ان کی ادبی خدمات ان کے اسی محسوسات کا نتیجہ ہے۔ ان کی مختلف النوع اصناف ادب پر خامہ فرسائی اس امر کی دلیل ہے، جن میں بعض مضامین طویل ہیں اور بعض مختصر۔ ادبی تبصرے بھی میں نے دیکھا ہے۔ ان کے طویل تبصروں میں مضمون کا عکس صاف نمایاں ہے، لیکن ان کے مختصر تبصرے بھی کتاب کی کلیت اور کمیت کا بھرپور احاطہ کرتے ہیں۔
میدان صحافت کی طرف رجحان منصور خوشتر کی صحافت بالخصوص اردو صحافت کی اس منزل کی تلاش و جستجو کی طرف صاف اشارہ ہے جس اردو صحافت کی داستان بہت طویل ہے۔مختلف ادوار میں اردو صحافت نے انسانی شعور کو نہ صرف یہ کہ مہمیز کیا بلکہ اسے مہمیز کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اردو صحافت نے ہمیشہ تعمیری جدوجہد کی اور ملک کے مفادات کے تحفظ کے لئے کوشش کی ہے۔ جنگ آزادی کے دوران بھی اردو صحافت کا رول نہایت تعمیری اور مثبت رہا ہے۔ حب الوطنی کا جذبہ اور قومی غیرت اور حمیت کو للکارنے کے لئے اردو صحافت ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اردو صحافت نہ ہوتی تو شاید ہمارا ملک ہندوستان بھی آزاد نہ ہوپاتا کیوں کہ اسی زبان کی صحافت میں عوام میں جذبہ شہادت کو بیدار کیا اور استعماریت مخالف جذبہ کو زندہ رکھا۔ اردو صحافت نے ہی ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا ایسا نعرہ دیا جو ہندوستان کے طول و ارض میں پھیل کر تمام ہندوستانیوں کی دل کی آواز بنا اور آزادی کا نعرہ لگا۔ بلا شبہ ملک کی تعمیر اور تشکیل میں اردو صحافت کا نہایت اہم کردار رہا ہے۔
خبریں جاننا، کتابیں پڑھنا خوشتر کا شوق ہے اور مطالعے کے بعد ان پر خامہ فرسائی ان کی عادت ۔ کسی بھی خبر اور کتاب کے تعلق سے رائے زنی کے معاملے میں وہ خاصے بے باک ہیں، اس لئے وہ دو ٹوک رائے کے اظہار میں شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں، لیکن مرعوب نہیں۔ ان کے انہیں خصوصیات کو دیکھتے اور بھانپتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ شاعر و ادیب پروفیسر عبدالمان طرزی نے منصور خوشتر کو میدان صحافت میں کود پڑنے کی صلاح دی۔ اس بات کی تصدیق ان کے والد محترم نے بھی ایک ملاقات میں کی ہے۔ آج جس طرح مختلف خبروں سے کام کی باتوں کو نکال کر عوام و خواص کے درمیان پروس رہے ہیں بلا شبہ یہ بہت مشکل امر ہے۔ا ور ایک تجربہ کار اور حساس صحافی ہی اس کا م کو بحسن خوبی انجام دے سکتا ہے۔ میں یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ وہ آج میدانِ صحافت کے ایک بہادر شہسوار ہیں۔
منصور خوشتر ویسے تو زمانہ طالب علمی ہی سے صحافت کے میدان میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ لیکن ۲۰۰۱ میں انہوں نے باضابطہ صحافتی زندگی کی شروعات کی۔ صبح و شام، رات و دن، ماہ و سال پوری لگن، محنت اور دیانت داری کے ساتھ خبروں کو جمع کر کے قارئین تک موثر انداز میں پروستے رہے۔ہنستی ہوئی آنکھوں کے اندر چھپے غم کو پہلے پڑھا لیکن لکھا بعد میں ، عوامی زخم کی گہرائیوں میں جھانکا اور ناپا، قریہ قریہ جاکر لوگوں کے دکھ، درد اور گھٹن کو دیکھا اور اسی انداز میں محسوس کیا اور پھر اس کو خبر کی شکل دی ۔اپنی صحافتی، غیر جانبداری اور حساس مزاج کی وجہ سے ہی وہ اپنے اور پرائے سب کی ضرورت بن گئے۔ صحافتی دنیا میں دلچسپی کا یہ عالم اور جنون کہ انہوں نے ۲۰۰۴ میں ہندی رسالہ ’’دربھنگہ خبر‘‘؛ ۲۰۰۵ میں اردو رسالہ ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘؛ ۲۰۱۰ء میں مقامی سطح پر لوکل نیوز چینل ’’سیون آئی‘‘ کی بھی شروعات بے خوف و خطر کر ڈالی۔ اپنی صحافتی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لئے ہی ۲۰۰۴ء میں پٹنہ سے شائع ریاست کا کثیر الاشاعت روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ دربھنگہ کے ریپورٹر (نمائندہ)کی حیثیت سے وابستہ ہو گئے اور اپنی سخت محنت، سچی لگن، دیانت دارانہ کاوش اور غیر جانبدارانہ صحافتی خدمات کی بدولت صرف چار سال کی قلیل صحافتی سفر طے کر کے ۲۰۰۸ء میں وہ مقبول عام روزنامہ قومی تنظیم کے دربھنگہ زون کے بیوروچیف کے عہدہ پر قابض ہوگئے۔ منصور خوشتر ایک نوجوان صحافی ہیں اور ان میں کچھ کر گزرنے کا عزم بدرجہ اتم موجود ہے۔
ڈاکٹر منصور خوشتر کا تعلق ہندوستان کی ریاست بہار کا معروف خطہ متھلانچل کا گڑھ مانے جانے والا مردم خیز ضلع دربھنگہ (جو علم و ادب اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہے) سے ہے۔ اس سرزمین کو بجا طور پر ایسے نابغہ روزگار ادیب و شاعر پر فخر ہے کہ اس نے عالمی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مادر وطن کا نام روشن کیا اور اپنی خدا داد ذہانت اور مخفی صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ ایسے ہی نابغوں میں شاداں فاروقی، مظہر امام، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی ، پروفیسر لطف الرحمن اور پروفیسر منصور عمر کا نام قابل ذکرہے اور آج بھی پروفیسر عبدالمنان طرزیؔ ، رہبر چندن پٹویؔ ، اویس احمد دوراںؔ ، حیدرؔ وارثی ادب اور شاعری کی دنیا میں پرورش لوح و قلم کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر منصور خوشتر دربھنگہ۔ لہریا سرائے شاہراہ پر پرانی منصفی محلہ (خان ڈیوڑھی کے بغل میں) ہے جہاں ۳؍مارچ ۱۹۸۶ء کو ایک خوشحال گھرانے میں پہلی بار اس آب وگل میں سانس لی۔ ان کے والدماسٹر شوکت علی ایک تجربہ کار، ذی شعور، متقی پرہیزگار، دردمند اور دعوت و تبلیغ سے جڑے انسان ہیں۔ مذہبی اور دنیاوی امور میں اعتدال ان کی وہ خوبی ہے جن کی وجہ سے ان کے والد محترم خاص و عام میں مقبول ہیں۔
ان کے والد کے مطابق منصور خوشتر بچپن ہی سے ذہین اور پر عزم ہے اور پڑھنے لکھنے کی طرف بہت للک رہی ہے۔ چونکہ ابتدائی تربیت ایک اچھے اور پاکیزہ ماحول میں ہوئی اس لئے شہر کی رنگینیوں کا ان پر کوئی منفی ا ثر نہیں پڑا۔ ان کا تعلق چونکہ ایک علمی خانوادے سے ہے اس لئے ابتدائی تعلیم گھر میں دینی اور مذہبی ماحول میں ہوئی۔ پھر مقامی مدرسہ اور اسکول میں پڑھا۔ سکنڈری تعلیم کے لئے شہر کا معروف تعلیمی ادارہ ضلع ہائی اسکول میں داخل ہوئے اور وہاں سے ۲۰۰۱ میں میٹرک پاس کیا اور دربھنگہ کے ملت کالج سے ۲۰۰۳ ء میں سائنس سے اچھے نمبر سے انٹرمیڈیٹ کیا ۔ ۲۰۰۶ء میں دربھنگہ کا جیوتی ریسرچ اسپتال سے فیزیوتھراپی کی سند حاصل کی۔ یہیں سے ان کے زندگی میں ایک ٹرننگ پوائنٹ آیا اور ان میں ادبی خدمات کے جذبے ابھرنے لگے۔ بالآخر انہوں نے سائنسی موضوعات کو خیر باد کہا اور آرٹس کے موضوعات کو سینے سے لگایا۔ ملت کالج، للت نارائن متھلا یونیورسٹی (دربھنگہ) کا ایک معروف کنسٹی چیوئنٹ اقلیتی ادارہ ہے سے ۲۰۰۸ء میں گریجویشن اردو آنرس کی سند حاصل کی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کے فاصلاتی نظام تعلیم (Distance Mode of Leaing)کے تحت۲۰۱۳ء میں پوسٹ گریجوئٹ اردو کیا اور اچھے مقام پر رہے۔
ڈاکٹر منصور خوشتر بنیادی طور پر صحافی ہیں۔ سچ کہوں تو مجھے یہ کہنا چاہئے کہ وہ ایک مشہور و معروف صحافی ہیں اور یہ کہ ایک طویل عرصے سے روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ سے وابستہ ہیں اورہفتہ وار ایڈیشن کے انچارج بھی ہیں۔ ان کے مضامین ملکی اور غیر ملکی سطح کے اخبارات، روزنامے، ہفتہ وار، مجلات اوسر رسائل کی زینت بنتے رہے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے مضامین لوگ بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ حال کے دنوں میں ان کا رجحان شعروشاعری کی طرف ہوا اور شعرو شاعری کا ان پر ایسا جنون چڑھا کہ اب منصور خوشتر اخباروں رسالوں اور کتابوں کے شاعر نہیں بلکہ عوام اور مشاعروں کے باکمال شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ان کی یہ سادہ بیانی، سلاست حلاوت کا ہی نتیجہ ہے کہ بڑے بڑے شعراء کی موجودگی میں بھی اپنے کلام کی بدولت اپنی موجودگی درج کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
منصور خوشتر کو پروفیسر عبدالمنان طرزی ؔ سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ ان کے شعور کی تربیت میں طرزیؔ صاحب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ویسے وہ استاد الشعراء رہبر چندن پٹویؔ ، اویس احمد دوراںؔ سے بھی اصلاح لیتے رہتے ہیں۔ لیکن اس بھولے بھالے، ہونہار اور سرتاپا نزاکت غزل کے شاعرخوشطر کو طرزیؔ صاحب کی شفقت و محبت اور صحبت و تربیت نے صوبہ بہار کاخوش گو، خوش فکر اور پر مغز شاعر بنا دیا۔
منصور خوشتر ہمارے عہد کے نو عمر شاعروں میں آج اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک تو اپنی تہذیبی روایت کا عکس نظر آتا ہے۔ دوسری طرف نئی تہذیب کی بخشی ہوئی پامالی اقدار کا نوحہ بھی سنائی دیتا ہے۔ عصری غزل کی تمام تر روایات، آب و تاب اور بھرپور توانائی کے ساتھ ان کے شعری اسلوب جلوہ افروز ہوتی ہیں۔
منصور خوشتر کی شاعری میں متنوع خیالات ہیں، ان کوعصری تقاضوں کا شعور حاصل ہے۔ ان کی شاعری کسی ازم کی تابع نہیں ہے۔ منصور خوشتر نے اپنے ذہن کو آزاد سوچ دی ہے۔ اس سوچ کا نتیجہ ہے کہ ان کے موضوعات اور معانی میں بلند حوصلگی، شعور اور فنی رچاؤ کی کارفرمائی نظرآتی ہے۔ ان کے یہاں الفاظ کی بازیگری نہیں ہے۔بلکہ کلام کی سلاست، زبان کی روانی، سادگی اور پرکاری ہے، جو ان کی شاعری میں یکساں طور پر نظر آتی ہے۔
منصور خوشتر کے شعری مزاج میں توازن ہے جو ابتدا سے آخیر تک برقرار رہتا ہے، اگر کسی شاعر کو عرفان ذات و عرفان کائنات حاصل ہو جائے تو زندگی کے تمام طوفان سے آشنا ہوجاتا ہے۔ یہ عمل زندگی کی معراج کا ہوتا ہے۔ منصور خوشتر نے بھی زندگی کے ہر مسئلے کو درون بینی کے ساتھ ساتھ دیکھتے ہیں۔ انہوں نے سماج کا مشاہدہ کیا ہے۔ وہاں خود غرضی اور بے حسی کی دھند بھی دیکھی ہے۔ جسے درج ذیل اشعار میںیوں کہتے ہیں:
توڑنا وہ جانتے ہیں میں بنانا جانتا
میری فنکاری کو ہے سارا زمانہ جانتا
اس سے بڑھ کے ہوگا نا لائق شاید کوئی
باپ کی اپنے کمائی جو اُڑانا جانتا
تم کو آتا ہے گرانا ہی کسی کو منہ کے بل
میں تو بس گرتے ہوؤں کو ہی اٹھانا جانتا
شاعری روح کی غذا بھی ہے اور آواز بھی۔ شاعر ایک فنکار ہوتا ہے اور ہر فنکار بے حد حساس ہوتا ہے۔ ایک عام آدمی جہاں کسی واقعہ یا حادثہ کو دیکھ کر یا اپنی ذات پر محسوس کر تھوڑی دیر تک اس کا تاثر لے کر پھر سب کچھ بھول جاتا ہے، وہاں ایک فنکار اس واقعہ کا اور اپنے مشاہدے کا بہت گہرا اثر لیتا ہے اور اس کے دل میں ایک کانٹا سا اٹک کے رہ جاتا ہے جس کی چبھن اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک یہ تاثرات و احساسات صفحۂ قرطاس پر نہ بکھیر دیئے جائیں۔ یہی ایک بڑا فرق ہے ایک عام آدمی اور ایک فنکار میں، جب ایک مشاق فنکار اپنے ان شدید جذبات کو الفاظ کا جامہ پہناتا ہے یا کسی دوسرے واسطے سے انہیں بیان کرتا ہے تو سننے یا دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ اس کے اپنے دل کی بات ہو۔ یہ باتیں منصور خوشتر جیسے فنکار پر صادق آتا ہے۔ منصور خوشتر کا کمال یہ ہے کہ یہ صحافت کی دنیا میں مصروف رہ کر شعر و ادب کے گیسو سنوارنے اور اردو زبان و ادب کی ترقی و توسیع کے لئے ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔
منصور خوشتر کی شاعری غم جاناں اور غم دوراں کا حسین امتزاج ہے۔ انہوں نے عشق و محبت، محبوب کا حسن، محبوب کی ادائیں، ہجر کا کرب، جنہیں غزل کی روح سے تعبیر کیا جاتا ہے، کو رومانیت کی چاشنی میں یوں ڈبو کر پیش کیا ہے کہ قاری تھوڑی دیر کے لئے رنج و محن بھول جاتا ہے اور اس شعر کی دنیا میں گم ہوجاتا ہے
میرے گھر جو آپ ملنے آ گئے
اک بڑا مجھ پر کرم فرما گئے
پڑھ گئے اپنی غزل کے شعر بھی
جن میں اپنا مدعا بتلا گئے
آپ نے میری طرف دیکھا نہیں
مصلحت محفل میں کیا دکھلا گئے
منصور خوشتر ایک خوش فکر شاعر ہونے کے ساتھ خوش مزاج بھی ہیں۔ا نہیں متعدد جگہوں کے مشاعروں میں مدعو کیا جاتا ہے اور سامعین و شائقین بغور ان کا کلام سنتے ہیں۔حالانکہ منصور خوشتر مشاعروں میں دھیمے سروں اور سادہ انداز اور تحت میں کلام سناتے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی ترنم سے پڑھ کر سامعین سے دادوتحسین حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کیونکہ ان کے اشعارہی ان پر دادوتحسین کے ڈونگرے برسوادیتے ہیں اور وہ اس کے مستحق بھی ہیں۔ ان کا یہ شعر
خود کو جس میں کھو دیا میں نے وہ لمحہ اور تھا
کچھ الگ طرز بیاں تھا، سخت لہجہ اور تھا
اس نے دشمن کو بھی دی میرے برابر کی جگہ
سامنا کرتا وہ کیسے میرا رتبہ اور تھا
وہ اپنی آواز کے جادو سے ہی سامعین کے دلوں کو جیت لیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ منصور خوشتر ہر دلعزیز شاعر اور فنکار ہیں اور دنیائے شعروادب میں بھی انہیں نمایاں مقام حاصل ہے۔ انہوں نے دنیائے شعروسخن میں اپنی انفرادیت اپنے مخصوص انداز بیاں پر قائم کی ہے۔ ان کے کلام میں تازگی اور شگفتگی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کے اشعارقارئین کے دل و دماغ پر براہ راست اثر ڈالتے ہیں۔
منصور خوشتر ہر موضوع کو اپنا موضوع سخن بناتے ہیں۔ زمانے کے نشیب و فراز سے یہ اچھی طرح واقف ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ جس موضوع پر شعر کہتے ہیں تو پوری توجہ کے ساتھ منفرد اور اچھوتے انداز میں اپنی بات دوسروں تک پہچانے کا ہنر اچھی طرح جانتے ہیں۔ نئی نئی تراکیب، نئے نئے استعارے اور نئی نئی تشبیہات سے ان کے اشعار مزین نظر آتے ہیں۔ زبان و بیان سادہ اور سلیس بلکہ اس درجہ سہل کہ کم سے کم پڑھا قاری بھی ان کے اشعار کے مفاہیم بآسانی سمجھ جاتا ہے اور یہی ان کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ یہی خوبی منصور خوشتر کو اپنے ہم عصر شعراء سے ہٹ کر ایک الگ پہچان عطا کرتی ہے۔
ہم مقام اپنا دکھائیں گے تجھے
حیثیت تیری بتائیں گے تجھے
جس کا نشہ بھی نہیں اترے کبھی
ساقی وہ ہم ہی پلائیں گے تجھے
جلد وہ دن آئے کر ایسی دعاء
گدگدائیں گے، ہنسائیں گے تجھے
چاند پر ہم بھی خریدیں گے جگہ
گھر بنائیں گے، بسائیں گے تجھے
جو یہاں لکھی غزل تیرے لئے
چاند پر ہی وہ سنائیں تجھے
چاند کے ہی لوگ ہوں گے مہمان
ہم وہیں دلہن بنائیں گے تجھے
یہ تیرے خوشتر کی خوش فہمی ہے بس
ہم کہاں اے دوست پائیں گے تجھے
منصور خوشتر کی شاعری کے آئینے میں زندگی کے گہرے تجربات اور مشاہدات کے عکس نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں تجربوں کی آنچ میں جل کر اور بھٹی میں تپ کر کہتے ہیں۔ ان کا یہ اشعار خود اس بات کی شہادت پیش کررہا ہے
سنتے ہیں کہ گردش میں تھے جام بہت
میخانے سے لوٹے تشنہ کام بہت
اس کوچے میں سوچ سمجھ کر جائے گا
جان کے دشمن بن جاتے گلفام بہت
شہر وفا میں عشق رہا ہے کم قیمت
حسن کا لگتا ہر موسم میں دام بہت
میخانے کی راہ سے مسجد مت جاؤ
ہو جاؤگے خوشتر تم بدنام بہت
اصناف سخن میں غزل وہ واحد صنف سخن ہے جو ناقدانہ عتاب کا شکار ہوئی۔ کلیم الدین احمد نے اسے نیم وحشی صنف سخن کے نام سے پکارااور عظمت اﷲ خاں نے اسے گردن ماردینے، کی بات سے تعبیر کیا ہے، مگر اس لعن طعن اور عتاب کے باوجود غزل ہی کووہ شرف حاصل ہے کہ جوں جوں اس کی بیخ کنی کر نے کی کوشش کی گئی، اتنے ہی اس پر نئے نئے برگ و بار آنے شروع ہوئے اور اس کی جڑیں مستحکم ہوتی گئیں۔اس کی محبوبیت و مقبولیت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ غزل اردو شاعری کی آبرو بن گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل میں جو چاشنی، حلاوت، شگفتگی اور سوز و ساز موجود ہے، وہ کہیں او ر مشکل سے ہی ملیں گی۔ غزل منصور خوشتر کی محبوب صنفِ سخن ہے اور ان کی زندگی کی بہت سی حقیقتوں کے اظہار کا وسیلہ بھی۔ غزل ان کے تجربات اور مشاہدات کے بیان کا ذریعہ بھی ہے۔ انہوں نے حقائق پر پردہ نہیں ڈالا بلکہ بے باکی سے اظہار کردیا ہے۔ مثال کے طور پر ان کا یہ اشعار پیش خدمت ہے
آپ جب مسکرائے غزل ہو گئی
کچھ قریب اور آئے غزل ہو گئی
توڑ کر اپنے گلشن سے تازہ گلاب
میری خاطر وہ لائے غزل ہو گئی
لب پہ فریاد تو دل میں سو اضطراب
اشک آنکھوں میں آئے غزل ہوگئی
وائے محرومیاں، ہائے مجبوریاں
درد دل میں دبائے غزل ہوگئی
میں نے پوچھا محبت انہیں مجھ سے ہے؟
چپ رہے، مسکرائے غزل ہوگئی
جب بھی انگڑائی توبہ شکن کوئی لے
ایک فتنہ اٹھائے غزل ہوگئی
ڈاکٹر منصور خوشتر کے شاعرانہ بیان میں نئی تازگی، شگفتگی اور نیا احساس بدرجہ اتم موجود ہے۔کہیں عروضی جھول نہیں۔ الفاظ بھی عام فہم، سادہ، سستہ، سلیس اور سامنے کے معلوم ہوتے ہیں لیکن سب کے سب کئی معنوی سطح رکھتے ہیں اور یہ ایک بڑی بات ہے۔
تھا جو اک کافر مسلماں ہوگیا
پل میں ویرانہ گلستاں ہوگیا
چھپ کے پی تھی کل جہاں پر شیخ نے
اس جگہ قائم خمستاں ہوگیا
ہے تغافل ہی کا تیرے فیض کچھ
رفتہ رفتہ میں غزل خواں ہوگیا
بے وفا سے عشق کا انجام ہے
یہ جو خوشتر خون ارماں ہوگیا
درحقیقت منصور خوشتر میں فنکارانہ شعور کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ اپنی شاعری کو انہوں نے غزل، نظم اور اس میں کسی ایک صنف سخن تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس سے بالا تر ہو کر حب الوطنی، قومی یکجہتی، ہم آہنگی کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ ان صنف سخن میں بھی ان کے قلم نے خو ب خوب جوہر دکھائے ہیں۔ بطور نمونہ ان کے یہ اشعار آپ کی خدمت میں پیش ہے:
جنت کے جیسا سندر بھارت ہے دیش اپنا
آکاش جیسا اونچا بھارت ہے دیش اپنا
چمکے جو چاند جیسا بھارت ہے دیش اپنا
جاں اس پہ ہم لٹائیں ہم اس کے گیت گائیں
ہر ناز ہم اُٹھائیں سر پر اسے بیٹھائیں
آنکھوں سے اس کوچہ میں سینے سے بھی لٹائیں
دل میں پریم دیپک اس کے لئے جلائیں
جنت کے جیسا سندر بھارت ہے دیش اپنا
آکاش جیسا اونچا بھارت ہے دیش اپنا
ڈاکٹر منصور خوشتر پرہیز گار، دیندار، پارسا و پاکیزہ کردار اور باوقار انسان ہیں۔ وہ انتہائی خوش مزاج،خوش اخلاق اور خوش گفتار بھی ہیں۔ اﷲ نے شکل صورت بھی بہت اچھی دی ہے۔ حسین و جمیل ہیں، لیکن وہ اکثر خاموش رہتے ہیں مگر ان کی آنکھیں بولتی ہیں، ان کی ہر لمحہ مسکراتی اور چمکتی ہوئی آنکھیں بڑے بڑوں کو اکثر پریشان کردیتی ہیں اور لوگ ان کی آنکھوں کے طلسم کا بہت آسانی سے شکارہو جاتے ہیں۔ ان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی غیرت مندی، خودداری اور ایمانداری کا کبھی سودا نہیں کیا۔شاید کسی شاعر نے ایسے ہی لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ شعر کہا تھا:
بیچو نہ اسے مصر کے بازار میں لوگو!
اس عظمت یوسف کا کوئی دام نہیں ہے
منصور خوشتر کو ان کی صحافتی خدمات کے لئے مختلف اداروں کی جانب سے نوازا گیا ہے۔ ۲۰۰۹ء میں مدھوبنی کے ’’اوم گاؤں‘‘ میں عالمی مشاعرہ کے موقع پر سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر شکیل احمدنے انہیں ’’عمرفرید ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ یہ ان کی صحافتی خدمات کا پہلا اعتراف تھا۔ سابق وزیر ریل لالو پرشاد نے انہیں صحافتی خدمات کے لئے نقد انعام کے طور پر پچیس ہزار روپیہ اور فرسٹ کلاس ACکا ریلوے پاس دیا۔ ۲۰۱۲ء میں ’’ڈان باسکو ایوارڈ‘‘ برائے صحافت سے نوازے گئے۔۲۰۱۲ء میں ہی ’’ادبی مرکز بھیگو، دربھنگہ‘‘ نے بھی صحافت میں دلچسپی، بے باکی اور ایمانداری کے لئے اپنا صحافتی ایوارڈ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
شعری مجموعہ ’’محفلِ خوباں‘‘ ڈاکٹر منصور خوشتر کی فضائے شعروسخن میں پہلی پرواز ہے۔ کلام کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جواں سال شاعر کے حوصلے جواں ہیں مگر حد پرواز کہاں ہے یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ ’’محفل خوباں‘‘ میں جس طرح کے اشعار مطالعہ سے گزرے ہیں وہ اس بات کے غماز ہیں کہ شاعر پہلی پرواز میں ہی نئی فضا اور نئے آسمان کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ان کو ابھی بہت آگے جانا ہے، بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔ ان کا تخلیقی سفر جاری ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں زندگی کے متنوع موضوعات برتے ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نئے شعور اور زندگی کی توانائی بخشی ہے، ان کے شعری سفر میں سمندر کی گہرائی، زمین کی وسعت، پہاڑوں کی بلندی، جھرنوں کا ترنم، کہکشاں کی تابناکی، عصری موضوعات کا خوش رنگ منظر نامہ، کلیوں کے چٹخنے کی صدا،پھولوں کی خوشبو، کوئل کی کوک، چڑیوں کا چہکنا، مور کا رقص ، تتلیوں کی ادائیں ، بھنوروں کی گنگناہٹ اور چاندنی کے چمکنے کی فرحت سبھی کچھ موجود ہیں۔
اور آخر میں ڈاکٹرمنصور خوشتر کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس شعر پر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گی
اشعار میرے یوں تو زمانے کے لئے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لئے ہیں
جواب دیں