شاخ پر بیٹھا کوئی دم، چہچہایا، اُڑ گیا : عثمان جمیل ندوی کی وفات حسرت آیات

عبداللہ غازیؔ ندوی
دفتر ادارہ ادب اطفال بھٹکل

طالب علمانہ دور میں مخصوص ساتھیوں سے بے تکلفی اور اس قدر شناسائی ہوتی ہے کہ وہ حقیقت میں دوست سے بڑھ کر بھائی اور بعض دفعہ ان کے رشتے بھائیوں سے بھی گہرے ہوجاتے ہیں۔
دہلی کے عثمان جمیل کا تعلق بھی کچھ اس طرح تھا،آج صبح صبح ان کی ناگہانی وفات کی صائقہ اثر خبر سن کر گویا پیروں تلے زمین نکل گئی اور ذہن و دماغ پر عجب سکتہ طاری ہوا۔
ابھی کیا تھا اور کیا سے کیاہوگیا

جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو 
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو 

ہنستے مسکراتے اور دل و جاں کو اپنی ظرافت سے محظوظ کرتے عثمان بھائی کے اچانک سانحے سے اقبال مرحوم کا شعر یاد آیا:
 
زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا
شاخ پر بیٹھا کوئی دم، چہچہایا، اُڑ گیا

بھاری بھرکم جسم،گول مٹول چہرہ،سیدھا سادہ لباس،بڑے ظریف اور ہنس مکھ،روٹھے ہوئے ساتھیوں کو چٹکیوں میں منانے والے،روتے ہوٶں کو لمحے بھر میں ہنسانے والے،اساتذہ کے نورنظر،غریبوں کے ہمدرد،کینہ کپٹ اور بغض و عداوت سے دور دور کی بے تعلقی اور محبت، الفت اور نرم مزاجی کے حسین پیکر عثمان جمیل ہم سب کو داغ مفارقت دے کر اس عالم رنگ و بو سے کوچ کرگئے۔
واللہ ان کی ہر ادا یاد آرہی ہے لیکن زبان و قلم کو یارائے سخن نہیں،دل و جاں عثمان کے فراق پر بے چین ہیں۔
انا لفراقک یا عثمان لمحزونون
ندوے کے کسی ساتھی کے ساتھ میرا اس قدر رابطہ نہ تھا جتنا عثمان بھائی سے تھا،ہر مہینے ان سے گفتگو ہوتی تھی،اکثر دفعہ میں خود پہل کرتا،دیر تک گفتگو رہتی،اکثربھٹکل آنے کا ارادہ کرتے لیکن پھر کسی نہ کسی وجہ سے ملتوی کردیتے۔
 ان کی زندگی کا ایک ایک پہلو گویا میری آنکھوں کے سامنے ہے۔فراغت کے بعد اپنے دوست وصی لکھنوی کے ساتھ کچھ مدت تک لکھنٶ کے ایک مدرسے میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا پھر دہلی واپس آکر معاشی حالات سے دوچار ہوئے۔کبھی مسجد میں امامت کی تو کبھی تدریس سیجڑگئے۔
 مجھے فضیلت کے بعد دراسات میں عثمان جمیل اور شہباز بھائی کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہنے کا موقع ملاتھا۔جس کی وجہ سے عثمان بھائی کو بہت قریب سے دیکھنا ہوا تھا۔
اس وقت عبدالرحمن خلیفہ،سیدحسن،وصی لکھنوی اور شہباز دمکار عثمان بھائی سے خوب مزاق کرتے اور وہ بھی ہمیں اپنی ظرافت طبع سے محظوظ کرتے۔
بات بات پر”پاٹنر“کہہ کر اپنے قریبی دوستوں سے مخاطب ہوتے، یہ لفظ گویا ان کی پہچان بن گیا تھا۔جب بھی دہلی جاتا سب سے پہلے ملاقات کے لیے عثمان بھائی چلے آتے اور پورا دن ساتھ رہتے۔
ادارہ ادب اطفال بھٹکل کی تربیتی تحریک کے قدردان اور ماہ نامہ ”پھول“ کے خوشہ چینوں میں تھے،دہلی میں پھول کی خوشبو عام کرنے کے بڑے فکرمند تھے۔

آہ! عثمان بھائی! 
آپ کی جدائی سے جگر پارہ پارہ ہورہا ہے،آپ کا فراق روح کو بے چین کررہا ہے،آپ کی ذات والا صفات کے ہم صرف قائل ہی نہیں بلکہ بڑے قدردان ہیں،گویا آپ کی بعض صفات قابل تقلید نمونہ تھیں۔
آج ہم سب خدائے دوجہاں کے حضور گواہی دیتے ہیں کہ آپ اچھے تھے،بلکہ آپ اچھوں میں سب سے اچھے تھے۔
عثمان بھائی ہمیں عزیز ہی نہیں عزیز تر ہیں اور ہمیشہ رہیں گیان کی یادوں کی شمعیں ہمیشہ دلوں میں فروزاں رہیں گی۔

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

اللھم اغفرلہ وارحمہ

«
»

بنگال پر فرقہ پرستی اور فسطائیت کا حملہ ….. سب کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئے

اگر اظہار راۓ کی آزادی نہ بچی، تو آئینی جمہوریت نہیں بچ پائے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے