے ڈھکن پر بہت زور ڈال کر سوچتے ہوئے پوچھا
’’مجھے بھی کچھ زیادہ معلوم نہیں ہے۔ لیکن بتارہے تھے کہ لاکھوں کافائدہ ہواہے ‘‘اہلیہ نے خوشی سے بتایا
’’کیا کسی کمپنی کے شےئر لئے تھے یا کوئی لاٹری لگ گئی ہے؟‘‘
’’یہی تو سرپرائز ہے‘‘ ’’غضب کا سرپرائز ہے‘‘
ہم سوچ میں پڑگئے آخر لاکھوں کافائدہ کیسے ہوگیا؟ہمیں بھی وہ بتادیتے تو بہتی گنگا سے ہم بھی دوچارلاکھ نکال لیتے ۔ لیکن داماد کو کیوں فائدہ دیں گے؟ہمیں پریشان ، اور فکر مند دیکھ کر اہلیہ شاید خوش ہورہی تھیں ۔انسان اپنے دکھوں سے اتنادکھی نہیں ہوتاہے ، جتنا دوسروں کے سکھوں سے دکھی ہوتاہے۔ سچ ہی تھا۔ مجھے ساس سسر کوملی خوشی سے حسد ہورہاتھا ۔ آخر وہ ایک بار تو کہہ دیتے ، ہم بھی سٹہ لگاہی دیتے ۔
اگلی صبح وہ ٹیکسی سے آٹپکے۔ ہمیشہ آٹو رکشا سے آنے والے ٹیکسی سے آئے۔ ایسا ان کا آنا بتارہاتھاکہ منافع زیادہ ہواہے۔ ہم نے خوش آمدید کہا ۔اہلیہ خوشی کے مارے آرتی کے لئے چراغ اور تھالی لے آئیں۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے دہی ۔شکر کھلایاگیا۔ ایک پیٹی ساتھ میں تھی ، جوکافی بھاری تھی ۔ ہماری نظر اس کے کھلنے پر تھی کہ وہ کب کھلے گی ؟خیر تھوڑی آؤبھگت کے بعد ساسوجی نے ہمیں حکم دیا کہ ’’سو۔پچاس لوگوں کوکھاناکھلاناہے، تم کالونی کے لوگوں کو بلالو‘‘ میں کچھ پوچھتا اس سے پہلے ہی سسر جی نے کہا’’پوجا کاانتظام بھی کروالو‘‘
’’ٹھیک ہے ‘‘ میں نے کہا۔ ہماری ہمت نہیں پڑی کہ لاٹری کے موضوع پر سوال کرتے۔ آخرکار ان کے حکم کو بجالانے لگا۔ یہ سوچ کر کہ کچھ لاکھوں کامالک میں بھی بن جاؤں گا لیکن آج ہی یہ سب راز جان لینے کا مجھے کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔ اس لئے ان کی جتنی خدمت کرسکتاتھا اس خدمت کو بجالانے کی دل میں ٹھان لیا۔
اگلے ایک دودنوں میں پڑوسیوں کو ’’بھوجن ‘‘کی دعوت دے آیا۔آخر سبب اس کا کیاہے؟میں بتلانہیں پایا تھا۔ کہتابھی کیا۔ وہ پرمسرت گھڑی بھی آگئی۔ جب پوجا بھی ہوگئی۔ کالونی کے لوگوں کو بھوجن کے لئے بلالیا۔ سب نے بھرپیٹ کھایا۔ سب کو ایک ایک شرٹ پیس بھی انھوں نے بھوجن کے بعد دیا۔ ہمارے ساس ۔ سسر سچ جانئے زندگی میں کبھی اتنے خوش دکھائی نہیں دئے، جتنا وہ اس دن نظر آئے۔ حالانکہ ان کی بیٹی نے دو۔ تین بار ٹٹولنے کی کوشش بھی کی تھی کہ آخر معاملہ کیاہے؟لیکن وہ پوری طرح سے ناکام رہی تھی۔ ہم دونوں کو انھوں نے تحفے بھی دئے۔ اہلیہ کوساڑی اور مجھے سوٹ کا کپڑا۔ ہم تو نہال ہوگئے۔
لیکن ہمارے پیٹ میں درد تھاکہ آخر وہ رازکیسے اگلوایاجائے کہ لاکھوں کے وارے نیارے کیسے ہوگئے ؟ہمیں بھی کچھ ٹپ دے جاتے لیکن انھوں نے کچھ بھی بتایانہیں ۔ آخر ان کے واپس جانے کاوقت آگیا۔ میری اہلیہ اپنی ماں سے لپٹ کر ایسے رورہی تھی ، مانو اسے کسی قصائی کے یہاں چھوڑ کر جارہی ہوں۔ رونے کی خواہش تو ہماری بھی تھی لیکن اس کاسبب تھاکہ یہ بات پتہ نہیں کرپائے تھے کہ انھیں لاکھوں کا فائدہ ہواتو کیسے ہوا؟جب ان کی ٹیکسی آگئی تو ہم سے رہا نہیں گیا۔ ہم نے دل مضبوط کرکے ساسوجی سے آخر پوچھ ہی لیا۔ ’’ساسو جی یہ کپڑے ، دان ، بھوجن ، آخر اس کا کیا راز ہے ؟‘‘
’’داماد جی ہمیں تھوڑا سا منافع ہوگیاتھا ‘‘ساسوجی نے خوشی خوشی بتایا۔
’’کیسامنافع؟‘‘ اہلیہ نے رونا بندکرکے درمیان میں پوچھ لیا۔
ساسوجی کی جگہ پر سسرجی نے مورچہ سنبھالا اور کہا’’داماد جی بات کچھ ایسی تھی کہ ایک سال پہلے جب چاروں طرف سے یہ نعرہ اُچھلا تھاکہ اچھے دن آرہے ہیں ، اچھے دن آرہے ہیں ،تب تمہاری ساس مانی نہیں ۔ہم نے وظیفہ کی رقم اور کچھ جمع پونجی سے جائیداد خریدنے کامن بنایا۔ جب ان سے لسٹ پوچھی تو انھوں نے کار، بنگلہ ، فرج، ٹی وی ، نہ جانے کس کس سامان کی فہرست تھمادی ۔ ہمارے پاس رقم زیادہ نہیں تھی ۔ بس ہم نے 20-40ہزار روپئے لے کر سب کی بکنگ کروائی تاکہ سامان اچھے دنوں میں لے سکیں ۔ ‘‘سسر جی بتائے جارہے تھے۔
’’اوہ۔۔۔ تو ان اچھے دنوں کافائدہ ملا؟‘‘ہم نے بیچ میں بات کاٹ کر کہا۔ ہمار ی بات کونکارتے ہوئے کہا’’ہم نے پچاس ہزار خرچ کرکے سب کچھ بکنگ اچھے دنوں کے لئے کروالی تاکہ آرام سے زندگی جی سکیں گے ….لیکن …!‘‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘ ہم نے سوال کیا۔
’’کیا بتاؤں داماد جی ، سب کے پیپر جن پر شرط لکھی تھی اس میں یہ باریک حرفوں میں لکھاتھاکہ وقت کے مطابق شرطیں بدل بھی سکتی ہیں ۔ اس میں یہ بھی لکھاتھا کہ جب جو بازار کی قیمت ہوگی وہی دینی ہوگی ۔ ہم یہ شرط موتیا بند کی وجہ سے پڑھ نہیں پائے۔ جب ایک سال بعد اپنا سامان اور گھر لینے پہنچے تو ان کی قیمتیں تو لاکھوں میں چلی گئی تھیں ۔ ہمارے پاس روپیہ تھا نہیں سو ہم نے نہیں لیا۔ تمام اشیاء کے دام اتنے بڑھ گئے کہ ہم اگر سب خریدتے تو لاکھوں کی رقم جیب سے چلی جاتی ۔ اور لینے کے بعد اس کا مینٹنسس ہزاروں میں ہوتا۔ سو ہم نے اچھے دنوں کاشکریہ اداکیا اور ایک بھی سامان نہیں لیا۔ دیکھو ناہم بڑھتی مہنگائی سے بچ گئے ۔ ورنہ بنگلہ لے کر ٹیکس ، سیکوریٹی ، بجلی ، پانی سب کا بل بھر بھر کر ہی دم توڑ دیتے ۔ کتنے اچھے دن آئے ہیں داماد جی کہ سب کی قیمت بڑھ گئی سب کی ۔ صرف دوچیزوں کی قیمت گری ہے۔ سسر جی کی آواز میں غم پنہاں تھا۔ ہم نے سوال کیا’’کس چیز کی قیمت گری ہے ؟‘‘
’’ایک توانسان کی قیمت کم ہوئی ہے اور دوسرے دیش کی مدرا کا اومولین ہواہے۔ ورنہ ملک میں سب کے دام بڑھ گئے ہیں۔ ‘‘ان کی آواز، اور ان کے دل کے دکھ کو میں سمجھنے کا تجربہ کررہاتھا۔
’’داماد دجی ہم نے وہ سودے چھوڑدئے اور ااس طرح لاکھوں کے گھاٹے سے بچ گئے ۔ اسی کی خوشی کو منانے کے لئے ہم آئے تھے‘‘ ہماری ساسوجی نے خوشی کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
میں سوچ رہاتھا ۔، ایسی مہان سوچ ہمارے دیش واسیوں کی ہی ہوسکتی ہے۔ جو اچھے دن کو اس انداز میں لے کر بھی خوش ہیں ۔ واہ رے اچھے دن‘‘
جواب دیں