اُٹھو وگر نہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی

1967-69 ء میں اُترپردیش کے لاکھوں مکانوں پر ہندی اور اُردو میں باہر کے دروازے کی چوکھٹ پر ایک پتلی سی پٹی لگی نظر آتی تھی کہ ’’برائے کرم کانگریس کے لئے ووٹ مانگنے نہ آئے گا۔‘‘ اپنی پوری سیاسی اور صحافتی زندگی میں اس سے پہلے اور اس کے بعد پھر ایسی سلپ کہیں نہیں دیکھی۔ یہ صرف اس وجہ سے ہوا تھا کہ عوام نے برسہابرس کانگریس کو آنکھ بند کرکے ووٹ دیئے تھے اور شر ی چندر بھان گپتا نے لکھنؤ کے ہی ایک جلسہ میں کہہ دیا تھا کہ میں اگر کھمبا میں بھی کانگریس کا ٹکٹ باندھ دوں تو لوگ اسے ہی ووٹ دیں گے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اترپردیش میں ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کرنے کے بعد بھی کانگریس واپس تو کیا آتی تیسرے اور چوتھے نمبر کی لڑائی لڑرہی ہے۔
بات صرف وہی ہے کہ 67 برس کے اندر ہزاروں وزیروں کو سابق وزیر اور ہزاروں ممبروں کو سابق ایم ایل اے لکھتے دیکھنے اور ان کی بے وقعتی اور درگت بنتے دیکھنے کے بعد بھی کسی وزیر یا ایم ایل اے کو یہ خیال نہیں آتا کہ کل ہمارا بھی یہی حال ہوسکتا ہے؟ اور ہم بھی امتیاز حسین کی طرح اپنی M.L.A. کی مہر کو دیکھ دیکھ کر رویا کریں گے۔
ہماری اور ہمارے پریس کی رات دن کی محنت اور مصروفیت کا 1969 ء میں حاصل امتیاز حسین عرف بابو میاں کو ایم ایل اے بنوانے سے زیادہ کانگریس کو ہرانا تھا۔ کامیابی کے بعد ہم نے دوستی کا فرض سمجھتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ دو چار جاننے والوں کو بٹھاکر ایک نقشہ بنوا لیجئے اور پورے حلقہ کو چھ حصوں میں بانٹ کر ہر ایک کے لئے ہفتہ کا ایک دن رکھ دیجئے اور اتوار کے بارے میں اعلان کرادیجئے کہ جو ملنا چاہے وہ اتوار کو گھر آکر مل لے۔ اگر کوئی آئے اور ضرور آئیں گے تو اُن کے لئے پانی اور بہت ہلکی کوئی چیز اور باقی جو چھ دن ہوں اس میں یہ کہ فلاں کے مکان یا اسکول میں جس کسی کو کوئی کام ہو وہ آکر مل لے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہم نے شری رام نرائن ترپاٹھی کو دیکھا تھا جو ڈپٹی اسپیکر تھے۔ ہمارے دوست تھے اور سیکڑوں پوسٹ کارڈ ہندی اور اردو میں ہم سے ہی چھپوایا کرتے تھے وہ ہر جگہ جانے سے پہلے خاص خاص لوگوں کو اطلاع کردیتے تھے کہ میں وہاں آرہا ہوں۔
ہم امتیاز کے لئے کتنے شرمندہ ہوئے یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ لیکن وہ یہی کہتے رہے کہ جب ایک سال رہ جائے گا تو میں رات دن صرف حلقہ میں گھوما کروں گا۔ اور وہ ایک سال کبھی نہ آیا۔ اس کے بعد انہوں نے جو اسمبلی اور شیعہ وقف بورڈ سے کالا دھن نکالا تھا۔ اس کے بل پر دوبار الیکشن لڑا اور دونوں بار دو دو ہزار ووٹ لے کر جوتے سے منھ پیٹتے پیٹتے دنیا سے سدھار گئے۔ اُترپردیش میں ہی کانگریس کے پرمود تیواری صاحب ہیں وہ کیوں ہر بار جیت جاتے ہیں؟ اور سی پی ایم کے جو سوم ناتھ چٹرجی اسپیکر تھے وہ 9 بار پارلیمنٹ کا الیکشن کیسے جیت جاتے تھے؟ یونس سلیم صاحب پہلے گولکنڈہ سے جیتے پھر علی گڑھ سے جیت رہے تھے کہ جن سنگھ نے فساد کراکے ہروا دیا ورنہ وہ دو لاکھ ووٹوں سے جیت جاتے۔ اس کے باوجود انہوں نے ہرایا جو پولنگ پر بیٹھے خود ووٹ کے گڈے ڈالتے رہے۔ صرف اس لئے کہ ان کا گھر ہمیشہ دربار عام رہتا تھا۔
ہم سنبھل میں پیدا ہوئے وہیں کی مٹی میں لوٹے پوٹے۔ گیڑی بھی کھیلی لبّا سنیٹا بھی کھیلا۔ ایک بڑے زمیندار اور تاجر دادا کی شفقت اور محبت سے عیش بھی کئے۔ بڑے ہوئے تو بریلی آئے اور پھر لکھنؤ میں آبسے لیکن سنبھل آج تک نہیں چھوٹا صرف دل میں ہی نہیں انگ انگ میں بسا ہے۔ اسی سنبھل کے ہر مسئلہ میں ہم نے اپنے کو وہیں پایا ہے۔ آج ہم خانہ قید جیسی زندگی گذار رہے ہیں اور یہ پڑھ کر کہ سماجوادی پارٹی کی سائیکل ریلی بھی ایک کے بجائے تین نکلیں۔ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ایسی ہی صورت حال تھی جب 70 فیصدی مسلم آبادی کے سنبھل سے جن سنگھ کے امیدوار جیت کر لکھنؤ آئے تھے اور جب ہم سے ملنے آئے تو ہم نے گلے لگاکر کہا تھا کہ مبارک ہو تم تو ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کے منھ سے سیٹ چھین کر لائے ہو۔
سنبھل میں اقبال محمود صاحب کابینی وزیر ہیں۔ وہ نواب زادہ محمود حسین کے فرزند ہیں جو تین بار ایم ایل اے رہے۔ ہمن نے الیکشن لڑانا یا دیپا سرائے میں سیکھا یا نواب محمود صاحب سے جو ہمارے محترم دوست بھی تھے۔ سب کو سمجھ لینا چاہئے کہ اب وہ زمانہ نہیں ہے جو صرف نسب نامہ کی بنیاد پر لوگ احترام کرتے اور سلام کرتے تھے۔ اب ووٹ دینے کے بعد ہر کوئی یہ انتظار کرتا ہے کہ وہ میرے گھر کتنی بار آئے اور میرا کون سا کام کیا؟
اتفاق کی بات ہے کہ وہ اودھ نامہ جس کی سنبھل میں بھی ایجنسی بن گئی ہے اور اس کے دو نمائندے برابر خبریں بھیج رہے ہیں۔ ان میں دو باتیں کلیجے میں ہر دن پن چبھوتی ہیں کہ بجلی گاؤں کی طرح آرہی ہے اور گرمی قیامت ڈھا رہی ہے۔ ہم سوچا کرتے تھے کہ جس دن ضلع ہوجائے گا اس دن وہ ترقی یافتہ اضلاع میں اپنی ممتاز جگہ بنائے گا اور یہ بھی سوچا کرتے تھے کہ اب ہر ذرا ذراسی بات کے لئے مراد آباد نہیں جانا پڑے گا۔ لیکن ان میں سے کوئی خواب بھی تو پورا نہیں ہوا۔ یہ سن کر دل باغ باغ ہوگیا کہ دیپا سرائے کی گلیاں بھی لکھنؤ سے زیادہ صاف ہیں اور مودی صاحب تو جھاڑو تحریک چلاتے ہی رہے اور دیپا سرائے میں کوڑا نام کی چیز ڈھونڈے نہیں ملتی۔ صرف اسی ایک خبر نے دل میں تقاضہ پیدا کیا کہ ایک بار جاکر اپنی آنکھ سے دیکھ لوں۔ خدا اس آرزو کو پورا کرے۔
اقبال محمود صاحب میرے چھوٹے ہیں۔ ڈاکٹر برق ہمارے ساتھ کے کھیلے ہوئے ہیں۔ دونوں کی دوری دونوں کے لئے زہر قاتل ہے۔ ہم ایک سنبھلی کی حیثیت سے بس اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ سنبھل کو دونوں کاندھا دے کر اوپر اٹھا لیں وہ اگر مودی اور سونیا کی باہمی جنگ جیسی نہ بنائیں اور دونوں بغیر کسی ثالث کے ایک دوسرے کے گلے لگ جائیں تو پھر برسہابرس وہی ہوگا جو وہ کرکے دکھادیں گے۔
عزت احترام اور عوام کی محبت کے مقابلہ میں نہ پارلیمنٹ کی رکنیت ہے نہ وزارت یہ دونوں تو آنی جانی ہیں۔ 1977 ء کو پھر 1980 ء کو یاد کیجئے اور اب 2014 ء کو سامنے رکھئے اور صرف ایک سال کے بعد ہی دہلی کو دیکھئے۔ اتنی بے ثبات چیزوں پر دلوں میں اتنی دوری سنبھل کو کبھی نہیں پنپنے دے گی۔ ہم تو ویسے بھی اپنے خاندان اور آپ جیسے پیاروں سے 60 برس سے دور ہیں لیکن وہ جو ہر وقت آپ کے پاس ہیں اُن کے پسند کو آپ دیکھئے اور نئی نسل کو دیکھئے اور جو ملائم سنگھ صاحب اور رام گوپال صاحب کہہ رہے ہیں اس کی نوبت آنے سے پہلے وزارت کا بستہ شکریہ کے ساتھ واپس کردیجئے۔ اس لئے کہ حافظ محمد ابراہیم اور ڈاکٹر کیکر جیسے نہرو کے چہیتے وزیروں کی 1963 ء میں شکست ہی تھی جس نے کانگریس کو توڑ دیا تھا۔ ہمارے اقبال محمود صاحب ایسے ناموں میں اپنا نام شامل نہ ہونے دیں تو ہم سب کو خوشی ہوگی۔

«
»

کیا حق ہے ہمیں آزادی منانے کا

بیٹی‘ اپنی اور پرائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے