اس سنکلپ سبھا کو روکنے کے لئے ریاستی حکومت کی کوششوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے جہاں میڈیا کے نمائندوں تک کا داخلہ ممنوع تھا وہاں وی ایچ پی کے کارکنان نہ صرف پہونچے بلکہ انہوں نے رام مندر کی تعمیر کا سنکلپ (عہد) بھی لیا۔ اس سے اگر وی ایچ پی کی دیدہ دلیری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے تو ہیں ریاستی حکومت کی بے بسی بھی مترشح ہوتی ہے۔ لیکن یہاں سوال حکومت کی پابندی کے باوجود سنکلپ سبھا کا انعقاد کرنے یا نہ کرنے کا نہیں ہے ، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس سنکلپ سبھا کی بظاہر ناکامی کے حوالے سے مغربی یوپی کی طرح اس بار مشرقی یوپی میں فرقہ پرستی کی لہر پیدا کرکے آئندہ کچھ دنوں میں مشرقی اترپردیش میں کوئی اور مظفر نگر دہرایا جائے گا؟
یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ 25؍اگست2013کو اسی وی ایچ پی ودیگر سنگھی تنظیموں نے ایودھیا میں 84کوسی پریکرما کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس پر بھی حکومت نے اسی طرح پابندی عائدکردی تھی جس طرح اِس سنکلپ سبھا پر عائد کی تھی۔ اس وقت وی ایچ پی کے پروین توگاڑیا کے سمیت کئی بڑے سنگھی لیڈران کو گرفتار بھی کیا تھا۔ اس 84کوسی پریکرما مہم کے دوران وی ایچ پی کے سربراہان نے وزیراعلی اترپردیش سے ملاقات کرکے سماج وادی سے ایودھیامیں رام مندر کی تعمیر میں مدد کرنے کی گزارش کی تھی ۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے پریکرما پر عائد پابندی کا سہارا لے کر وی ایچ پی نے پوری ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے کے طور پر مظفر نگر، شاملی ، باغپت ودیگر اضلاع میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات تھے۔ اس وقت وی ایچ پی کے جن لیڈران کو گرفتار کیا گیا تھا انہوں نے پریکرماکی ناکامی کا ٹھیکرا حکومت کے سر پھوڑتے ہوئے اسے ہندو مخالف قرار دیا تھااور اسی وقت سے وہ فرقہ پرستی پھیلانے میں مصروف ہوگئے تھے۔وی ایچ پی کے سربراہ اشوک سنگھل نے 25اگست 2013کو ہی اعلان کردیا تھا کہ ہم سماج وادی حکومت کے خلاف سڑکوں پر اتریں گے ۔ اپنے بیان کے مطابق یہ لوگ سڑکوں پر اترے بھی ، حکومت کو چیلنج بھی کیا اورمظفر نگر واطراف کے اضلاع میں 48سے 50بے قصور مسلمانوں کی جانیں لے لیں۔
اس بار کے سنکلپ یاترا یا سبھا کے انعقاد کے پیچھے کے مقصاصد بھی اسی 84کوسی پریکرما جیسے ہی ہیں جس کا مقصد ہندو ووٹ بینک کو بی جے پی کے حق میں ہموار کرنا تھا ۔ہم یہاں یہ بات واضح کرتے چلیں کہ ہندو ووٹ بینک کو اپنے حق میں ہمورا کرنے کے لئے فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات بی جے پی کا آزمودہ طریقۂ کار ہے ۔ گجرات میں مودی کی سرکاری دہشت گردی سے منافع کشید کرنے کے بعد سنگھ و بی جے پی کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں اوریہ وہی یہی طریقۂ کار پورے ملک میں دہرانے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ مغربی اترپردیش میں اسی طریقۂ کار کی بناء پر سنگھی اپنے آپ کو فاتح تصور کرتے ہیں جہاں کا سیاسی رجحان یہ بتاتا ہے کہ بی جے پی پہلے کی بہ نسبت زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ یعنی کہ فسادات کے رتھ پر سوار ہوکر بی جے پی دہلی پہونچنا چاہتی ہے اور اب اس رتھ کے مشرقی اترپردیش سے گزرنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ بات اس لئے بھی کہی جاسکتی ہے کہ وی ایچ پی و بی جے پی کی سنکلپ سبھا پر پابندی کے دوران گورکھپور سے بی جے پی کا ممبر آف پارلیمنٹ یوگی ادتیہ ناتھ کواس کے دیگر21ساتھیوں کے ساتھ گونڈہ سے گرفتار کیا گیا تھا،جس نے حکومت کو انجام بھگتنے کی دھمکی دی ہے۔
مظفر نگر ودیگر اضلاع میں جس طرح ستمبر2013میں جاٹ برادری کے لوگوں نے بی جے پی لیڈران کی قیادت میں جس طرح کی مہاپنچایت کی تھی ، اسی طرح کی مہاپنچایت گورکھپور کے اس ناہنجار ایم پی نے بھی کرنے کااعلان کیا تھا ، مگر حکومت کی بروقت پابندی سے یہ مہاپنچایت نہیں ہوسکی تھی۔ گورکھپور وارانسی ہائی وے کے قریب نوسڑھی میں ہونے والی اس مہاپنچایت میں کئی گاؤں کے عوامی نمائندوں کو شریک ہونے کے لئے دعوت دی گئی تھی ، مگر حکومت کی جانب سے لاء اینڈ آرڈر کے پیشِ نظر اس پر روک لگادی گئی تھی ۔(دیکھئے :آئی بی این خبر، IANS
جواب دیں