تحریر: سید ہاشم نظام ندوی مادرِ علمی جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے ہونہار طالبِ علموں، اس کے شیدائیوں بلکہ فدائیوں میں سے ایک جناب مرحوم امجدحسین صاحب خطیب بھی تھے، جن کے سانحۂ ارتحال کی خبرہمیں مورخہ پندرہ شوال المکرم سن ۱۴۴۱ ہجری،مطابق ۷ جون ۲۰۲۰ عیسوی بروز پیر کا آغاز ہوتے ہی موصول ہوئی،جنہوں نے اپنی حیاتِ […]
مادرِ علمی جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے ہونہار طالبِ علموں، اس کے شیدائیوں بلکہ فدائیوں میں سے ایک جناب مرحوم امجدحسین صاحب خطیب بھی تھے، جن کے سانحۂ ارتحال کی خبرہمیں مورخہ پندرہ شوال المکرم سن ۱۴۴۱ ہجری،مطابق ۷ جون ۲۰۲۰ عیسوی بروز پیر کا آغاز ہوتے ہی موصول ہوئی،جنہوں نے اپنی حیاتِ مستعار کےتقریبا تیرپن سال گزار کر جوانی کے ڈھلتے ڈھلتے اس جہانِ فانی سے چل بسے ۔إنا لله وإنا إليه راجعون ۔
آزمائش ہے نشانِ بندگانِ محترم:
آپ بیمار ہوئے اور مدتوں بیماری کی شدت جھیلی، ڈیابیطس ( شُوگر )کے مرض سے دوسرے امراض جنم پاتے گئے،علاج میں کوئی کسرنہیں چھوڑی، بلکہ جانچ کے مختلف طریقوں اور الگ الگ ہسپتالوں کی گردش کے بعد وہی ہوا جو عموما ہوتا آ رہا ہے یعنی " مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی"۔ایک حد تک آنکھوں سے معذور تو سالوں سے ہو گئے تھے،بینائی اس حد تک چلی گئی تھی کہ بڑی مشقت سے دیکھ پاتے یا تیمار دار کو پہچان پاتے، ہم دوستوں کو بھی بڑی مشکل سے دیکھتے ، البتہ آواز سے جب سمجھ جاتے تو پھر اسی انداز گفتگو میں محو ہوجاتے جو ان کا طرۂ امتیاز تھا،اہل وعیال، خویش وقارب اور دوست احباب کی خیریت دریافت کرتے، ہنستے ہنساتے، حسنِ اخلاق کا ثبوت دیتے اور کچھ پرانی یادوں میں کھو جاتے۔گو اس مصرعہ کے مصداق " بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے" ۔
زندگی کے آخری ایام بڑے کھٹن گزرے، ابتلا و آزمائش سے دو چار ہوئے،تقریبا دو سال قبل اپنی جوان بڑی بیٹی کے سانحۂ ارتحال کا زخم بھی سہہ گئے ، قضا و قدر پر راضی برضا رہے، آپ کو اپنی بیماری اور مسائل کے ایام گزارتے وقت یہ جملہ اپنے دوستوں کے پاس کہتے ہوئے سنا گیا کہ " اگر آج میرے مشفق مربی مولانا عبد الباری صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہوتے، تو میں ان سے مسائل بتاتا، وہ مجھ کو تسلی دیتے، میرا غم ہلکا کرتے، جس سے مجھے سکون ملتا۔ "، چونکہ آپ کے دینی ذہن بنانے اور اسلامی تربیت سے آراستہ کرانے میں مولانا مرحوم ہی پیش پیش تھے، لہذا ان کا احسان ہمیشہ یاد رکھا ۔ اللهم اغفرلهما وارحمهما۔
آزمائش ہے نشانِ بندگانِ محترم
جانچ ہوتی ہے انہی کی جن پہ ہوتا ہے کرم
خصوصیات اور ذاتی صفات:۔
آپ ہمارے عربی درجات کے رفقائے درس میں پہلے شخص ہیں جو اپنے رفیقِ اعلی سے جاملے، ہم سب اللہ تعالی کے حضور ان کی مغفرت اور رفعِ درجات کے لئے دعا کرتے ہیں، مرحوم کی کمی کا احساس ان کے ساتھیوں، شاگردوں اور چاہنے والوں میں ہمیشہ رہے گا، وہ ہمیں یاد آتے رہیں گے۔ چوں کہ آپ ایک بہترین شخصیت کے مالک تھے، خوش شکل اور خوش لباس تھے، چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی، انتہائی ملنسار، متواضع و خوش مزاج تھے، منفی سوچ سے بہت دور تھے، سب کا بھلا چاہتے اور ہمیشہ مثبت سوچ رکھتے تھے، مزاج ظریفانہ تھا اور شائستگی و خوش اخلاقی ان کا خاصہ تھی۔
خط بھی بہت عمدہ تھا، خوشخطی کے قواعد سے واقفیت تھی۔ قرآن مجید پڑھتےوقت تجویدو مخارج کا پورا خیال رکھتے، اگرچہ مستند قاری نہیں تھے مگر کسی حافظِ قرآن سے کم واقفیت بھی نہیں تھی ۔ حساب وکتاب کے فن میں بھی مہارت تھی، مولانا محمد ایوب صاحب ندوی مد ظلہ العالی نے احیاء المدارس کا جب کام شروع فرمایا تو آپ حساب وکتاب رکھنے میں مولانا کے معاون تھے ۔
نماز ،روزہ اور جملہ اصنافِ عبادات کے ذوق وشوق ، شغف و اہتمام، صفِ ا ول و تکبیرِ تحریمہ کی پابندی،سنتوں کے التزام کا کیا حال بیان کیا جائے؟ یہ تودیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، قرآنِ مجید کی تلاوت، اوراد واذکار کا اہتمام ،خدا معلوم رات کے کس کس حصے میں اٹھ کر کرتے تھے، اس لیے کہ نمازِ فجر سے آدھے گھنٹہ قبل جامع مسجد پہنچنا، موذن سے پہلے ہی کبھی حاضر ہونا زندگی کا معمول بن گیا تھا، اسی لیے جہاں آپ کے انتقال کی خبر آئی، وہیں اہلِ تعلق نے اس کی بار بار گواہی دے کر بارگاہِ ایزدی میں اپنی شہادتیں پیش کیں۔ جس سے اللہ تعالی کی غفور ورحیم ذات سے قوی امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ" زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو "کے مصداق بن کر اللہ کے عفو و مغفرت اورہمیشہ کی جنت کے مستحق بنیں گے ۔ اللهم ارزقه الفردوس الأعلى من الجنة ۔
معاشی زندگی : ۔
مرحوم کی معاشی زندگی دفتر جماعت المسلمین بھٹکل سے شروع ہوئی ہے،ایک عرصہ تک بحیثیت محرر کام کرتے رہے، اس کے بعد تلاشِ معاش کے لیے جب مادرِ وطن ترک کرنے کا ارادہ کیا، تو جزیرۃ العرب کی سرزمین کا انتخاب کیا، جہاں آپ درجنوں عمروں اور کئی ایک بار حج ِ بیت اللہ کی سعادتوں سے سرفراز ہوئے اورآپ نےعمرِ عزیز کا بہترین حصہ وہیں گزارا،پہلے ملازم رہے اس کے بعد میں تجارت سے جڑ گئے اورسعودیہ عر بیہ کے تجارتی شہر" الجبیل " میں تجارتی زندگی کا آغاز کیا، ایک کامیاب تاجر کی حیثیت سے سامنے آئے، جن دنوں ان کی تجارت عروج پر تھی انہی دنوں راقم الحروف کو وہاں جانے، ان کی دکان کو قریب سے دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا ،دکان میں داخل ہونے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ کوئی تاجر نہیں بلکہ کوئی مسجد کا امام یا مدرسہ کا مدرس کھڑا ہے، سر پر ٹوپی، شرعی ڈاڑھی، عربی لباس میں ملبوس ایک عرب زادے ہی طرح کھڑے ہیں، وضع قطع سے مکمل اسلامی لباس، پاجامہ اور کندورا ٹخنوں سے اوپر،سر کی ٹوپی سے لے کر جوتے کےموزہ تک سفید ہی سفید رنگ، زندگی بھر آپ نے اسی طرح کےسفید لباس کو اہمیت دی، ان کے ملنے جلنے والوں میں شاید ہی کوئی بتا سکے کہ آپ نے جب سے کرتا پاجامہ اور سفید لباس پہننا شروع کیا ہو، توپھر رنگین لباس کو ترجیح دی ہو، ممکن ہے کہ سفر کے وقت پہناہو ، جسے ہمیں دیکھنے کا اتفاق نہیں ہو سکا ۔مرحوم کاکئی بار دبئی متحدہ عرب امارات بھی آنا ہوا، مل بیٹھنے اور تبادلۂ خیالات کرنے کا اتفاق ہوا،وہی پرانا انداز، ہونٹوں پر وہی مسکراہٹیں، اخلاق کا وہی مظاہرہ ، جس سے زمانۂ طالبِ علمی کا دور تازہ ہو جاتا ۔اللهم اجعلها في ميزان حسناته ۔
منصبِ امامت : ۔
ابتدائی درجات سے لے کر بارھویں کلاس تک عصری اسکول میں تعلیم کیا ہوا ایک طالبِ علم، جس نے بعد میں چار سال کچھ ماہ دینی تعلیم حاصل کئے تھے صرف اس تعلیم کی برکت سے منصبِ امامت پر بھی فائز ہوئے۔ پہلے ایک عرصے تک مسجدِ طور میں امامت کے فرائض انجام دئے ، پھر بعد میں بعد میں جامع مسجد ہی میں دو وقتہ امامت کے منصب پر فائز ہونے کا عظیم شرف حاصل ہوا ۔جو محض فضلِ خداوندی اور مقامِ عزت و سر بلندی ہے ۔یہ سعادت زورِ بازو سے حاصل نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ خدائے تعالی مقدر نہ فر مادے ۔
جامعہ اسلامیہ اور خصوصی درجات: ۔
سن ۱۹۸۵ کا عرصہ تھا، بانئ جامعہ اسلامیہ ڈاکٹر علی ملپا منصبِ صدارت پر فائز تھے،بانئ جامعہ محیی الدین منیری کی نظامت کا ذرین دور اورمولانا رمضان ندوی رحمہ اللہ کا دورِ اہتمام تھا،جس میں جامعہ کی انتظامیہ نےاپنا وہ تاریخ ساز فیصلہ لیا ، کہ جو طلباء عصری اسکولوں سے اپنی تعلیم نامکمل کئے گھروں میں بیٹھےہوئے ہیں، یا دسویں کلاس میں ناکام ہو نے کی وجہ سے ایک سال کے لئے فارغ ہیں یاوہ جو عصری تعلیم کے بعدمزید دینی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے لئے خصوصی درجات کا انتظام کیا جائے۔ جس کے لئے مخدومی مولانا محمد ایوب ندوی مد ظلہ العالی اور مشفق بہنوئی مولانا عبد الباری رحمہ اللہ کی کوششوں اور گھر گھر جا کر ان کی تشکیل کرنے کے بعد کچھ طلباء مل گئے اور جامعہ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ یقینا یہ وہ سنہرا دور تھا، جسے دیکھنے کے لئے آنکھیں ترستی ہیں، عصری اسکولوں سے آئے ہوئے چند ہونہار طلباء جو دینی حمیت اور غیرت سے سرشار تھے،جس میں کچھ دسویں کلاس کے بعدآئے ہوئے تو کچھ بارویں کے بعد کےتھے، کچھ اپنے اسکول میں ناکامی کے بعد تو کچھ اپنے درجہ میں اچھے اور امتیازی نمبرات میں کامیابی کے بعدآئے تھے،اس لئے کہ وہ حصولِ علم کےلئےبے تاب تھے، ہم ان کے شوق و ذوق کے چشم دید گواہ ہیں ،آخران میں یہ جذبات کیوں کارفرما نہ ہوتے ؟؟ جب کہ ان کی دینی تربیت شبینہ مکاتب میں یا مساجد کے ائمہ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔شہر کی جامع مسجدہو یا خلیفہ جامع مسجد، فاروقی مسجد ہو یا سلطانی مسجد، صدیقی مسجد یا اس کے علاوہ شہر کی دیگر مساجد یہ طلبہ انہی مساجد سے جڑے تھے، البتہ جن علماء کے وہ زیرِ تربیت رہے ، ان میں قابلِ ذکر مولانا محمد اقبال ملا ندوی، مولانا محمد صادق صاحب اکرمی ندوی،مولانا محمد ایوب برماور ندوی اور مولانا عبد الباری فکردے ندوی وغیرہم تھے۔ البتہ جامعہ میں خصوصی درجات میں لانے کے لیے جنہوں نے کوشش و محنت کی، اس کے لیے بچوں سے رابطہ میں رہے، بچوں کے سروں پر مشفقانہ ہاتھ رکھا اور انہیں جامعہ کی چہار دیواری تک لانے میں کامیاب ہوئے ، اس کا ہمیں صحیح علم نہیں تھا، البتہ آج جب ان میں سے بعض طلباء سے رابطہ ہوا، تو انھوں نے واضح اور صریح الفاظ میں سابق استاذِ جامعہ مخدومی مولانا محمد ایوب ندوی اور سابق مہتممِ جامعہ مولانا عبد الباری ندوی کا نام لیا اور بتایا کہ در اصل انہی دونوں کی کوششوں سے ہمیں طالبانِ علومِ نبوت کی فہرست میں شامل ہونے کا ذرین موقع ملا، اور یقینا کچھ وہ طلباء بھی ہوں گے جو کسی اور کی محنت وکوشش کا نتیجہ تھے یا کسی کے کہے بغیر ان کے اپنے دعوتی مزاج اور ذہن نے انھیں دینی تعلیم کے حصول پر آمادہ کیا تھا ۔
درجۂ خصوصی اول میں اچھی خاصی تعداد رہی، جملہ پینتیس طلبہ تھے، جن میں ایک بڑی تعداد ان طلباء کی تھی جو اسکول میں ناکام ہونے کی وجہ سےصرف ایک ہی سال کے لئے فائدہ اٹھانے کی غرض سے آئے تھے ۔ لہذا ایسا ہی ہوا خصوصی دوم میں آئے بغیر وہ طلباء واپس کالج چلے گئے اور خصوی سوم جب پہنچے تو یہ کارواں صرف آٹھ طلباء پر مشتمل تھا، خصوصی اول میں موجود جملہ پینتیس طلبہ اور خصوصی سوم کے کل آٹھ طلبہ کی فہرست اسی درجہ کے طالبِ علم جناب امیاز صاحب خومی کی ڈائری میں مرحومِ موصوف جناب امجد صاحب کے خوبصورت قلم سے مرقوم ہے، جسے راقم نے حیاتِ عبد الباری ( زیرِ ترتیب) میں تفصیل سے ذکر کیا ہے، البتہ خصوصی سوم میں مرحوم امجد خطیب، جناب امتیاز خومی، جناب انصار خطیب ( کامنّا)، مولوی عبد السمیع آرمار ندوی، جناب عبد الغفور قاسمجی ، جناب محمد اعظم حاجی فقیہ، جناب سید عبد المتعالی کاظمی، جناب علیم الدین منی پوری بچ گئے تھے۔
خصوصی اول تا سوم مولانا رمضان صاحب ندوی، مولانا اقبال صاحب برماورندوی، مولاناعبد الباری صاحب فکردے ندوی، مولانا مشتاق صاحب ندوی، مولانا اختر علی صاحب رحمہم اللہ تعالی کے علاوہ مولانا محمد فاروق صاحب قاضی ندوی، مولانا محمد ایوب صاحب برماور ندوی، مولانا خالد صاحب غازی پوری ندوی، مولانا سید عنایت اللہ صاحب ندوی، مولانا محمد عمیس صاحب ندوی،مولانا عبدالرب صاحب خطیب ندوی دامت برکاتہم جیسے فائق ولائق اور عظیم المرتبت اساتذہ سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔ جنہوں نےصرف تین سالوں میں ان طلبہ پر شبانہ روز محنتیں کیں ، ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تربیت کابھی پورا خیال رکھا۔ عربی کی بنیادی کتابوں سے آغاز کیا گیا ،اردو زبان اور اردو خوش خطی پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور خصوصی کےتین سالوں میں ضروری کتابیں مکمل کی گئیں۔ خصوصی سوم کے بعد یہ درجہ عربی ششم یعنی عالیہ ثانیہ میں ضم کر دیا گیا،جہاں پر مزید دو طلبہ جناب عبد الغفور قاسمجی اور جناب علیم الدین منی پوری ان سے بچھڑ کر صرف چھ طلباء بچ گئے۔ حسنِ اتفاق سے یہ ہماراہی درجہ تھا ، جس میں جملہ گیارہ طلباء تھے اور یہ تعداد جامعہ کے سالہائے سابقہ کے مقابلہ میں سب سے زیادہ تھی،اب خصوصی کے ان چھ طلباء کی شمولیت کے بعد ہماری کل تعداد سترہ ہو گئی۔الحمد لله على ذلك ۔
یہ خصوصی درجات عالمیت کے درجات میں ضم ہونے کے بعدانھیں اور وہ اساتذہ بھی ملے جو عربی درجات میں تھے، جن میں سابق مہتممِ جامعہ مولانا فضل الرحمن صاحب رحمانی، استاذِ گرامی قدر مولانا اکبر علی صاحب بارہ بنکوی ندوی اور نائب ناظمِ جامعہ مولانا طلحۃ الجواد ندوی بھی تھے، مولانا طلحہ صاحب ہمیں حدیث پڑھاتے تھے ، مشکوۃ شریف کا گھنٹہ تھا، انہی دنوں آپ کی شادی ہوئی تھی اور حسنِ اتفاق یہ ہوا کہ اسی دوران شیخ الحدیث مولانا ضیاء الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ دار العلوم ندوۃ العلماءلکھنو سے اپنی علالت اور ضعیفی کے باعث آرام کرنے کی خاطربھٹکل تشریف لائے تھے، مولاناطلحہ صاحب کے چھٹی پر رہنے کی وجہ سے ہمیں آپ کا گھنٹہ لگایا گیا، شیخ الحدیث سے ہم نے مشکوۃ شریف کے چند ابواب پڑھے، جو ہماری اور ان خصوصی درجات سے آئے ہوئے طلباء کے لیے انتہائی شرف کی بات تھی،تقریبا اسی کے ایک سال بعد آپ نے داعئ اجل کو لبیک کہا ۔
جب ان طلبہ کا اور ہمارا ساتھ ہوا، وہ ہمارے رفقائے درس بن گئے ، تو ہمیں کالج اور اسکول سے طلبِ علم کی خاطر آئے ہوئے جوانوں کو قریب سے دیکھنے ، ان کے ساتھ رہنے اور مل بیٹھ کر پڑھنے کا اتفاق ہوا، ہم نے حقیقی معنی میں ان میں دینی حمیت اور غیرت محسوس کی،جسے آج تک برابر ان میں محسوس کرتے آ رہے ہیں ، یہ ساتھی جہاں جہاں اور جس جگہ گئے، شرعی وضع قطع اور دینی رنگ ہی میں رہے،ہم نے قیامِ جامعہ کے دوران انھیں جامعہ کے لئے فکرمند پایا۔ اس کے ظاہری حسن کو بھی دو بالا کرنے میں اپنی خدمت پیش کرتے دیکھا، آج جامعہ کے وسیع احاطہ میں دار العلوم کے درسگاہ کی جو پر شکوہ عمارت کھڑی ہے ،اس عمارت کے سامنے جو خوبصورت پودے لگے ہیں ، اس میں ایک بڑا حصہ ہمارے درجہ کا بھی ہے، خصوصی سے آئے ہوئے یہ طلباء خالی اوقات میں اس کی آبیاری کرتے، شہر سے خوبصورت پودے خرید خرید کر لاتے، اور بالخصوص اشو کہ کے لمبے لمبے جو درخت کھڑے ہیں وہ انہی طلباء کے اپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے ہیں۔
عربی ششم کے بعد کچھ ساتھیوں نے اپنی مجبوریوں کے باعث تعلیم منقطع کر دیا اور عالمیت کے آخری سال صرف دو ساتھی جناب اعظم حاجی فقیہ اور مولوی عبد السمیع آرمار رہ گئے ، جن میں سے اول الذکر نے اسی سال کے شروع ہی میں تعلیم ترک کر دیا، جب کہ ثانی الذکر نے عالمیت مکمل کیا، اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء بھی آئے اور فضیلت تک ہمارا اور ان کا ساتھ رہا، اور یہی وہ ہونہار طالبِ علم ہے جو سندِ فضیلت پانے کے بعد اسی مادرِ علمی میں استاذ بنے، ترقی کرتے کرتے مکتب نوائط کالونی کے صدرِ مدرس بنے اور اس کے بعد جامعہ آباد میں واقع ثانویہ درجات کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر ڈالی گئی اور الحمد للہ برابر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
خصوی درجات کا جب ذکر آتا ہے تو یہ تذکرہ ان کے بعد آنے والے مزید کچھ طلبہ کے نام کئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا، جنہوں نے عصری تعلیم میں ڈگری کورس کیا، ان میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی ، اس کے بعد جامعہ سے عالمیت کی تکمیل کی ، جو اس وقت میدانِ عمل میں اتر کر قوم و ملت میں خاموش انجام دے رہے ہیں۔ جن میں مولانا رحمت اللہ رکن الدین ندوی، مولانا افضل شہ بندری ندوی ، مولانا فضل الرحمن جوکاکو ندوی ،مولا نا شارق محتشم ندوی اور مولانا محمد ایوب ندوی ( بمبئ ) وغیرہم قابلِ ذکر ہیں ۔
خصوصی درجات بیچ میں چند سالوں کے لئے طلبہ کی مطلوبہ تعداد میں کمی کے باعث بند ہو گئے تھے، البتہ ادھرآخری آٹھ سالوں سے یہ نظام از سرِ نو شروع ہوگیا ہے، سالِ راواں اس کا نواں سال ہے، جس میں تقریبا بیس طلباء ہر درجہ میں رہتے ہیں، سال کے شروع میں بیس آتے ہیں تو دورانِ سال دو چار وہ ہوتے ہیں جواپنی بعض مجبوریوں کی بنا پر تعلیم ترک دیتے ہیں اور کم ازکم پندرہ طلبہ تو ہر سال باقی رہ ہی جاتے ہیں، جو در حقیقت قوم کا بلکہ ملت کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ جن میں سے ایک اچھی خاصی تعداد نے عالمیت تک کی تکمیل کی اور بعضوں نے اس کے بعد فضیلت بھی کی اور اب وہ میدانِ عمل میں اتر کر اپنی گرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
شاید خصوصی درجات کا تذکرہ اس کے بغیر مکمل نہ ہو سکے کہ ہمارے جامعہ سے فارغ ہونے والے پہلے تینوں طلباء کا شمار بھی انہی خصوصی درجات میں ہوتا ہے، وہ اس طرح سے کہ قاضی جماعت المسلمین وصدر جامعہ مولانا محمد اقبال صاحب ملاندوی، نائب صدر جامعہ مولانا محمد صادق صاحب اکرمی ندوی اور مبلغ و داعی سابق استاذ جامعہ مولانا محمد غزالی رحمہ اللہ تعالی ان تینوں نے پہلے انجمن حامئ مسلمین میں تعلیم پائی، اس کے بعددینی علوم کے حصول میں سرشار ہو کر اپنے وقت کے فائق طالبِ علموں میں شامل رہنے کے باوجود انھوں نے جامعہ اسلامیہ میں داخلہ لیا، یہاں سے فراغت کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا، جہاں سے فضیلت کی اور اس کے بعد اپنی زندگیوں کو خدمتِ دین کے لئے وقف کردیا ۔ جزاهم الله خيرا ۔
جامع مسجد اور مدرسہ تعلیم القران: ۔
اسی خصوصی درجات کےوہ پانچ ہونہار ،نیک بخت و خوش قسمت طلبہ تھے جن کے ذریعہ جامع مسجد کےاحاطہ میں، زیرِ سرپرستی سابق امام وخطیب مسجدِ ھذا بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کی غرض سے مدرسہ تعلیم القرآن کا آغاز ہوا،جن میں سے ایک مرحوم جناب امجد حسین صاحب، دوسرے جناب محمد انصار صاحب خطیب ، تیسرے جناب سید عبد المتعالی کاظمی،چوتھے جناب محمد امتیاز خومی اور پانچویں مولوی عبد السمیع آرمار ندوی تھے، ان پانچوں کی خود اپنی تعلیم و تربیت کا ایک بڑا حصہ یہیں کا مرہونِ منت ہے، وہ اسی مسجد کے فیض یافتہ تھے،انہوں نے مولانا عبد الباری کی خدمت میں زانوئے تلمذ طےکیا تھا ،وہ نمازِ فجر کے بعد قرآنِ پاک پڑھتے،قواعدِ قرآن سیکھتے، دعائیں اور اذکار یاد کرتے ۔ چوں کہ انہوں نے خود یہیں سے کچھ پایا تھا، اس لئے جب یہ جامعہ سے مزید فیضیاب ہوئے اور دینی بنیادی تعلیم کی اہمیت ان کے دلوں میں گھر کر گئی تو مغرب کے بعد شبینہ مکتب میں بحیثیت استاد تدریسی خدمات رضا کارانہ انجام دئے۔ان مدرسین اور اس وقت کی انجام دی گئی خدمات کا تذکرہ اس چھوٹے سے مضمون میں کرنا نا ممکن ہے، اس کے لئے دس بیس اوراق نہیں بلکہ سفینہ چاہئے اس بحرِ بے کراں کے لئے ۔ اللہ اکبر کیا اس کا اندازہ لگانا ممکن ہے کہ ان شبینہ اور صباحی مکتبوں سے کیا کیا خدمات انجام پاتی ہیں، کتنے راہِ راست پر آتے ہیں ، کتنے اپنے دین و ایمان سے روشناس ہوتے ہیں اور کتنے اپنی اپنی قسمت چمکا کر دنیا اور آخرت کا خیر سمیٹ کر لے جاتے ہیں ۔ یہ مدرسہ ایک عرصہ تک جامع مسجد ہی کی احاطہ میں رہا، کافی سالوں بعد مسجد ہی سے متصلا جماعت المسلمین کی محکمہ شرعیہ کی عمارت میں منتقل کیا گیا، اس وقت سے کر اب تک مدرسہ اسی عمارت میں ہے ۔
مدرسہ تعلیم القرآن میں مرحوم امجد صاحب ایک ذمہ دار کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے، بڑی فکر مندی، مستعدی اور احساسِ ذمہ داری سے نبھایا،طلبہ کے اندر محبت و عقیدت کے نقوش چھوڑے اوربچوں نے بھی آپ سے خوب استفادہ کیا، انھیں جی جان کی طرح عزیز رکھا ۔ پانچ اساتذہ پر مشتمل یہ مدرسہ تھا، تقریبا سوا سو طلبہ تھے،جنہیں پانچ درجات میں تقسیم کیا گیا تھا،تعلیم وتصحیحِ قرآن کے ساتھ ساتھ بنیادی دینی مسائل سے واقف کرایا جاتا ،روز مرہ کی دعائیں اور صبح شام کی سورتوں کی تلاوت کرنے کا بھی اہتمام کراتے ۔
ایک زمانہ تک اس مدرسہ کا شمار شہر کے اہم ترین شبینہ مکاتب میں رہا، جہاں پر دور دراز علاقوں اور دوسرے محلوں کے بچے بھی ذوق وشوق سے آتے ۔ وقتا فوقتا اس کے سرپرست مولانا عبد الباری خود تشریف لاتے، مغرب سے عشاء تک بیٹھتے، جائزہ لیتے، ضروری ہدایات دیتے ،یہیں بیٹھ کر مزید دوسری جگہ شبینہ و صباحی مکاتب کھولنے کی فکریں کی جاتیں،جو فکریں تادمِ آخر برابر آپ پر سوار تھیں ۔
پھرجب ایک عرصہ کے بعد یہ پانچوں اساتذہ تلاشِ معاش اور اعلی تعلیم کے حصول کی غرض سےچلے گئے تو سرپرستِ مدرسہ علیہ الرحمۃ اور انہی پانچ اساتذہ کے شاگردوں نے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اپنی خدمات پیش کیں۔جن میں قابلِ ذکر مولانا فضل الرحمن صاحب جوکاکو ندوی ہیں جنہوں نے ذمہ دارانہ حیثیت سے ایک لمبے عرصہ تک اپنی خدمات پیش کی،جس میں آپ کے ساتھ پڑھانے میں مولوی ظفیر صدیق ندوی، جناب محمد انفال پٹیل، جناب یسین قاضیا، جناب عادل ناگرمٹ، جناب محمد سعود دامدا ابو وغیرہ بھی موجود تھے، جو در اصل اسی مدرسہ کی پیدا وار اور اسی سے فیض یافتہ تھے۔
یہی وہ شبینہ مکتب ہے جس کی طرف سے اسی سال حالیہ لاک ڈاون کے دوران فارغ اوقات کا صحیح استعمال کرانے ، بچوں کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے ، نونہالوں میں عبادت کےذوق و شوق کو بڑھانے کی غرض سے شہر کے تمام شبینہ مکاتب کے بیچ آن لائن مقابلہ کا انعقاد کیا گیاتھا، جس میں شبینہ مکاتب کے طلبا سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی روزانہ کی کارکردگی بالخصوص فرض نماز، سنت نماز، تراویح، تہجد،تلاوت کلام پاک، اذکار، مسنون سورتیں، وغیرہ کے تعلق سے بذریعہ موبائل ارسال کریں۔ اور اس میں فائق طلباء کو بھی خصوصی انعامات سے نوازنے کا اعلان کیا گیا۔ یقینا یہ مدرسہ اور اس سے ہونے والی تمام کوششوں میں اس کے سرپرست علیہ الرحمۃ اور قائم کرنےوالے پانچوں اساتذہ کا بھی حصہ رہے گا،جو ان کے حق میں صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے،جس میں سے ایک ہمارے مرحوم امجد حسین صاحب خطیب بھی ہیں ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، پسماندگان میں آپ کی زوجہ، ایک بیٹی اور ایک بیٹے و جملہ متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۔
( تحریر کردہ : ۔ ۱۸ شوال ۱۴۴۱ ہجری، مطابق: ۱۰ جون ۲۰۲۰ عیسوی )
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں