سیمور ہرش نے اپنی تحریر میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں سیمور ہرش کا کافی دبدبہ ہے۔ انھوں نے اپنا یہ دبدبہ صحافتی قلم سے جاری رکھا ہے۔یہ وہی سیمور ہرش ہے جس نے کبھی مرارجی دیسائی کے دور حکومت یہ کہا تھا کہ مرارجی دیسائی کے کابینہ میں کچھ ایسے وزراء بھی جو امریکہ کے سی آئی اے کیلئے کام کرتے ہیں، جو اس وقت ایک سنسنی خبر تھی۔امریکہ نے ویتنام میں جو دہشت گردی مچا دی تھی ، اس منظر عام پر لانے کا کام بھی اسی سیمور ہرش نے ہی کیا۔2003میں امریکہ نے عراق پر جس جوہری توانائی کیلئے حملہ کیا تھا وہ وجہ کتنی بوگس یا ناپائیدار تھی ، اس کی نشاندہی بھی سیمور ہرش نے ہی کی۔گواتنامو امریکی جیل میں مسلم قیدیوں کو دی جانے والی شرمناک اذیت کو بھی دنیا کے سامنے پیش کرنے کا کام سیمور ہرش کی بیباک صحافت نے ہی کیا۔جس وقت امریکی فوج مغربی ایشیاء کی جنگ میں صحافیوں کے لیجاکر جو خبریں پہنچانے کا کام کرتی تھی، اس وقت اسی بیباک صحافی سیمور ہرش نے ان بوگس خبروں کی صحافت کرنے والوں کو رسوا کرنے کا اور ان کی پول کھول کرنے کا کام بھی کیا۔جب اس طرح کا ماہر اور حالات حاضرہ پر باریک نظر رکھنے والا جب اوسامہ بن لادن کے قتل کی تفصیلات اور حقائق پیش کرتا ہے ، تو یقیناًہر ذی فہم شخص اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔’لندن ریوئیو آف بکس‘اس جریدہ میں سیمور ہرش نے جو انکشاف پیش کیا وہ پڑھنے کیلئے ویب سائٹ پر قارئین کی جو بھیڑامڈ پڑی ہے جس وجہ سے یہ ویب سے Hangہوگی ہے۔
اس نے اپنی تحریرمیں دو بیان پیش کیے ہیں، ایک یہ کہ اوسامہ کی تلاش کرنے کی نوبت امریکہ کو نہیں آئی ، کیونکہ پاکستانی خفیہ ایجنسی نے اس تعلق سے پوری معلومات امریکہ کے خفیہ ایجنسی کو بیٹھے بٹھائے مہیا کی۔پاکستان خفیہ ایجنسی کے دو افسران نے یہ کام انجام دیا، وہ یہ کام اسلئے آسانی کے ساتھ کرسکے کیونکہ اوسامہ بن لادن پاکستان کے آئی ایس آئی کی پناہ میں تھا۔اسے سنبھالنے کی ذمہ داری پاکستان کی مشنری نے لی تھی اور دوسرا بیان کہ جس وقت امریکی کمانڈوزہیلی کوپٹر سے نیم شب میں آکر اوسامہ بن لادن کے پناہ گاہ پر حملہ کیا، اس کی مفصل معلومات پاکستان کے آئی ایس آئی کو تھی۔یہ دونوں بیانوں میں اتنی صداقت ہے کہ آسانی سے اس پر یقین کیا جاسکتا ہے ۔پہلے بیان کے تعلق سے:
1979سے 1989اس مدت میں امریکہ نے پاٹنر سعود عربیہ کے تعاون سے اوسامہ بن لادن کی کفالت یا سرپرستی کی جو ایک تاریخی حقیقت ہے۔اس دور میں امریکہ کو اوسامہ بن لادن کی سخت ضرورت تھی،کیونکہ افغانستان میں داخل ہونے والے روسی فوجیوں کے خلاف وہ لڑ رہا تھا، اسی وجہ سے 1989میں گوربا چو نے روسی فوجیوں کو واپس بلالیا۔جس سے امریکہ اور اوسامہ بن لادن کی مشترکہ منصوبہ بندی ناکا م ہوئی۔مگر جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا ، اس وقت سعودی عربیہ کی سرزمین پر امریکی فوج کو اُتارا گیا، اس وقت اوسامہ کو ایک نیا دشمن نظر آیا، وہ دشمن یعنی امریکہ اور اس وقت کے سعودی کنگ فیصل۔ اسلامی نقطہ نظر سے سعودی عربیہ ایک پاک و صاف سرزمین ہے، اس پاک زمین پر امریکہ کے یہودیوں کے ناپاک قدم پڑنا اوسامہ بن لادن کیلئے ناقابل برداشت بات تھی، اسے سعودی عربیہ کے کنگ فیصل کے خلاف غلط بیانی کا سلسلہ شروع کیااور بعد میں بغاوت کی کوشش کی، اس وقت سعودی عربیہ کو اوسامہ بن لادن کی مخالفت کرنے کی نوبت پیش آئی۔ اس دور میں اس وقت سینئر جارج بش سے اوسامہ بن لادن کی کاروباری پاٹنرشپ تھی، یہ بھی ایک صداقت سامنے آچکی ہے۔ پھر اوسامہ بن لادن امریکہ کا یکایک تلاش کردہ دشمن ہے ایسا نہیں ہے۔ آگے جاکر اوسامہ بن لادن نے سعودی نے جو امریکی لائزیشن کا کام شروع کیا تھا ، اس کی مخالفت شروع کی اور اسی وجہ سے 2001میں 9/11کا واقعہ پیش آیا۔ اس وقت امریکہ کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اوسامہ بن لادن اور عراق کے صدام حسین میں ساز باز ہورہی ہے اور اسی وجہ سے امریکہ نے عراق کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا، اس وقت امریکہ کے جانب سے افغانستا ن کو پریشان کرنے کا کام جاری ہی تھا۔
اس وقت پورے عالم اسلام میں امریکہ کی مخالفت میں ایک بڑی لہر اُٹھی تھی۔اس کا مقابلہ کرنا امریکہ کیلئے کافی دشوار کن ثابت ہورہا تھا، اس صداقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔سب میں اہم بات کہ اس دور امریکہ کی یہ ہمت نہ تھی کہ وہ اوسامہ بن لادن کو ہاتھ بھی لگائے۔اس دور میں دو مرتبہ اوسامہ بن لادن امریکی فوجیوں کے سامنے سے فرار ہوگیا، ایک مرتبہ سوڈان میں اور دوسری مرتبہ افغانستان میں۔ اس کے پس پشت سیاست کارفرما تھی، اگر اس وقت امریکہ اوسامہ بن لادن کو حراست میں لیتی تو امریکہ کے مخالفت میں مزید شدت پیدا ہوتی اس خطرے کو امریکہ نے بڑی چابکدستی سے ٹال دیا۔اس وقت مصر سے یمن تک، سعودی عربیہ ، قطرجیسے ممالک میں اپنے اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی۔امریکہ نے اوسامہ بن لادن کو جو نشانہ بنایا۔
وہ بالکل ان ہی حالات میں اور وہ بھی پاکستان میں۔ اس میں جو قابل تشویش بات ہے وہ یہ کہ ایک بھی اسلامی ملک نے اوسامہ بن لادن کے قتل کے خلاف نہ ہی آواز اُٹھائی اور نہ ہی کسی قسم کا احتجاج کیا۔دوسرا باب یہ کہ:
امریکہ کے فوجیوں نے اندھیرے میں آکر اوسامہ بن لادن کے گھر میں داخل ہوکر اوسامہ بن لادن کو نشانہ بنایا۔ امریکہ کے فوجیوں نے جو ہوائی کارروائی کی اس کی آواز انسانی سماعت کو متاثر کرنے والی تھی، مگر افسوس کے پاکستانی اس سے غافل تھی یا پھر اپنی غفلت کا مظاہرہ کر رہی تھی۔کوئی جہاز یا ہیلی کوپٹر جب کسی ملک کے حدود میں داخل ہوتا ہے تو راڈر اس کی اطلاع فوری طور پر دے دیتا ہے۔اس وقت اس آپریشن کے تعلق سے بھی پاکستان نے کسی قسم کاکوئی تبصرہ نہیں کیا۔یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی کمانڈوز نے اوسامہ بن لادن کو قتل کیا، یہ وہ جگہ تھی جو ابوٹا آبادکے نام سے مشہور ہے ، جہاں پر پاکستانی فوج کا صدر دفتر موجود ہے جو راولپنڈی سے صرف 250کلومیٹر کی دوری پرہے۔ یعنی امریکی فوجی ہیلی کوپٹر پاکستان کے اتنے اندر داخل ہونے کے باوجود پاکستان کی فوج اس بے خبر رہتی ہے، تعجب ہے جو سراسر بیوقوف بنانے یا خود کو بیوقوف ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اوسامہ بن لادن کے قتل کی سازش سے پاکستان پوری طرح باخبر تھا، پاکستان نے امریکہ سے ساز باز کرکے اوسامہ بن لادن کا کام تما م کیا ، ایسا انکشاف سیمور ہرش نے اپنی تحریر میں کیا ہے۔ ہرش کے اپنے اس دعوی میں کسی قسم کے شک وشبہ یا انکارکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جو ہوا اس پر مزید افسوس کرناسیمور ہرش کا مقصد نہیں تھا بلکہ یہ کیسے ہوا اس بات کو روشنی میں لانا ہی سیمور ہرش کا مقصد تھا۔ اس میں جو قابل فکر بات یہ ہے کہ اوسامہ بن لادن کی سرپرستی کرنا ہے اور اوسامہ بن لادن کا خاتمہ بھی کرنا ہے توان دونوں صورتوں میں سی آئی اے کا ہی اہم رول ہوتا ہے۔
جواب دیں