وبائی امراض اور اسلامی تعلیمات

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

     پچھلے دوماہ سے عالم گیر سطح پر’کرونا‘ نامی وبائی بیماری انسانی معاشرہ پر حملہ آور ہے، ہرکوئی اس بیماری کا نام سنتے ہی خوف وہراس میں مبتلا ہے،سعودی عرب سمیت متعددممالک نے احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے زائرین ومسافرین کی آمد پر روک بھی لگادی ہے۔ذرائع کے مطابق دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک چین سے شروع ہونے والا یہ وائرس انسانی سانس کے نظام پر حملہ آور ہوکر ہلاکت کی وجہ بنتا ہے،تاہنوزہزاروں افراد اس کے سبب موت کا لقمہئ تر بن چکے ہیں۔کسی بھی وائرس کے بارے میں جب تحقیق کی جائے تو اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ وائرس کہاں سے آیااور کس طرح پھیلنا شروع ہوا؟۔واضح رہے کہ زیادہ تر وائرس جانوروں میں پائے جاتے ہیں؛ لیکن ان کے متعلق معلومات تب حاصل ہوتی ہیں جب یہ انسانوں میں منتقل ہوں۔ایڈز افریقہ کہ جنگلات میں موجود بندروں کی ایک بیماری تھی؛مگر جب یہ انسانوں میں منتقل ہوئی تب اس کے متعلق تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔کرونا وائرس کے بارے میں بھی گمان یہی ہے کہ یہ جانوروں میں پائے جانے والا ایک وائرس ہے جو انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔اس وائرس کی اطلاع سب سے پہلے 7/جنوری 2020کو چین کے محکمہ صحت نے دی، عالمی ادارہ صحت نے 31دسمبر کو ہی چین کو اس خطرناک وائرس سے آگاہ کردیا تھا۔ اس بیماری کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ابتداء میں سردی، زکام، بخار، کھانسی یا سانس لینے میں تکلیف کا احساس ہوتا ہے، مگر جب یہ بیماری مریض کو پورے طریقے سے اپنے گرفت میں لے لیتی ہے تو وہ شخص نمونیا اور تنفس میں شدید دقت سے دوچار ہوجاتا ہے بعدازاں گردے فیل ہونے سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔اللھم احفظنا منہ 
بعض ماہرین کاکہناہے کہ یہ وائرس، سانپ، چوہے، چمگاڈر، لومڑی اور مگرمچھ وغیرہ جیسے خبیث جانوروں کے کھانے سے پھیلا ہے، اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج ٹیکہ یا ادویہ وغیرہ سے ابھی تک دریافت نہ ہوسکا، صرف اندازے سے کچھ ایچ آئی وی کی ادویہ اس کے لئے تجویز کی جارہی ہیں،اس سے شفایابی کی مدت بھی صحیح طریقے سے معلوم نہیں۔کبھی تو ابتدائی علامات کے ظاہر ہوئے بغیر ہی آدمی اس بیماری کا اچانک شکار ہوجاتاہے،جس کی وجہ سے اس بیماری کا ابتدائی مرحلہ میں اندازہ لگا کر بچنے کی تدابیراختیارکرنا مشکل و دشوار گذار ہوچکا ہے۔
کیا بیماریاں متعدی ہوتی ہیں؟
    یوں توبیماری اور شفاء اللہ کے قبضہئ قدرت میں ہے،وہ جسے چاہتا ہے بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صحت جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرماتاہے،اللہ تعالی نے ہر بیماری کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی نازل فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد نبویﷺہے: ’’اللہ تعالی نے ہر بیماری کی دوا نازل کی ہے،یہ الگ بات ہے کہ کسی نے معلوم کر لی اور کسی نے نہ کی‘‘(مستدرک حاکم)جہاں بیماری کا لاحق ہونا مشیت ایزدی پر موقوف ہے،وہیں بیماری کا متعدی ہونابھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ناممکن ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”لا عَدْوٰی“-چھوت، یعنی کسی بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا(بخاری)، اس لیے مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی بیماری لاحق نہیں ہوتی۔(بخاری) تاہم انسان کمزور صفت وکمزور عقیدہ واقع ہوا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی طبیعت اور اس کی فطرت کا خیال رکھتے ہوئے اسے حکم دیا ہے کہ”مجذوم یعنی کوڑھ کے مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح تم شیر سے بھاگتے ہو۔“(بخاری)اس حکم کامقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ انسان کا ایمان کمزور نہ ہوجائے، اور توحید کے سلسلے میں وہ شکوک وشبہات میں مبتلا نہ ہوجائے، یعنی کمزور عقیدے والاانسان، خارش زدہ، یا کوڑھ کے مریض کے ساتھ رہتے ہوئے اگر اس بیماری میں مبتلا ہوجائے گا، تو کہے گا کہ کھُجلی اور کوڑھ والے کی صحبت کی وجہ سے مجھے بھی بیماری لگ گئی ہے، اسی طرح طاعون وپلیگ کی بیماری کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ”جس شہر میں طاعون پھوٹ پڑا ہو، وہاں مت جاؤ، اوراگر پہلے سے اس شہر میں ہوں، تو وہاں سے باہر نہ جاؤ“(بخاری)، کیوں کہ شہر میں جانے سے اگر وہ بیماری بہ تقدیر الٰہی لاحق ہوگئی، تو کمزور ایمان والا سمجھے گا کہ فُلاں شخص شہر میں آیا، تو اس کی وجہ سے بیماری لگ گئی، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدے کی خرابی سے بچانے کے لیے سدّ باب کے طور پر اُس شہر میں جانے سے ہی منع فرمادیا۔
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ احادیث کے درمیان باہم کوئی تعارض نہیں ہے۔ایک تو (لا عدوی ولاطیرۃ)والی حدیث ہے کہ کوئی بیماری کسی دوسرے کو متعدی نہیں ہوتی؛لیکن دوسری احادیث بھی ہیں جس میں جذام کے مریض سے دور رہنے کا حکم ہے۔لہذا محدثین نے دونوں قسم کی احادیث میں تطبیق دی ہے۔ابن الصلاح ؒ اور امام بیہقی  ؒ وغیرہ علماء نے دونوں قسم کی احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے فرمایا کہ جن احادیث میں تعدیہ (contagious)امراض کی نفی ہے۔ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی بیماری اور مرض میں بالذات یہ تاثیر نہیں ہوتی کہ وہ دوسرے شخص کی طرف منتقل ہوجائے۔زمانہئ جاہلیت میں لوگوں کا یہی خیال تھا کہ امراض میں دوسرے کی طرف منتقل ہونے کی ذاتی تاثیر اور صلاحیت ہوتی ہے۔وہ امراض کو بالذات متعدی (contagious) سمجھتے تھے۔حضورﷺ نے اس کی نفی فرمائی اور جن احادیث سے تعدیہ امراض کا ثبوت معلوم ہوتا ہے وہ ظاہری سبب کے اعتبار سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظاہری سبب کے طور پر بعض امراض میں تعدیہ کا وصف پیدا فرمایا ہے کہ دوسرے کی طرف منتقل ہوسکتے ہیں لیکن سبب حقیقی اور مؤ ثر اصلی کے طور پر یہ وصف ان میں نہیں۔لہذا نفی سبب حقیقی ہے اور اثبات سبب ظاہری کا ہے۔اس لئے دونوں قسم کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں۔جمہور علماء نے اسی توجیہ کو اختیار کیا ہے۔(فتح الباری)
یہاں پرمناسب ہوگا کہ عبرت و موعظت کے لیے عہد فاروقی میں پھیلنے والے اس خوف ناک وبا کا بھی ذکر کیاجائے جسے طاعون عمواس کہتے ہیں۔’عمواس‘دراصل بیت المقدس اور رملہ کے بیچ واقع ایک بستی کا نام ہے،چوں کہ اس علاقے سے طاعون کی ابتدا ہوئی تھی اسی لیے اس کو ''طاعون عمواس'' کہا جاتا ہے۔ مورخین کے مطابق ۱۷ہجری کے اواخر یا ۱۸ہجری کی ابتدا میں یہ وبائی مرض عمواس سے شروع ہو کر شام و عراق کے پورے درمیانی علاقے میں پھیل گیااورمسلسل ایک ماہ جاری رہا۔ایک دفعہ اس وبا کی شدت کچھ کم ہو گئی؛ لیکن اس نے پھر عود کیا۔ مجموعی طور پر اس نے۵۲ ہزارمسلمان مردوں، عورتوں، شہریوں اور فوجیوں کی جانیں لیں۔ معرکۃ الجزیرہ کے سلسلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے  جابیہ نامی مقام تک پہنچ کر مدینہ واپس لوٹنے کی وجہ یہی وبا تھی۔ انھوں نے طاعون کی خبر سن کر مہاجرین و انصار سے مشاورت کی تو کچھ نے کہا کہ آپ جس کام سے آئے ہیں، اسے پورا کیے بغیر نہ لوٹیں۔ دوسروں نے مشورہ دیا کہ کبار اصحاب رسول کووبا کے خطرے میں ڈالنا مناسب نہیں۔ جب انھوں نے واپسی کا فیصلہ کر لیا تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ عمررضی اللہ عنہ کا جواب تھا: ہاں، ہم اللہ کی ایک تقدیر سے اس کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے یہ فرمان نبوی سنا کر عمر رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید کی: ''جب تم کسی قوم کی سر زمین میں طاعون پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب یہ اس جگہ پھوٹے جہاں تم موجود ہو تو اس سے فرار کی خاطر وہاں سے نہ نکلو۔'' (بخاری) اس مرض کا شکار ہونے والوں میں حضرت ابوعبیدہ،معاذ بن جبل،عبدالرحمن بن معاذ، یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم ویرہ جیسے کبار صحابہ شامل تھے۔حارث بن ہشام کے ساتھ شام جانے والے ان کے ۰۷/اہل خانہ میں صرف ۴ بچ پائے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ۰۴ بیٹوں نے اس وبا میں جان دی۔
احتیاطی تدابیر:
     آپﷺنے اپنی حیات میں جہاں روحانی اور باطنی بیماریوں کے حل تجویز فرمائے وہیں جسمانی اور ظاہری امراض کے لیے بھی اس قدر آسان اور نفع بخش ہدایات دیں کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کر لے؛مگر ان سے سرمو انحراف نہیں کر سکتی۔یہی وجہ ہے کہ مسلم اطباء نے اس کو موضوع بحث بنایا؛جس کے سببب نہ صرف طب کے میدان میں نئی نئی تحقیقات منظرعام پر آئیں؛ بلکہ بہت ساری نئی نئی ادویات بھی متعارف ہوئیں، بہت سے لاعلاج امراض کا علاج دریافت کیاگیا، یونانی کتابوں کے عربی ترجمے کیے، ہسپتال اور شفاخانے قائم کیے اور طب کو خیالی مفروضوں سے نکال کر ایک عملی سائنس کی شکل دی۔ گویا اسلام اور اگلے دور کے مسلمان صحت عامہ کے بارے میں غیرمعمولی حد تک سنجیدہ اور حساس رہے۔ہمارا دین جدید دور کے علاج معالجے کی سہولتوں کے استعمال کا مخالف نہیں ہے؛ بلکہ ان سے استفادہ کاامر کرتا ہے، فرمان نبوی ہے:علم وحکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے، اس کو جہاں ملے اس سے استفادہ کی کوشش کرے۔
بیماریوں اور وباؤں سے حفاظت کے لیے روزانہ کم ازکم پانچ مرتبہ وضو کرنا، سونے قبل ضروریات سے فراغت حاصل کرنا،جنسی عمل کے بعد لازماً غسل کرنا، بالوں او ر ناخنوں کی تراش خراش کرنا، منہ، ناک اور کان کی صفائی کرنا، صاف ستھرا لباس پہننا، کھانے سے پہلے اور بعدمیں ہاتھ دھونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہزاروں سال سے ہمارے دین کا لازمی حصہ ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بھی ان چیزوں کا حکم دیا گیا تھا۔ دور جدید کے ہائی جین کے اصول بھی انہیں باتوں کی تلقین کرتے ہیں۔
 ظاہری شکل و شباہت کے علاوہ جسمانی صحت بھی شخصیت کا اہم ترین پہلو ہے، اگر انسان صحت مند نہ ہو تو وہ کسی کام کو بھی صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتا، دین نے اپنی صحت کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی ہے اور ایسی تمام چیزوں سے روکا ہے جو صحت کیلئے نقصان دہ ہوں۔
حفظانِ صحت میں خوراک، ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، متوازن خوراک اور معتدل وپاکیزہ غذاسے انسان کی صحت برقرار رہتی ہے، وہ مناسب طور پر نشوونما پاتا ہے اور محنت کی قابلیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس بارے میں قرآن نے صرف تین جملوں میں طب قدیم اور طب جدید کو سمیٹ لیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:’’کھاؤ، پیو اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو۔‘‘ (الاعراف)یہ تینوں وہ مسلمہ اصول ہیں جن میں کسی کا بھی اختلاف نہیں؛کھانا پینا زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، اور نہ اپنے فرائض منصبی سے بہ طریقِ احسن عہدہ برآ ہوسکتا ہے، البتہ اس میں حلال و پاکیزہ کھانے اورکھانے میں اعتدال سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ حرام و خبیث کھانے اسی طرح نہ کھانے، یا ضرورت سے کم کھانے سے جسمِ انسانی بیمار پڑ جاتا ہے، جبکہ ضرورت سے زیادہ کھانے سے معدہ پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور معدہ کی خرابی تمام امراض کی جڑ ہے، حضور ﷺکا ارشاد ہے:’’معدہ بدن کے لیے تالاب ہے اور رگیں اسی کی طرف جسم کے مختلف حصوں سے وارد ہیں، جب معدہ صحیح حالت میں ہو تو رگیں بھی جسم کے تمام حصوں کوصحیح خون مہیا کرتی ہیں اور جب معدہ بیمار پڑ جائے تو اس سے رگوں کے ذریعے تمام جسم بیمار پڑ جاتا ہے“۔(طبرانی۔ المعجم الاوسط)
وبائی امراض کے پھیلنے میں گھر اور ماحول کی گندگی اور خرابی کا بھی بڑادخل ہے۔اسلام نے انسانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی پوری زندگی پاک و صاف ہونی چاہیے۔ارشادربانی ہے:ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین(البقرۃ)”اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو توبہ کا رویہ اختیار کریں اور خوب پاکیزہ رہیں“۔ایک حدیث میں طہارت و نظافت پر نبیِ کریمﷺنے فرمایا:”پاکی نصف ایمان ہے“(مسلم)مزید اس جانب توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پاک و صاف ہے اور پاکی و صفائی سے محبت رکھتا ہے، کریم اور سخی ہے، کرم اور سخاوت کو پسند فرماتا ہے، اس لیے اپنے گھر بار، صحن (اور گلی کوچوں)کو صاف ستھرا رکھو۔‘‘(مسندبزار)معلوم ہوا کہ صفائی کا اہتمام دین اسلام کا جزو لاینفک ہے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ حق تعالی سے عافیت طلب کریں،صبح وشام کی مسنون دعاؤں کااہتمام کریں!بہ طور خاص سورت الفاتحہ،آیت الکرسی اور چار قل پڑھ کر پورے جسم پر دم کرلیں۔بسم اللہ الذی لایضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم صبح و شام تین تین مرتبہ اس یقین کے ساتھ پڑھیں کہ حکم الہی کے بغیردنیا کی کوئی چیز مجھے نقصان نہیں پہونچاسکتی۔
اگرہم نے مذکورہ بالا ہدایات پر عمل پیراہونے کا التزام کیا تو امیدہے کہ بڑی حد تک وبائی امراض اورکئی ایک آفتوں سے محفوظ رہاجاسکتا ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 
05مارچ2020

 

«
»

دہلی فسادات میں کجریوال حکومت کا مایوس کن رول اور رویہ

پھر سے اْجڑی دِلّی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے