وزیر اعظم اور نریندر مودی کا جائزہ

ہمارے ایک دوست جو ایک پارٹی کے سرگرم ورکر تھے ایک زمانہ میں یکہ اسٹینڈ پر یکہ کے ایک پرکھڑے ہوئے حکمراں پارٹی کے خلاف تقریر کررہے تھے وہ یکہ تانگہ یونین کے سکریٹری تھے جب جوش میں آئے تو مٹھی لہراکر کہہ دیا کہ یہ حکومت نہیں۔۔۔ کھاتہ ہے اس پر اتنی تالیاں بجیں کہ امین آباد گونج اُٹھا پھر وہ ایم ایل اے ہوئے اور وزیر بھی بن گئے تب ہم نے مذاق میں کہا کہ چاہے جو بن جاؤ اس تقریر پر جتنی تالیاں بج گئی تھیں وہ نصیب نہیں ہوں گی۔
شری نریندر مودی جیسا وزیر اعظم نہیں تھے تب بھی بہرحال وزیر اعلیٰ تھے ہرچند کہ اختیاری چھٹی پر تھے اور تقریباً بھول گئے تھے کہ وہ وزیر اعلیٰ بھی ہیں اس وقت وہ جیسی تقریریں کررہے تھے وہ صرف اس لئے تھیں کہ مجمع جھوم جائے اور تالیاں بجائے ان کا سب سے پسندیدہ جملہ کانگریس مکت بھارت بھرشٹاچار مکت بھارت تھا وہ ہر تقریر میں آدھا وقت کانگریس کی بے ایمانی گنانے پر صرف کرتے تھے اور باقی آدھا وقت جنتا کو دن میں ستارے دکھانے میں۔ اسی کے ساتھ انہوں نے ہندوستان کی سب سے اہم خصوصیت سیکولرازم کا اتنا مذاق اُڑایا اور ہندوؤں کو ہندتو کے خواب دکھائے کہ جتنی سیٹوں کی انہیں امید تھی اس سے زیادہ سیٹیں مل گئیں اور وہ خودمختار وزیر اعظم بن گئے اتنے خودمختار جتنے نہ اٹل جی تھے نہ منموہن سنگھ اور نہ نرسمہاراؤ۔ اس کے بعد توقع تھی کہ اب ان کی تقریروں میں بزرگی اور ذمہ داری آجائے گی اور وہ ایسی بات نہیں کہیں گے کہ یہ حکومت نہیں۔۔۔ کھاتہ ہے۔ لیکن ہمیں اچھا نہیں لگا جب انہوں نے ہریانہ میں اور مہاراشٹر میں گلی گلی جلسے کئے اور ہر ایک کو بے ایمان کہا۔ مہاراشٹر میں انہوں نے شیوسینا کے بانی بال ٹھاکرے کے متعلق کہا کہ وہ دنیا میں نہیں ہیں میں ان کو عقیدت کا نذرانہ اس طرح پیش کروں گا کہ شیوسینا کے خلاف ایک لفظ نہیں کہوں گا لیکن وہ اپنے عہد پر قائم نہیں رہ سکے اور انہوں نے سونیا گاندھی اور شرد پوار کے ساتھ ساتھ شیوسینا کی بھی بے ایمانیاں خوب خوب گنائیں۔ ہریانہ اور مہاراشٹر سے دور رہنے کے باوجود ہم اندازہ کررہے تھے کہ دونوں جگہ بری طرح سے لوٹا جارہا ہے اور مودی صاحب جتنے بھی حملے کررہے ہیں اسے غلط نہیں کہا جاسکتا لیکن انہوں نے جب وہی انداز جھارکھنڈ اور جموں کشمیر میں اپنایا تو اس لئے اچھا نہیں لگا کہ یہ حقیقت نہیں ان کی عادت بن گئی ہے۔ ہم مانے لیتے ہیں کہ وہ ایماندار ہیں اور ان کا مشہور قول کہ نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا۔ وہ نہیں کھاتے ہوں گے لیکن وہ کھانے نہیں دیں گے یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ جھارکھنڈ میں انہوں نے 14 برس میں بننے والی ہر حکومت کو بے ایمان کہا انہوں نے اپنی تقریر میں بار بار کہا کہ اگر بالٹی میں سوراخ ہو تو پانی کیسے روکے گا وہ کہتے رہے کہ دہلی سے روپیہ آتا رہا اور چھید والی بالٹی میں ڈالا جاتا رہا پھر جھارکھنڈ کی ترقی کیسے ہوتی؟ اور حیرت ہے جھارکھنڈ والوں پر انہوں نے اسی وقت یہ کہہ کر ان کا منھ بند کیوں نہیں کیا کہ 14 برس میں دس برس تو بی جے پی کی سرپرستی میں حکومت رہی ہے اس کی ذمہ داری مودی جی کی پارٹی پر کیوں نہیں ہے؟ کشمیر میں بھی انہوں نے ہر تقریر میں اشارہ کیا کہ دہلی سے جو روپیہ آیا وہ فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ یا مفتی سعید اور محبوبہ مفتی کھاگئیں کشمیر کو نہ پانی دیا نہ خوشحالی انہوں نے پوچھا کہ ایسے لوگوں سے نجات چاہتے ہو یا نہیں۔ اور چاہتے ہو تو بی جے پی کی حکومت بنواؤ۔
ہم کشمیر کی یا جھارکھنڈ کی وکالت نہیں کرتے اگر دہلی سے گیا ہوا روپیہ وہاں کھایا گیا تو اور کس صوبہ کی حکومت ہے (گجرات کا معلوم نہیں) جہاں یہ کام نہیں ہورہا اور وہ جو راجیو گاندھی کا جملہ دہراتے ہیں کہ دہلی سے ایک روپیہ جاتا ہے تو گاؤں پہونچتے پہونچتے 15 پیسے کیسے رہ جاتا ہے؟ یہ صرف ان صوبوں کے لئے نہیں تھا جہاں کانگریس کی حکومت تھی وہاں کے لئے بھی تھا جہاں بی جے پی کی تھی یا علاقائی پارٹی کی تھی۔ وزیر اعظم کے پاس پوری رپورٹ آگئی ہوگی کہ ایک چیف انجینئر نوئیڈا کے کنگ جو اَب معطل ہوئے ہیں انہوں نے کتنے ہزار کروڑ روپئے کماکر مایاوتی کو دے دیئے اور اب کتنے اکھلیش یادو کو دے رہے ہیں۔ اسی طرح مدھیہ پردیش جو پندرہ سال سے بی جے پی کی سلطنت ہے اور جس کے چیف منسٹر اڈوانی جی کے چہیتے ہیں ان کی ریاست میں نہ جانے کتنی جگہ چھاپے مارے گئے اور جہاں چھاپہ مارا سیکڑوں کروڑ برآمد ہوئے انتہا یہ ہے کہ کسی چپراسی کے گھر بھی چھاپہ مارا تو وزیر سے زیادہ دولت ہاتھ آئی۔ ہم کوئی مقابلہ کی بات نہیں کرتے لیکن چودھری چرن سنگھ کسی کو نہ بے ایمان کہتے تھے اور نہ اپنے کسی ورکر کو کہنے دیتے تھے۔ 1969 ء میں جب انہوں نے سب کو ٹکٹ دے دیا تو رخصتی جلسے میں اپنے امیدواروں کو خطاب کیا اس موقع پر سب سے زیادہ زور اس پر دیا کہ صنعت کاروں سے مدد مت لینا اور کسی کو بے ایمان مت کہنا اور زیادہ ضرورت پیش آئے تو کہہ دینا کہ کم ایماندار ہے۔ دوسری طرف مودی صاحب ہیں ان کی تقریر ہی بے ایمان سے شروع ہوتی ہے اور ایمانداری پر ختم ہوتی ہے لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ سات مہینے ہوگئے کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا اور جس پر سب سے زیادہ زور دیا تھا کہ جتنے داغی ممبر آئے ہیں ان کے مقدمات کا ایک سال میں فیصلہ کراکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردوں گا۔ اور ابھی دودھ کی دال بھی نہیں اور پانی کا پا بھی نہیں ہوا اور یہی ناکامیاں ہیں جو ابھی تو اُن کو کمزور کررہی ہیں اور پانچ سال میں بالکل ختم کردیں گی اس لئے کہ ایک بھی بھرشٹاچار کا رشوت کایا اور بدعنوانی کا کیس نہیں پکڑا گیا ہے وہ جانتے ہیں کہ زبان چلانے کے علاوہ کچھ نہ کرسکیں گے اسی لئے انہوں نے ہاتھ میں جھاڑو لے لی ہے اور موہن بھاگوت کو گھر واپس لانے کا ٹھیکہ دے دیا ہے۔ اور بھولے امت شاہ کانگریس کے زوال سے خوش ہورہے ہیں اور بس۔

«
»

عرب دنیا پریشانیوں میں گرفتار کیوں؟

لہوکے عطرمیں بسے بچوں کاسفرِ شہادت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے