کہ ملک کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ جی ہیں لیکن پی ایم او آفس کے ایک افسر ریٹائرڈ ہونے کے بعد کتاب لکھ کر بتارہے ہیں کہ ہر فائل پہلے سونیاجی دیکھتی ہیں اور اس پر ہدایت کے مطابق حکم منموہن سنگھ کا چلتاہے۔
موجودہ الیکشن میں بی جے پی کی اتنی حیثیت بھی نہیں تھی کہ وہ اپنی مرضی سے امیدواروں کا فیصلہ کرتی تمام فیصلے سنگھ کی ہدایت پر ہوتے ہیں ۔ یہ بات اب چھپی ہوئی نہیں رہی کہ سنگھ کے سربراہ شری موہن بھاگو ت الیکشن کمیٹی کی میٹنگ میں شریک ہوئے پارلیمنٹری بورڈ کی میٹنگ میں کوئی کتنا ہی بڑاآدمی ہو اگر وہ ممبر یا عہدیدارنہیں ہے تو شریک نہیں ہوسکتالیکن بھاگوت جی شریک ہوئے اور شریک رہے۔ اور اگرپیچھے مڑکردیکھیں تو جب گوامیں انتخابی مہم کمیٹی کے چیرمین کے نام کا مسئلہ آیاتو اڈوانی جی نے کہا تھا کہ پانچ ریاستوں کے الیکشن ہوجانے دیجئے اس کا فیصلہ بعد میں ہوجائے گا لیکن ناگپور سے حکم آیاکہ فیصلہ آج ہی ہوگا اور ہوگیا نریندرمودی جی چیرمین بن گئے۔ اس فیصلہ سے اڈوانی جی اتنے ناراض ہوئے کہ انہوں نے پارٹی کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیااور چلے آئے اس کے بعد پارٹی کاوہ کون لیڈرتھا جو منانے نہیں آیا لیکن نہیں مانے اور پھر ناگپور سے کہا گیا کہ مان جائیے تومان گئے۔
اسی طرح وزیراعظم کے امیدوار کے نام کا اعلان کرنے کی بھی اڈوانی جی نے مخالفت کی حد یہ کہ وہ اس میٹنگ میں شریک بھی نہیں ہوئے ۔ مودی صاحب کے نام کا جب اعلان ہوگیا توپارٹی کا ہر بڑاچھوٹا اڈوانی جی کو منانے آیا مودی جی بھی ایک گھنٹہ تک مناتے رہے لیکن نہ مانناتھا نہ مانے۔ پھروہیں سے حکم آیا جہاں کا حکم ٹالا نہیں جاتاتومان گئے۔اس صورت حال میں اس کا سوال ہی نہیں کہ وزیراعظم کون ہوگا ؟بات توصرف اتنی سی ہے کہ اس کرسی پر کون بیٹھے گا جو ڈاکٹر منموہن سنگھ جی خالی کریں گے پھر جوبھی بیٹھے گا اسے وہی کرنا پڑے گا جو منموہن سنگھ جی دس سال تک کرتے رہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ اگر دکھانے کے وزیراعظم رہے تواس کی حقیقت بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ 2004میں جب کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر آئی تو مسز سونیاگاندھی کو وزیراعظم بننا چاہئے تھا لیکن مسز سشما سوراج مس اوما بھارتی مسٹرگوبندآچاریہ نے اتنا شور مچایا جیسے اگر اٹلی کی رہنے والی کو وزیراعظم بنادیا گیا تو بھونچال آجائے گااس کشمکش میں تین دن گذرگئے تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ ایک پارٹی جس کی اکثریت ہووہ صدر کے پاس تین دن تک نہ جائے کہ ہمیں حکومت بنانے کے لئے دعوت دی جائے چوتھے دن سونیاجی نے ایک چونکادینے والا فیصلہ کیا کہ وہ سردار منموہن سنگھ کو لے کر گئیں اور کہا کہ یہ وزیراعظم بنیں گے۔
اس وقت یہ صورت حال تو نہیں ہے نہ موہن بھاگوت جی وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور نہ سنگھ کے ہی کسی ساتھی کو بناناچاہتے ہیں بس پردہ کے پیچھے رہ کر وہ ڈورہلاناچاہتے ہیں اور ایسی ڈور کہ ہر چھوٹا یا بڑا فیصلہ ناگپور میں ہوگا اور جو کرسی پر بیٹھے گا اس کا کام صرف حکم پر عمل کرنا ہوگا ۔ اگر ہماری طرح کسی نے باریک بینی سے دیکھا ہوتوموہن بھاگوت جی کی دلچسپی اسے بھی اس وقت نظرآگئی ہوگی جب موہن بھاگوت جی نے ووٹ دے کر نشان لگی انگلی کیمرے کے ذریعہ پورے ملک کو دکھائی اور وہ شری رام مادھو جو صرف آرایس ایس کی ترجمانی کرنے یا کسی مسئلہ کی صفائی دینے سامنے آتے ہیں ۔ انہوں نے بھی مسکراتے ہوئے انگلی دکھائی شاید یہ سنگھ کا اشارہ تھا کہ ہم نے اپنی بننے والی حکومت کے لئے ووٹ دیا ہے۔ تعجب اس لئے ہوا کہ دہلی میں نہ جانے کتنے الیکشن ہوچکے وہاں کے ہر لیڈر نے عوام میں جوش بھرنے کے لئے اپنی انگلی دکھائی لیکن یاد نہیں کہ کبھی ایک جھلک بھی سنگھ کے کسی ذمہ دار کی دیکھی ہو؟۔
گذارش کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی شامت اعمال کی وجہ سے بی جے پی اپنے مشن 272میں کامیاب ہوتی ہے تو صرف مسلمانوں کو نہیں اسلام کو اس ملک میں اجنبی بنادیا جائے گا اور وہ راج ناتھ سنگھ جی نے مدارس کی جدید کاری کا اشارہ دیا تھا وہ سگنل تھا کہ سب سے پہلے مدارس کا خاتمہ ہوگا اس لئے کہ 1857ء سے یہی اسلام کی بقاء اور اس کی نشرواشاعت کے حلقے ہیں ۔ اللہ انہیں نظر بد سے بچائے اورہمیں عقل دے ۔
جواب دیں