اترپردیش میں بھاجپا کادہلی جیسا حشر ہوسکتا ہے

امبیڈکر جینتی پر جہاں ایک طرف پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے سیاسی اسٹیج سے اپنے ’امبیڈکر پریم‘ کا پیغام دینے کی کوشش کی وہیں ریاستی سطح پر بھی امبیڈکر جینتی مناکر دلتوں کو رجھانے کی کوشش کی گئی۔ ابھی چند دن قبل بھاجپا کے ریاستی صدر لکشمی کانت باجپئی و تنظیمی جنرل سکریٹری سنیل بنسل و دیگر لیڈروں نے بابو جگجیون رام کی جینتی کو سمتا دیوس کے طور پر منایا تھا۔ بھاجپا کا یہ ’دلت پریم‘ دراصل 2017 کے یوپی اسمبلی الیکشن کی تیاری کا ایک منصوبہ بند حصہ ہے۔ دلت ووٹوں کو اپنی طرف طرف راغب کرنے سے جہاں ایک طرف بی ایس پی کا چیلنج کمزور ہوگا وہیں بی جے پی کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔
گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں تاریخی جیت حاصل کرنے والی بھاجپا دہلی کے اسمبلی الیکشن میں شرمناک شکست کے بعد نئی حکمت عملی کے تحت کام کر رہی ہے اور اس کا پہلا نشانہ دلت ہیں۔ پارلیمانی الیکشن میں بسپا کو اگرچہ کوئی سیٹ نہیں ملی تھی مگر سیاسی ماہرین اچھی طرح جانتے ہیں کوئی سیٹ نہ ملنے کے باوجود بسپا کو ملے ووٹوں کے فیصد میں کوئی زیادہ کمی نہیں ہوئی تھی۔ بھاجپا کو یوپی میں سپا و بسپا کی مضبوطی کا بخوبی علم ہے اس لئے اس کا پہلا ہدف دلت ووٹ ہیں جن کو اگر وہ اپنی طرف نہ بھی کرسکے تو کم از کم ان کو کنفیوژ کرکے بکھیرنا ضروری سمجھتی ہے۔ دراصل یہ حکمت عملی بھاجپا کی ’مدر باڈی‘ آر ایس ایس کی ہے۔ آر ایس ایس اور وی ایچ پی پہلے سے ہی دلتوں کو جوڑنے کے لئے کوشاں ہیں۔ اب بھاجپا اس سماج کے مہاپرشوں کے ذریعہ دلتوں میں پیٹھ بنانے میں لگ گئی ہے، یہاں تک کہ پارٹی دفتر کی دیواروں پر اب امبیڈکر کے ساتھ ساتھ کانشی رام کی تصویریں بھی نظر آنے لگی ہیں۔ امبیڈکر، پھر کانشی رام اور اب جگجیون رام کو پارٹی اپنا ’دھروہر‘ ثابت کرنا چاہتی ہے۔
دراصل بھاجپا کے سامنے اترپردیش میں اس وقت لڑنے کے تین محاذ ہیں۔ ایک طرف اسے بسپا کے مضبوط دلت ووٹ بینک کو بکھیرنا ہے، دوسری طرف تیزی سے ترقیاتی کام کرا رہی ریاست کی سپا حکومت کو لا اینڈ آرڈر کے معاملہ میں ناکام بتانے کی تشہیر کرنا ہے تو تیسرا محاذ ان ووٹوں کو اپنے ساتھ روکے رکھنے کا ہے جو ’مودی لہر‘ کے نام پر اس کے ساتھ آیا تھا لیکن جیسے جیسے مودی کے انتخابی وعدے کھوکھلے ثابت ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے وہ ووٹ بھی ان سے کھسکتا جا رہا ہے۔
فی الحال بسپا کو کمزور کرنے کے لئے بی جے پی نے دلتوں پر اپنی پوری توجہ مرکوز کردی ہے۔ پارٹی ہائی کمان نے ریاستی قیادت کو ’دلت مہاپرشوں‘ کے سہارے دلتوں کے درمیان جاکر کام کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پارٹی کی ریاستی قیادت کی سرگرمیاں فی الحال دلت مہاپرشوں کی جینتی تقریبات تک ہی محدود نظر آرہی ہیں۔
ریاست میں اس وقت سماجوادی پارٹی کی حکومت ہے جس کے ذریعہ کرائے جا رہے ترقیاتی کاموں کو مخالف پارٹیاں بھی نظر انداز نہیں کر پا رہی ہیں۔ سپا حکومت کا نشانہ ہے کہ 2016 ختم ہوتے ہوتے لکھنؤ میں میٹرو کا آغاز ہوجائے جو اپنے آپ میں ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی معاون 
تنظیموں کے سہارے جگہ جگہ فرقہ وارانہ ماحول خراب کرکے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ یوپی میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال حکومت کے قابو سے باہر ہے۔ اور اس میں بڑی حد تک سچائی بھی ہے کہ اگر نظم و نسق، لاء اینڈ آرڈر پر حکومت کنٹرول کرلے تو 2017 کے الیکشن میں شاید سپا کو اپنی کامیابی کے لئے کوئی محنت ہی نہ کرنا پڑے۔
بھاجپا کا تیسرا بڑا چیلنج خود اپنے ووٹروں کے اعتماد کو بحال رکھنا ہے۔ پارلیمانی الیکشن میں بھاجپا لیڈروں کے ذریعہ بلیک منی واپس لانے اور مہنگائی کم کرنے سمیت کئے گئے بہت سے وعدے عوام کو اب بھی یاد ہیں۔ مرکزی حکومت کے اتنے دن گزرنے کے بعد بھی نہ تو مہنگائی کم ہوئی اور نہ ہی بلیک منی واپس لانے کے سلسلہ میں کوئی قابل ذکر پیش رفت ہوئی۔ رہی سہی کسر گزشتہ دنوں بھاجپا صدر امت شاہ کے اس بیان نے پوری کردی کہ الیکشن کے وقت بھاجپا کے ذریعہ کیا گیا وعدہ محض محاورہ تھا۔ اب ایسی صورت حال میں اپنے ہی ووٹروں کو سنبھال کر رکھنا بھاجپا کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔
بھاجپا کا ایک اور اندرونی چیلنج ہے جو اسمبلی الیکشن میں پارٹی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ چیلنج ہے پارٹی اعلیٰ قیادت کا یوپی کے بڑے لیڈروں پھر بھروسہ نہ کرنا۔ حال ہی میں آفات سماوی سے متاثرہ کسانوں کے آنسو پوچھنے کے لئے دوسری ریاستوں کے وزیروں کو یوپی میں بھیجنے جانے کے بعد عام کارکنوں میں یہ مدعا موضوع گفتگو بن گیا ہے۔ قیاس لگایا جا رہا ہے کہ یوپی کے کچھ بھاجپا لیڈروں کو بھی کہیں لال کرشن اڈوانی کی طرح ’مارگ درشک‘ جیسی ذمہ داری دینے کی تیاری تو نہیں ہے! یہ قیاس یوں ہی نہیں ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ یوپی میں بھاجپا کے کسان لیڈر مانتے جاتے ہیں، انھوں نے مرکزی وزیر زراعت کے طور پر کسانوں کے لئے کئی اسکیمیں بھی شروع کیں، لیکن ان کے یوپی آنے سے دو دن قبل ہی دوسری ریاستوں کے وزیروں کو کسانوں کے آنسو پوچھنے کے لئے بھیجنے سے اس قیاس کو تقویت مل رہی ہے۔ حالانکہ بی جے پی کے ریاستی ترجمان وجے بہادر پاٹھک اسے معمول کی بات بتا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یوپی کے لیڈروں کو بھی دوسری ریاستوں میں بھیجا جاتا ہے۔ لیکن یہ دلیل آسانی سے گلے نہیں اتر رہی ہے۔ گہرائی سے نظر ڈالیں تو اترپردیش سے راج ناتھ سنگھ، کلراج مشرا، اوما بھارتی، سنتوش گنگوار، سنجیو بالیان جیسے چہروں کے وزیر ہوتے ہوئے نتن گڈکری (مہاراشٹر)، ہری بھائی چودھری (گجرات) اور رام کرپال سنگھ (بہار) کو یوپی کے کسانوں کو تسلی دینے کے لئے بھیجنے کے پس پردہ آنے والے دنوں میں اترپردیش میں بھاجپا کی سیاسی حکمت عملی کی آہٹ سنائی دے رہے ہیں۔ دہلی الیکشن میں مقامی لیڈروں کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ بھاجپا دیکھ چکی ہے لیکن اس کے باوجود مودی خیمہ کے غلبہ والی بھاجپا اعلیٰ قیادت شاید کوئی حقیقت پسندانہ فیصلہ کرنے سے فی الحال قاصر ہے۔ بھاجپا میں بااثر مودی خیمہ پورے ہندوستان پر ’گجرات و مہاراشٹر ماڈل‘ نافذ کرنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ’خیمہ ‘پارٹی کے مقامی لیڈروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ دہلی میں بھی اس نے یہی حکمت عملی اپنائی تھی جہاں اسے منہ کی کھانی پڑی تھی، کوئی بعید نہیں یوپی میں بھی اس کا وہی حشر ہو۔

«
»

سرکا بدلی مگر حالات نہیں بدلے!!

یمن کے ’’حوثی‘‘کون ہیں؟؟؟!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے