القدس میں پھر ایک بار محشر بپا ہے،اور ہر بار کی طرح اس بار بھی اسرائیل کی بڑھتی جارحیت اور انسانیت سوز مظالم نے فلسطینیوں کے پہاڑ جیسے حوصلوں کو بلندتر کردیا ہے،اِدھر سے تیر اور اُدھر سے جگر آزمانے کا خونیں منظردیکھ دیکھ کر دل لہو ہوا جاتاہے،آنکھیں اشک بار ہیں اوردست دعا اُس قادر مطلق کی بارگاہ میں بلند ہے؛جس کی مشیت اور قضا و قدر سے کائنات کا نظام قائم ودائم ہے۔فلسطین کے جفاکش نوجوانوں،جاں باز عورتوں اور معصوم بچوں کو دیکھ کر صاف محسوس ہوتا ہے کہ آج بھی امت مسلمہ کی رگوں میں دوڑنے والا خون نہایت سرخ اور ایمانی حرارت سے کھول رہا ہے، وہ اسلامی مقدسات کے تحفظ کے لیے ہربازی کھیل سکتی،اور اپنی قیمتی سے قیمتی متاع کو داؤں پر لگا سکتی ہے۔ یہ ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ مسجد اقصی اور فلسطین پر مسلمانوں کا اولین حق ہے۔ نہ صرف فلسطینی مسلمان؛ بل کہ پور اعالم اسلام اس سے دینی و جذباتی رشتہ رکھتا ہے؛مگراسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودیوں نے اس پر ظالمانہ و غاصبانہ تسلط قائم کررکھا ہے۔فلسطین کا مسئلہ اِک مدت سے اختلافی اورنزاعی بنا ہوا ہے؛جس کی وجہ سے نہ جانے کتنے معصوم بچے تہہ تیغ ہوچکے ہیں،کتنے گھرانے تباہ و برباد ہوگئے ہیں اور کتنوں کی زندگیاں اجڑ کر ویران ہوچکی ہیں۔ایک طرف اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کا ہے، جبکہ رواں نصف صدی کے غاصبانہ قبضے سے قبل تاریخ کے کسی دور میں بھی انہیں حاکمانہ اور فاتحانہ حیثیت میں وہاں رہنا، یا بسنا نصیب نہیں ہوا،جب کہ دوسری طرف مسلمانوں کی اس سے گہری وابستگی ابتدائے اسلام سے ہی ثابت ہے،خانہئ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصی ہے،سرکار دوعالم ﷺنے سفر معراج کا آغاز بھی اسی سرزمین سے فرمایا؛جس میں آپ کو نماز کا تحفہ دیاگیا پھر ابتداء اسلام میں سولہ سترہ ماہ مسلمانوں نے اسی طرف رخ کرکے نمازیں ادا کیں،احادیث میں قصد و ارادے کے ساتھ جن مساجد کے سفر کو بابرکت بتلایا گیا ان میں مسجد اقصی بھی شامل ہے۔ یہ امر مسلمانوں کے لیے باعث ننگ وعارہے کہ ان کا قبلہ اول اوروہ زمین جو برکتوں کا خزانہ تھی آج ان کے ہاتھوں سے چھن چکی ہے۔ پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو عرب اسرائیل جنگ چھڑی،اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم(بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔پھر جون 1967ء میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے اور کسی صلاح الدین ایوبی کا انتظار کررہاہے۔ ”القدس“ایک تعارف: بحر روم کے کنارے شام سے مصر تک پھیلی ہوئی طویل ساحلی آبادی کوفلسطین کہاجاتاہے۔تقریبا27 ہزار مربع کلو میٹر کے رقبہ پر مشتمل یہ سرزمین عرصہ ئدرازتک انبیاء و رسل کا مرکزومرجع اورمسکن ومدفن رہی،اسی بابرکت خطہ ارض میں وہ مقدس شہر بھی واقع ہے جسے قدیم تاریخ میں“ایلیا”، عربی میں“القدس”اور اردو میں“بیت المقدس”کہا جاتا ہے۔ یہ بحر روم سے 52 کلو میٹر، بحر احمر سے 250 کلو میٹر اور بحر مردار سے 22 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ بحر روم سے اس کی اونچائی 750 میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی 1150 میٹر ہے۔ سب سے پہلے یہاں یبوسین آکر آباد ہوئے، ایک روایت ہے کہ اس شہر کو ”سام بن نوح“ نے آکر آباد کیا، 1013 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کو فتح کیا۔(خطط الشام ج:۵،ص:۲۵۲) اس مقدس شہر کی تاریخ ایسی ہنگامہ آرائیوں اور معرکہ خیزیوں سے بھری پڑی ہے جس میں تین آسمانی مذاہب کے مقدس مقامات و آثار پائے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے بیت المقدس تینوں ہی آسمانی مذا ہب اسلام،عیسائیت ا ور یہودیت کے نزدیک قابل احترام اور لائق تعظیم ہے،اہل اسلام کے نزدیک اس لیے کہ یہیں مسجد اقصی ہے جو ان کا قبلہ اول اور جائے معراج ہے۔عیسائیوں کے نزد یک اس وجہ سے کہ اسی میں ان کا سب سے مقدس چرچ“کنیسہ قیامہ“ہے جس میں بقول ان کے حضرت عیسی علی نبینا و علیہ السلام مصلوب و مدفون ہوئے اور جس پر قبضہ کے لیے متحدہ یورپ نے طویل خوں ریز صلیبی جنگیں لڑیں اور بالآخر بطل جلیل سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شرم ناک اور تباہ کن شکست سے دوچار ہوناپڑا۔ اور یہودیوں کے نزدیک اس بنا پر کہ یہیں پر کبھی وہ ہیکل سلیمانی تھا جس کی تباہی کو یاد کر کے وہ آج بھی مسجد اقصی کی مغربی دیوار کے پاس گریہ و زاری کرتے ہیں اور اس کی تعمیر نو کو عظیم تر اسرائیل کی خشت اول گردانتے ہیں۔ اسی متبرک سرزمین کی با بت اس کے صحیح حق داروں اور اس کے جھوٹے دعویداروں کے درمیان صدیوں سے مستقل آویزش اورمسلسل کشمکش جاری ہے،طاغوتی قوتیں شب و روز اسے نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو اپنا آلہئ کار بنا کر اسلام کی مقدس ترین مسجد”مسجد اقصی”کو نذر آتش کیا؛جس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ بتدریج اس مقدس سرزمین سے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیا جائے۔یہی وہ باعظمت ارض مقدس ہے؛جس کا تعارف کرواتے ہوئے فاتح اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے سپاہیوں سے کہتے ہیں: "اے میرے رفیقو!16ہجری کا ربیع الاول یاد کرو جب عمر و بن العاص اور ان کے ساتھیوں نے بیت المقدس کو کفار سے آزاد کرایا تھا۔ حضرت عمر ؓ اس وقت خلیفہ تھے، وہ بیت المقدس گئے،حضرت بلال ؓ ان کے ساتھ تھے، حضرت بلال ؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے خاموش ہوئے تھے کہ لوگ ان کی پر سوز آواز کو ترس گئے تھے، انہوں نے اذان دینی چھوڑ دی تھی؛ لیکن مسجد اقصیٰ میں آکر حضرت عمر ؓ نے انہیں کہا کہ بلا ل! مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے درودیوار نے بڑی لمبی مدت سے اذان نہیں سنی۔ آزادی کی پہلی اذان تم نہ دو گے؟ حضور اکرم ﷺکی وفات کے بعد پہلی بار حضرت بلا ل ؓ نے اذان دی، اور جب انہوں نے کہا کہ اشھد ان محمد رسول اللہ۔تو مسجد اقصیٰ میں سب کی دھا ڑیں نکل گئی تھیں "۔ اقصی کی فریاد: 1…… میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین کو خالق ارض وسماء نے بابرکت قرار دیا ہے(سورۃ الاسراء) 2…… میں وہ مسجد ہوں جس کو دنیا کی افضل ترین قوم نے اپنا قبلہ اول بنایاہے۔(بخاری ومسلم) 3…… میں وہ مسجد ہوں جہاں سے حضور پاک ﷺکو معراج کرایا گیا تھا۔(مسلم) 4…… میں وہ مسجد ہوں جہاں پر خاتم النبیین محمد ﷺکی اقتداء میں جملہ انبیائے کرام نے نماز ادا فرمائی۔ (مسنداحمد) 5…… میں وہ مسجد ہوں جس میں ایک نمازادا کرنے سے دو سو پچاس نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔(حاکم، بیہقی) 6…… میں وہ مسجد ہوں جس میں دجال کا داخلہ ممنوع ہے۔(مسنداحمد) 7…… میں وہ مسجد ہوں جسے دنیا کی دوسری مسجدہونے کا شرف حاصل ہے۔(بخاری،مسلم) 8…… میں وہ مسجد ہوں جس کا شمار ان تین مساجد میں ہوتا ہے جس کی طرف بہ غرض عبادت کوچ کرنا جائز ہے۔ (بخاری ومسلم) 9…… میں وہ مسجد ہوں کہ جو کوئی بھی اس میں نماز پڑھنے کے ارادہ سے آئے وہ (گناہوں سے دھلاہوا)ایسے لوٹتاہے گویاکہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے۔(ابن ماجہ) 10…… میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُتریں گے اور وہیں پر دجال کوبھی قتل کریں گے۔(ترمذی) 11…… میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین بروزقیامت ارض محشر ہوگی۔(احمد،ابوداؤد) آج مجھے نسل پرست صہیونیوں نے اپنایرغمال بنارکھاہے!آئے دن میرے تقدس کو پامال جارہا ہے! میری آبادکاری کے راستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔بلکہ مجھے مسمار کرنے کی منظم پالیسی بنالی گئی ہے!میرے دامن میں مسلسل سرنگ کھودے جارہے ہیں؛ تاکہ میں بے بس ہوکر دم توڑدوں اور میری جگہ ہیکل سلیمانی نام کا شیطانی بت نصب کردیا جائے۔ المختصر: فلسطین کی تباہی صرف اسی کی تباہی نہیں ہے؛بل کہ عالم عرب اور ملت اسلامیہ کی تباہی کا پہلا قدم ہے،جو صہیونیوں نے زبردست منصوبہ بندی اور مضبوط حکمت عملی کے بعد اٹھایا ہے۔امام حسن البناء شہید نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ”بھائیو!اس وقت فلسطینی بھائی میدان میں بھوک پیاس برداشت کررہے ہیں،کوشش اور جدو جہد میں لگے ہوئے ہیں،جیلوں میں ٹھونسے جارہے ہیں،اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں اور ابھی تک سب سے بابرکت میدان میں بہترین کارنامے انجام دے رہے ہیں،انہوں نے اللہ اور تاریخ کے آگے اپنا عذر پیش کردیا ہے،اگر یہ تحریک کم زور پڑجائے تو تم اس کی کم زوری کے ذمہ دار ہوجاؤگے اور یہ ایسا جرم ہے جس کا للہ سخت ترین مواخذہ کرے گا اورتاریخ اس کو اپنے سیاہ ترین صفحات میں ریکارڈ کرے گی۔چناں چہ اس موقع کو غنیمت جانو اور اپنے بھائیوں کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو اداکرو،اللہ تمہارے ساتھ ہے،وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔“
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں