وزارت داخلہ کی کار کردگی مایوس کن!

نظم و ضبط کا معاملہ صرف ناگپور میں ہی خراب ہے ایسا نہیں ہے، کم و بیش پوری ریاست میں ایسے ہی حالات نظر آرہے ہیں۔احمد نگر ضلع میں دوسراعصمت دری کا سنگین معاملہ سامنے آیا، کامریڈ گوند پنسارے کے قاتلوں کو پولس تلاش کرنے میں اب تک ناکام نظر آرہی ہے۔ان تمام حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وزارت داخلہ کا طرز عمل بالکل بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ان تمام حالات پر سیاسی لیڈران بس یہی جواب دیتے ہیں کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کیا کرسکتے ہیں ، کیا گھر گھر پولس کا انتظام کیا جائے، عوام کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنا چاہیے وغیر ہ وغیرہ۔یہ سرکاری جواب ہوتا جو اپنا دامن بچانے کیلئے دیا جاتا ہے۔
اگر نظم و ضبط اور معیار انتظامیہ کیلئے بھلے ہی وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس ذمہ دار نہ ہوں ، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزارت داخلہ کی ذمہ داری سنبھالنے والے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کی وزارت داخلہ پر کتنی توجہ ہے یا کتنی پکڑ مظبوط ہے، اسی پر وزارت داخلہ کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہوتا ہے۔یہ وزارت داخلہ دیگر وزارت کی طرح خود بہ خود چلنے والی وزارت نہیں ہے۔محصول، صحت عامہ، معاشی اور وزارت تعلیم اس طرح کی وزارت کی جب ایک سمت تعین کی جاتی ہے ، پھر باربار اس پر توجہ دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔مگر وزارت داخلہ کا ایسا نہیں ہے۔اس پر ہر لمحہ کڑی نظر رکھنی پڑتی ہے، وزارت داخلہ کو سنبھالنا یعنی لوہے کے چنے چبانا ہے۔اگر اس پر سختی کے ساتھ عمل نہ کیا جائے تو وزارت داخلہ کا معیار گرجانے میں دیر نہیں لگتی اور حالات قابو سے باہر جانے میں بھی دیر نہیں لگتی۔ وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کہ وزارت داخلہ کے ذریعہ اب تک کوئی بھی قابل ستائش کام نہیں کیا گیا ہے، گویا یہ محکمہ اب تک سرد خانہ کی زینت بنا ہوا ہے۔اسے سرد خانے سے نکالنے کیلئے اب تک وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے کوئی بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے، دن بہ دن نظم و ضبط کا معاملہ بدسے بدتر ہوتا جارہا ہے۔دیگر وزارت کی طرح وزارت داخلہ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ، عوام میں سرکار کی مقبولیت، عوام کا اعتماد حاصل کرنے اور کارکردگی کو بہتر طریقے سے پیش کرنے کیلئے یہ وزارت ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔موجودہ سرکار اگر وزارت داخلہ کے محکمہ پر اگر عدم توجہی کا مظاہر ہ جاری رکھتی ہے تو پھر عوام کی ناراضگی میں اضافہ ہوگا اور وزارت داخلہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔
مہاراشٹر کی وزارت داخلہ گزشتہ ۲ دہائیوں سے عوام کے اعتماد کو حاصل کرنے میں اور بہترین کارکردگی پیش کرنے میں سست رفتاری کا مظاہر کررہی ہے، اس طرح کی کارکردگی کا سب سے کمزور دورچھگن بھجبل کا دور تھا، پولس والوں کے تبادلے،پرموشن اور پولس سے وابستہ دیگر مسائل کے تعلق سے چھگن بھجبل نے کیا کِیا، اس کی باتیں پولس انتظامیہ اور پولس افسران میں اب بھی کی جاتی ہیں۔پولس کہا تک چشم پوشی سے کام لے سکتی ہے اور جائداد و املاک بنانے میں وہ اہل اقتدار کے ساتھ پاٹنر بن سکتے ہیں ، یہ بھی اس دور میں ہمیں معلوم ہوا۔اس قبل شیوسینا اور بی جے پی کے دور میں گوپی ناتھ منڈے کے ہاتھوں میں وزارت داخلہ کی باگ ڈور تھی۔اس لحاظ سے فڈنویس اس وزارت کے وارث کہلائے جاسکتے ہیں۔منڈے کے دور میں ریاست بھر میں جو کچھ بھی ہوا وہ ہوا مگربیڑ ضلع میں پولس اور جرائم پیشہ لوگوں میں جودوری تھی ، وہ ختم ہوچکی تھی ، مگر یہ ریاست کے دیگر اضلاع کی خوش قسمتی تھی کہ ایسا معاملہ کہیں اور نظر نہیں آیا۔منڈے کے پاس وزارت داخلہ تھا، اسی دور میں شیوسینا کے رام داس کدم، گجانن کرتیکرکے پاس ریاستی وزارت تھی یعنی ہر سو خوشی کا ماحول تھا۔منڈے کے بعد بھجبل ، اس وقت راشٹر وادی پارٹی کے سپریمو شرد چندر جی پوار ن بھجبل سے اگر وزارت داخلہ واپس نہ لیا ہوتا تو اللہ جانے اورکیاکیا ہوتا ۔اس کے بعد آر آرپاٹل (آبا) کے ہاتھوں میں یہ وزارت داخلہ آئی ۔ بھجبل نے جو کچھ کیا اس کیلئے آر آر پاٹل پہچانے نہیں جاتے ہیں یہ بات بالکل درست ہے ، مگر اسی وجہ سے ابا کا اس محکمہ میں دبدبہ تھا ایسا بھی نہیں ہے۔کئی افسران کی رائے کے مطابق حالات اس کے برعکس تھے، وزراء کہ اس محکمہ میں دبدبہ ہونے کے بجائے آئی پی ایس افسران کا ہی اس وزارت داخلہ پر زیادہ دبدبہ تھا۔26/11کا معاملہ آر آر پاٹل کے دور میں ہوا۔ صرف ان کے ایک بیان سے انھیں اس وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا(بڑے بڑے شہر میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتے ہی رہتی ہیں)کانگریس اور راشٹر وادی کی حکومت دوبارہ اقتدار میں آگئی،پرانے زخم بھرنے کیلئے دوبارہ آر آر پاٹل کو وزار ت داخلہ کی کرسی دی گئی، مگر آر آر پاٹل کی وزارت داخلہ مظبوط پکڑ تھی ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے بعد جو الیکشن ہوئے اس میں بی جے پی اور شیوسینا اقتدار میں آئی ۔پھر وزیر اعلیٰ کے ساتھ ساتھ وزارت داخلہ کی ذمہ داری بھی دیویندر فڈنویس کو سونپی گی ۔
وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس اپنی وزارت داخلہ کی ذمہ داریاں اطمینان بخش طور پر انجام دے رہے ہیں ، موجودہ حالات ایسا کہنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔اس وزارت داخلہ پر شیوسینا کی بھی تنقید برداشت کرنے کی نوبت وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کو آگئی ہے۔اس سے زیادہ بری بات اور کیا ہوسکتی ہے۔کامریڈ پنسارے اور اس سے قبل نریندر دابھولکر کا قتل ہوا،ان دونوں کے قاتلوں کو پکڑنے میں پولس مکمل طورپر ناکام نظر آرہی ہے۔اس کی وجہ یہ کے اس وزارت داخلہ پر وزیر اعلیٰ فڈنویس کی مکمل گرفت ہونا ضروری ہے، مگر افسو س کہ وزیر اعلیٰ فڈنویس کو وزارت داخلہ پر توجہ دینے کیلئے اور اپنی گرفت مظبوط کرنے کیلئے فرصت نہیں ہے۔ جب تک ان کے پاس مہلت اور فرصت نہ ہوگی تو وزارت داخلہ کمزور ہوتی جائے گی اور عوام میں اس کا اعتماد ختم ہوجائے گا۔اگر اس کیلئے فرصت نکالنا ہوتو منترالیہ میں مسلسل دیر تک بیٹھنا ہوگا، وقت دینا ہوگا۔مگر وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس ابھی تک وزیر اعلی کے ذمہ داریوں سے کچھ دیر کیلئے باہر آکر وزارت داخلہ پر اپنی پوری توجہ دینی ہوگی۔وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس چھوٹے سے چھوٹے پروگرا م میں بھی شریک ہوتے ہیں، بھلے ان کی مصروفیت قابل تعریف ہو مگر جب ریاستی انتظامیہ اور نظم و نسق متاثر ہونے کے داہنے پر ہے، اس وقت وزیر اعلیٰ نے اپنی مصروفیت کو بالائے طاق رکھ کر وزارت داخلہ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس کی وجہ یہ کہ وزارت داخلہ میں ذرہ برابر بھی ڈھیل نظر آئے تو اس کے اثرات عوام میں اُبھرنے لگتے ہیں اور سرکار مخالف رائے اور حالات پیدا ہونے لگتے ہیں۔دیویندر فڈنویس کے سرکار پر مکمل طور پر تو نہیں مگر جزوی طور پر وزارت داخلہ کے تعلق سے منفی سوچ اور منفی انداز فکر عوام میں پیدا ہورہا ، اس پر وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کی عدم توجہی حکومت کیلئے مہنگی ثابت ہوسکتی ہے۔

«
»

سعودی عرب میں مسجد توڑی جاسکتی ہے تو بھارت میں کیوں نہیں؟ سبرامنیم سوامی

کیامصرکا فوجی ڈکٹیٹرالسیسی اسرائیل اور روس کا ایجنٹ ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے