ذوالقرنین احمد
قوم کے دلال ملت کے ووٹوں کا سودا کرنے میں لگے ہوئے ہیں الکشن کمیشن کی یہ ذمے داری ہے کہ انتخابات کو صاف شفاف طریقے سے تکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنا اسکواڈ اور انٹی کرپشن بیورو کی گاڑیوں کا ہر گلی محلہ میں گشت کروائے۔ عوام کو چاہیے کہ چند پیسوں میں اپنی گواہی کا سودا نہ کریں گواہی ایک امانت ہے اسکے حق میں کے آپ جس شخص کی گواہی دے رہے ہیں وہ کیسا ہے۔ اور اگر آپ پیسے لے کر کسی نا اہل سیاستدان کی طرف سے گواہی دے رہے تو کل قیامت میں یہ زبردست پکڑ کا زریعہ ہوگا۔ اور جو دلالی کر رہے ہیں ان تمام کا ساتھ ساتھ وبال بھی اس پر ہوگا، گواہی کے پیسہ لینا جائز نہیں ہے۔ نا اپنے رشتہ کی طرف داری کرنا جائز ہے جبکہ وہ غلطی پر ہو۔
چند روپیوں کی خاطر 5 سالوں تک کیلے آپ کو غلام بنا دیا جاتا ہے۔ اور پھر آپ چلاتے ہوئے گلی محلہ میں گھومتے ہیں کہ مسلمانوں کے محلوں کے کام نہیں کیے جاتے ہیں۔ یہ جو پیسے آپ لیتے ہیں۔ یہ ایک تو جائز نہیں ہے اور اسکی حقیقت اگر دیکھا جائے تو 5 سالوں کے دنوں پر اسے تقسیم کیا جائےگا تو چند پیسوں یعنی 0.2379 پیسے ایک دن کے حساب سے ہوتے اور اگر آپ زرا یہاں غور کیجیے آپ کے علاقوں میں اگر ترقیاتی کام نہیں کیے جاتے ہیں یا عام انسانی ضروریات زندگی کے کام نہیں کیے جاتے جو بے حد ضروری ہے۔ تو یاد رکھیے اگر آپکے علاقے میں بیماری پھیلتی ہے۔ تو ایک بچے کے ملیریا کے علاج کیلے 2 ہزار سے زائد رقم لگ جاتی ہے۔ اگر محلے میں ایسی بیماری پھیلتی ہے تو اسکی زد میں کئی بچے بوڑھے جوان خواتین آتے ہیں۔ اسی طرح آپ کے علاقوں میں نلوں کا پانی مہینے میں دو مرتبہ آتا ہے جس میں جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ پینے میں آتا ہے تو اس سے بھی بڑی بیماری کا خدشہ لاحق ہوجاتاہے۔ آپ کے علاقوں کی سڑکوں کے گڑھوں میں بوڑھے اور نوجوان بائک چلاتے ہوئے اکسیڈنٹ ہوجاتا ہے، تو وہ شخص یا تو معزور ہوجاتا ہے یا پھر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کسی گھر میں اگر وہی ایک شخص کمانے والا ہو تو اسکی پوری فیملی بھوک مری کا شکار ہوجاتی ہے۔ اسکی بہنیں یتیم ہونے کی وجہ سے رشتوں سے محروم ہوجاتی ہے اور زندگی تباہ برباد ہوکر ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب آپ اپنے رائے دہی کے حق کو غلط استعمال کرتے ہوئے اسے فروخت کرتے ہیں تو یہ آنے والی نسلوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے مترادف ہے۔ یہ آپکی ذہنی غلامی کا ثبوت ہے۔ کے آپ اپنے حق کو بیچ کر خود کو چند پیسوں کیلے فرقہ پرست پارٹیوں کے سامنے سرینڈر کر رہ ہے۔
اور پھر آپ آنے والے پانچ سالوں تک انکے سامنے بھیگی بلی کی طرح دم دباکر رہتے ہیں۔ تمہارے ہمت ان لیڈروں سے آنکھ ملا کر بات کرنے کی نہیں ہوتی ہے۔ یہ جو ملت کے ووٹوں کا سودا کرنے والے ہیں یہ بڑے ہی بے شرم اور بے غیرت ہے جنہیں آنے والے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں اپنی عزتوں کو محفوظ سمجھ رہے ہے کہ جنکی اپنے مذہب کی خواتین بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہ ایسے افراد ہے جو اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے اور اپنی جھوٹی عزت کو برقرار رکھنے کیلے غیر انسانی اور قدرت کے خلاف قانون سازی کر رہے ہیں۔ جب انکے کالے کرتوتوں کا پردہ فاش ہوتا ہے تو تمھیں لوگ سڑکوں پر آکر انکی پہانسی کیلے احتجاج کرتے ہیں، لیکن آج تمہارے ہاتھ میں ہیں جمہوریت کا مضبوط ہتھیار اپنا رائے دہی کا حق موجود ہے، زرا سوچیئے کے آپ کس کی حمایت میں تھوڑے پیسوں کیلے اپنی عزتوں کو پامال کرنے کیلے ووٹ فروخت کر رہے ہیں۔ کل کو یہی لوگ تمہاری عزتوں پر ہاتھ ڈالنے میں شرم محسوس نہیں کرتے ہیں ۔
ہمارے شریعت میں مداخلت کرنے والے یہی افراد ہے جنکو آپ اپنا مسیحا سمجھ رہے ہیں۔ یہ وہ آستین کے سانپ ہیں جو 70 سالوں سے باری باری سے آپ کو ڈستے آرہے ہیں لیکن مسلمانوں تمہاری غیرت ایمانی کو کیا ہوگیا ہے! افسوس کہ حدث میں آتا ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم آزادی کے بعد سے ان فرقہ پرستوں کے شکار ہوتے آرہے ہیں۔ آج ہمارے پاس مواقع ہے۔ کہ ہم اپنی قیادت کو ابھارنے کیلے اپنا قیمتی ووٹ کا صحیح استعمال کریں۔ گزشتہ دہائیوں میں ہمارے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا، لیکن آج تمہارے پاس بہترین موقع ہے کہ تم اپنی غیرت ایمانی کا ثبوت پیش کریں، جیسا کہ ایک سوراخ سے دور مرتبہ مسلمان نہیں ڈسا جا سکتا تو آپ غور کیجئے اپنے غریباں میں جھانکیں کہ کہی ہم اپنے ایمان کو تو نہیں داؤ پر لگا چکے ہیں۔ زرا اس حدیث کو سنجیدگی سے لیجئے اور اپنا محاسبہ کیجیے، اور سوچئے کہ ہم کیا صرف حکومت کے مردم شماری کے مذہبی خاکے میں ہی صرف مسلمان کے نام سے درج ہے۔ یا ہمارے اندر حقیقت میں ایمان کی زرا سی چنگاری بھی موجود ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس شخص کا ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں۔ یہ ووٹ صرف ایک بٹن دبانے کا نام نہیں ہے یہ امانت ہے۔ کل قیامت میں اسکے بارے میں پوچھ ہوگی۔ کہ تم نے وقت کے فرعون کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے یا لشکر موسی علیہ السلام کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے حق کا کلمہ کہتے ہوئے سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیے تھے۔ اپنی تعداد کو کم نا سمجھیے تمہارے سامنے تمہاری تاریخ ہے۔ اسلامی تاریخ کو یاد کیجیے کہ اللہ حق پرستوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ نا کہ زیادہ تعداد والوں کے ساتھ جو ناحق ظلم و جبر ناانصافی کرنے والے ہو۔
اپنی تاریخ کو پڑھیے تمہیں ظالم و جابر کے سامنے حق کا کلمہ کہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جسے افضل جہد قرار دیا گیا ہے۔ تم اپنی تعداد کو لیکر تشویش میں مبتلا نا ہوجاؤ اللہ کی مدد و نصرت حق و صداقت کے ساتھ ہوتی ہے۔ چاہے تم مختصر کیوں نا ہو۔ جس کیلئے اللہ تعالیٰ پر توکل لازمی ہے۔ آج تمہارے سامنے اپنے مستقبل کو تعمیر کرنے یا تخریب کرنے کا مرحلہ ہے۔ آج تم اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کے بارے میں سوچئیے کس طرح سے گزشتہ پانچ سالوں میں غیر محسوس طریقے سے حکومت وقت نے اسلامی شریعت میں مداخلت کرکے قانون سازی کی ہے۔ اور مزید حملے کرنے کی تیاری میں ہے۔ اور کھلے عام فرقہ پرست عناصر یہ کہتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ ہم ایسا کرلیں گے ویسا کرلیں گے۔ ہمارے
ہمارا ایمان تو اللہ پر ہے یہ جو مکر و فریب کر رہے ہیں یہ کچھ بھی نہیں ہے اللہ بہتر چال چلنے والا ہے۔ اور وہی ہوکر رہے گا جو اللہ چاہے گا۔ لیکن ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کیلے بھی نہیں کہا گیا ہے۔ ہمیں وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے الرٹ رہنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ آج سب کچھ ہمارے سامنے ہے اب فیصلہ آپ کہ ہاتھ میں ہے کہ آپ اپنے ووٹ کا استعمال ظالم فرقہ پرست عناصر کے حق میں کرتے ہیں کہ جنہوں نے ہماری شریعت میں مداخلت کی ہے جو تمہارے مستقبل کو اندھیر اور غلامی میں دھکیلنا چاہتے ہیں یا پھر اپنے حق رائے دہی کا استعمال انصاف پسند اور بے باک نیڈر ملت کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کے حق میں کرتے ہیں۔ اپنے ضمیر کو جھنجھوڑئیے یقین آپ کے دل میں ایمان کی شمع گر جل رہی ہوگی تو آپ اپنے ووٹ کا سودا نہیں کریں گے۔ اور اسکا صحیح استعمال کرتے ہوئے عدل و انصاف کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔
جواب دیں