نور اللہ جاوید، کولکاتا نسلِ نو کے ذہنوں پر منفی اثرات۔ خاندانوں میں انتشار۔ خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات میں اضافہہندومسلم سیاست کی بدولت اصل مسائل منظر سے غائب۔ مذہبی و سیاسی قائدین اور میڈیا کا حقیقی مسائل کو موضوع بنانے سے گریز2022 کا اختتام اور نئے سال کا آغاز ملی جلی یادوں کے […]
نسلِ نو کے ذہنوں پر منفی اثرات۔ خاندانوں میں انتشار۔ خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات میں اضافہ ہندومسلم سیاست کی بدولت اصل مسائل منظر سے غائب۔ مذہبی و سیاسی قائدین اور میڈیا کا حقیقی مسائل کو موضوع بنانے سے گریز 2022 کا اختتام اور نئے سال کا آغاز ملی جلی یادوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ سال رفتہ کچھ ایسے واقعات پیش آئے جو اس وقت ملک کے سامنے بنیادی سوالات بن کر کھڑے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں ہر ایک سوال کو سیاست سے جوڑ دیا جاتا ہے نتیجتاً بنیادی مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ شاہ رخ خان کی آنے والی فلم ’’پٹھان‘‘ کے گانے پر جاری ہنگامہ آرائی ہو یا پھر ٹی وی اداکارہ تنو شرما کی خودکشی اور اس کے بوائے فرینڈ زین خان کی گرفتاری کے بعد جاری بحث، یہ سب اسی کی مثالیں ہیں۔ پٹھان فلم کے ’’بے شرم‘‘ گانے کے مناظر کی عریانیت اور اس کے ذریعہ فروغ دی جانے والی فحاشی پر بات کرنے کے بجائے ہیروئن کے ذریعہ استعمال کیے گئے کپڑے کا رنگ تنازع کا سبب بن گیا۔ ٹی وی چینلز اس بہانے ہندو مسلم کرنے لگے اور مسلمانوں کے خلاف ماحول بناتے ہوئے شاہ رخ خان کو مسلمانوں کا نمائندہ بناکر پیش کیا جانے لگا۔ اداکارہ نتاسنگھ کی خودکشی کو بھی نام نہاد لو جہاد سے جوڑ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے ایجنڈے پر عمل شروع کردیا گیا، جبکہ ضرورت اس بات کی تھی سماجی مصلح، مذہبی رہنما فنون ولطیفہ کی آڑ میں عریانیت کی ترویج پر بات کرتے کہ عریاں مناظر اور اشتہا انگیز الفاظ کس طرح نوجوانوں کے ذہن و دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔اسی طرح نتاسنگھ اور زین خان یا پھر شردھا اور آفتاب کے معاملے میں بھی بنیادی سوال پر غور نہیں کیا گیا کہ شادی سے قبل ’لیوان ریلیشن شپ‘ کے نقصانات کیا ہیں اور بین المذاہب شادی کیا سماج کے لیے مفید ہے؟ اس کے سماج پر منفی اثرات کس طرح مرتب ہوتے ہیں؟ بین المذاہب شادی کی آڑ میں چونکہ مسلمان اور اسلام کو مطعون کیا جاتا ہے اس لیے اس سوال پر بھی غور کیا جانا چاہیے تھا کہ کیا اسلام بین مذاہب شادی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یا حوصلہ شکنی؟ یہ سوال دنیا سے اس لیے پوچھنا ضروری ہے کہ جب اسلام ماورائے شادی جنسی تعلقات، میل ملاپ اور اختلاط کی اجازت دیتا ہی نہیں ہے تو ’لیوان ریلیشن شپ‘ اور بین المذاہب شادی کا سوال کہاں سے پیدا ہو گیا؟ فحاشی و بے حیائی سے جہاد جیسے مقدس فریضہ کا تعلق کیسے ہو گیا؟ ’’ہفت روزہ دعوت‘‘ کے انہی صفحات میں تین ہفتے قبل ہم نے ’’جنسی بے راہ روی‘‘ کے نتیجے میں معاشرہ کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ پیش کیا تھا۔ آج ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ ملک جنسی بے راہ روی کے دلدل میں کیوں دھنستا جا رہا ہے؟ خاندان انتشار کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟ نئی نسل شادی جیسی ذمہ داریوں سے گریز کرتے ہوئے لیو ان ریلیشن شپ (بغیر شادی کے جسمانی تعلقات) بندش سے آزاد جنسی رشتہ (No Strings attacched) دوستی اور فائدے کا تعلق (Friends with benefit ) ایک رات کی مہمان نوازی (ONs- One Night Stands) اور ہم جنسی جیسی متبادل راہیں کیوں اختیار کر رہے ہیں؟ دراصل شادی کے بغیر ان تمام تعلقات کی جڑ میں صرف ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے ’جنسی ہوس‘ کی تکمیل۔ اس بات پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ مندر اور کلیساوں میں خواتین کے استحصال کے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں اس کے عوامل کیا ہیں؟ عریانیت اور فحاشی کو اگرچہ جدیدیت و ترقی پسندی کا نام دے دیا گیا ہے مگر اس کے سماج و معاشرے پر منفی اثرات کا اعتراف دبے لفظوں میں ہر ایک کرتا ہے مگر کوئی اس پر کھل کر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب انڈین پینل کوڈ کے تحت 292/293/294 اور 505 جیسی دفعات عریانیت و فحاشی کی روک تھام کے لیے شامل کیے گئے ہیں تو اس کے باوجود پورنوگرافی کھلے عام بآسانی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ فحش مواد (پورنو گرافی) دیکھنے والے ممالک میں بھارت تیسری پوزیشن پر ہے۔ او ٹی ٹی کے پلیٹ فارمس سے کس طرح کی فلمیں نشر کی جارہی ہیں؟ حیا باختہ اور اخلاقیات سے عاری مواد کے سماجی و معاشرتی اثرات کیا مرتب ہونے والے ہیں؟ بھارت میں عصمت دری اور خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات میں تیزی سے اضافے کے اسباب کیا ہے؟ ان مسائل پر سنجیدہ غور وخوض کی ضرورت ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے نام نہاد سماجی مصلحین صرف اپنی پسند کے اور چنندہ ایشوز پر بات کرتے ہیں۔ یہ دوہرا رویہ بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ سے اہم ایشوز تنازعہ کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف رنویر سنگھ کی ایک میگزین کے لیے ننگی تصویر کھچوانے پر ایف آئی آر درج کر دی جاتی ہے تو دوسری طرف مندروں او دیگر عوامی مقامات پر قدیم روایات کے نام پر عریاں مورتی لگائی جاتی ہیں ۔اسی طرح سپریم کورٹ نے بھی عریانیت اور فحاشی کی تشریح دو مختلف مواقع پر الگ الگ کی ہے، ایسے میں کیا یہ عدالت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں مذکورہ قوانین کی جامع تشریح کرے اور اس پر ایماندرانہ عمل آوری کو یقینی بنائے؟ فحاشی اور عریانی بھارت کے آئین کے تناظر میں اگرچہ بھارت کے آئین میں عریانیت اور فحش کی کوئی متعین تعریف نہیں ہے مگر آئی پی سی کی دفعہ 292/293 اور 294 کے تحت ایسے مواد کی اشاعت کو قابل جرم قرار دیا گیا ہے کہ جو اخلاقیات سے ماورا ہو اور دوسرے کے جذبات کو مجروح کرنے والے ہوں۔ 294 کے تحت تین ماہ کی سزا کا بھی انتظام ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ ہی فحاشی کی روک تھام کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 67 کے تحت جو کوئی بھی فحش مواد الیکٹرانک شکل میں شائع یا منتقل کرتا ہے اسے سزا دی جا سکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ فحش اور عریانیت کی تعریف کیا ہے؟ یہ سوال وکلا کے درمیان ہمیشہ موضوع بحث رہا ہے۔ آکسفورڈ کی ڈکشنری میں فحش کو اخلاقیات اور شائستگی کے معیار سے جوڑ کر دیکھا گیا ہے۔ آئی پی سی کی دفعہ 294 میں عوامی مقامات پر فحش حرکات یا الفاظ دہرانے پر تین ماہ کی سزا دی جا سکتی ہے۔ 292 کے تحت فحش کتابوں اور ویڈیوز کی اشاعت کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ 1965 میں سپریم کورٹ نے رنجیت ادیشی کیس میں فحاشی کی تعریف کے لیے وکٹورین دور کے ہیکلن ٹیسٹ کو معیار بنایا۔ اس میں فحش کا دائرہ کار کافی وسیع رکھا گیا مگر 2014 میں ٹیلی گراف، اے بی پی گروپ کے اویک سرکار بنام حکومت بنگال کیس میں، سپریم کورٹ نے برطانوی ہیکلن ٹسٹ کے معیار کو ختم کرتے ہوئے امریکی روتھ ٹسٹ کو اختیار کیا گیا۔ اس میں فحاشی کی تعریف کو محدود کر دیا گیا اور اس میں کسی بھی مواد کے فحش ہونے کا طے کرنے سے قبل اس کی اشاعت کے مقاصد اور مصنف یا فلم ساز کی نیت کو بھی دیکھنے کی ہدایت دی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وقت کے ساتھ فحاشی کے معیار بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ چناں چہ 1965 سے فحاشی کے زمرے میں جس چیز کو شمار کیا جاتا تھا آج وہ چیز عام ہو گئی ہے اور اس کو برائی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 19 جو اظہار رائے کی آزادی کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ مگر یہ آزادی مطلق نہیں ہے بلکہ چند معقول پابندیاں بھی ہیں۔ آزادی اظہار اخلاقیات اور معاصر معاشرتی معیارات کے ساتھ متوازن ہونی چاہیے۔ تاہم بھارتی عدالتوں نے اخلاقیات اور اظہار رائے کی آزادی کے معاملے میں فنکار کی آزادی کو ترجیح دی ہے۔ 2008 کے ایم ایف حسین کیس اور 2016 کے پیرومل مروگن کیس میں سپریم کورٹ نے فرد اور فنکار کی آزادی کو ترجیح دی۔ ’’آرٹ اکثر اشتعال انگیز ہوتا ہے مگر ہر کسی کے لیے نہیں ہوتا‘‘ مواد کو صرف اس لیے فحش نہیں کہا جا سکتا کہ یہ معاشرے کے ایک طبقے کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ پونم پانڈے کی ضمانت کی عرضی پر عدالت نے کہا کہ کوئی چیز کچھ لوگوں کے لیے فحش ہو سکتی ہے مگر دوسروں کے لیے فنکارانہ مواد ہو سکتا ہے اس لیے اس بنیاد پر کسی کو جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔ مذکورہ قانونی تشریح سے واضح ہوتا ہے کہ فحاشی کے بارے میں عدالتوں کے تبصرے اور رائیں تضادات کا شکار ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی اور اخلاقیات کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔یہ صحیح ہے کہ آرٹ اور فنون لطیفہ سماج کی عکاس ہوتی ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بیداری عامہ اور لوگوں کے ذہن و دماغ پر اثر مرتب کرنے اور لوگوں کی رائے تبدیل کرنے میں سنیما، ٹی وی اور دیگر فنون لطیفہ اہم کردار کرتے ہیں، لہٰذا کسی بھی آرٹسٹ کے کام کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ وہ آرٹ کے نام پر جو کچھ پیش کر رہا ہے اس سے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ دراصل یہ قانونی بحث اس لیے کی جارہی ہے کہ ملک کی نئی نسل فحش مواد دیکھنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ پورنوگرافی کا کاروبار تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔پورنوگرافی بچوں کے ذہن و دماغ کو کس طر ح متاثر کرتے ہیں اس کے لیے عالمی ادارہ یونیسیف کے ویب سائٹ کا یہ حصہ ضرور پڑھنا چاہیے ’’کم عمری میں فحش مواد کو دیکھنے سے دماغی نشو ونما متاثر ہوتی ہے۔ جنس پرستی، جنسی تشدد اور دیگر منفی نتائج کا باعث بنتی ہے۔ دیگر خطرات کے علاوہ جب بچے فحش نگاری دیکھتے ہیں جس میں جنسی بد سلوکی ہوتی ہے تو وہ اس طرح کے رویے کو عام اور قابل قبول سمجھنے لگتے ہیں اور کبھی خود اسے عملی طور پر بھی انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔فحش نگاری، عریانیت اور شہوت انگیز مناظر کی کثرت نے خواتین کے تقدس اور ان کی سماجی اہمیت کو نظر انداز کر کے صرف سیکس ازم کی علامت بنا دیا ہے۔ بھارتی معاشرے میں خواتین کے استحصال کو نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی یہ رپورٹ ملاحظہ کرلیں۔ ’’ملک میں ہر 22 منٹ پر کسی نہ کسی خاتون کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا ہے اور ہر 72 منٹ میں کسی نہ کسی کمسن دوشیزہ ریپ کا شکار ہوتی ہے۔ ہر 25 منٹ پر چھیڑ خوانی کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ ایک جائزہ کے مطابق 92 فیصد وہ عورتیں جو مختلف حلقوں میں نائٹ شفٹ میں کام کرتی ہیں اپنی ڈیوٹی کے درمیان خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ (گزشتہ اسٹوری میں ہم نے ملٹی نیشنل کمپنیوں میں خواتین کے استحصال پر روشنی ڈالی تھی) ان اعدادو شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ریپ کے واقعات تشویشناک حد تک عام ہو رہےہیں۔ گلوبل میڈیا جرنل نے ہریانہ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے کالجوں میں زیر تعلیم طلبا پر سروے کیا ہے جس میں آن لائن پلیٹ فارم جاری ہونے والے سیریز کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دراصل ویب سیریز او ٹی ٹی پلیٹ فارم ٹیلی ویژن کی جگہ لے رہی ہیں اور ہندوستان میں آن لائن اسٹریمنگ اور ویب سیریز کے مواد کی مقبولیت میں تیزی آئی ہے۔ اس سروے میں واضح کیا گیا ہے کہ اوٹی ٹی پلیٹ فارم پر نشر ہونے والے مواد کے سنسرشپ کا کوئی قانون نہیں ہے اس لیے او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے بے دھڑک گالی گلوج اور فحش گفتگو کو نشر کیا جاتا ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق او ٹی ٹی پلیٹ فارم تک رساسی زیادہ تر اٹھارہ سے تیس برس کے نوجوان کی زیادہ ہے۔ اصل مسئلہ فحاشی ہے یا اداکارہ کا لباس ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ اصل ایجنڈا کیا ہے؟ فحش ہے یا پھر فحش کے لیے استعمال کیا گیا کپڑے کا رنگ ہے؟ ہندو مذہبی رہنما بھارگپ اچاریہ نے جو کولکاتہ کے ایک مشہور مندر میں پجاری ہیں اور ہندو مذہبی رہنماوں کی ایک تنظیم کے ذمہ دار بھی ہیں ’’ہفت روزہ دعوت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سناتن دھرم میں کسی بھی رنگ کو ہندوؤں کا مذہبی رنگ نہیں قرار دیا گیا ہے نہ ہی کوئی مخصوص لباس ہے۔ لباس صرف ستر ڈھانپنے کے لیے ہوتا ہے۔معاشرہ میں انفرادی شناخت قائم کرنے کے لیے پنڈتوں اور پجاریوں نے بھگوا رنگ کے کپڑے کو اختیار کیا اور پھر دھیرے دھیرے یہ ان کا لباس بن گیا جبکہ یہ لباس ہندو مذہب کی روایات کا حصہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندو مذہب میں بہت سارے رواج، روایات کا حصہ بن گئے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت ساری رواج تصوراتی ہیں۔ان میں ایک ’’کرشن بھگوان‘‘ سے متعلق گوپیوں کی کہانی بھی ہے۔ کیا کوئی ’بھگوان‘ اس طرح کرسکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر اس کہانی کی جانچ کی جائے تو حقیقت واضح ہو جائے گی کہ یہ ایک بناوٹی اور تصوراتی کہانی ہے جس سے نقصان ہندو مذہب کو ہوا ہے۔ آج بہت سارے آشرم میں خواتین جنسی تشدد اور استحصال کا شکار ہو رہی ہیں۔اس گناہ میں ملوث پجاری خود کو بھگوان کرشن کا روپ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اپنے ارگرد خواتین کو جمع کرتے ہیں اور اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں اس کی وجہ سے تمام پجاری کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اچاریہ کہتے ہیں کہ ہندو مذہب میں بھی مردو خواتین کا اس طرح سے اختلاط کسی بھی وید کا حصہ نہیں رہا ہے مگر اپنی سہولتوں کے اعتبار سے کئی لوگوں نے اس کی شروعات کی جو بعد میں رواج بن گئیں۔ بھارگپ اچاریہ کہتے ہیں کہ اس وقت ملک جو جنسی بے راہ روی پائی جاتی ہے اس میں فلم، ٹی وی سیریز اور دیگر میڈیا پروگراموں کا اہم رول ہے۔ یقینا انہیں اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے، ملک کے تمام باشندوں کو اپنی پسند وناپسند کے کپڑے اور کھانے کے انتخاب کرنے کا حق حاصل ہے مگر کوئی بھی حق کبھی بھی مطلق نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر لکشمن ریکھا پار کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ اس وقت ہیروئن کے کپڑے کو لے کر جو بحثیں چل رہی ہیں وہ سیاسی پولرائزیشن کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ماضی میں کئی اداکاروں نے بھگوا رنگ کے کپڑے پہن کر اداکاری کی ہے مگر اس وقت کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا تھا۔ مردو خواتین کا آزادانہ اختلاط برائی کی اصل جڑ جنسی درندگی اور جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے کے اسباب میں جہاں فحش اور عریانیت پر مبنی مواد کی تشہیر اور اشتہارات کے ذریعہ شہوت انگیزی کو فروغ دینا شامل ہے وہیں جنسی درندگی میں اضافہ کی دیگر وجوہات میں مرد وزن کا آزادانہ اختلاط اور تعلیم گاہوں اور عوامی مقامات پر لڑکوں اور لڑکیوں کا بے محابا میل جول ہے۔ مخلوط کلچر ہمارے معاشروں کو تباہی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ معاشرے میں جوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں غیر معمولی تاخیر ہے۔ بے پردگی اور خواتین کی فیشن زدہ زندگی بھی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کوئی مرد اداکار عریاں تصویر کشی کراتا ہے تو اس پر مرد حضرات چراغ پا ہو جاتے ہیں اور خواتین اداکاروں کی شہوت انگیز اور عریاں تصاویر کو آرٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔ معاشرے کا یہ دہرا رویہ سب سے زیادہ خطرناک ہے اور اسی سوچ نے سب سے زیادہ معاشرتی تباہی مچائی ہے۔ اخلاقی پولسنگ کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ یقیناً جو حقوق مردوں کو حاصل ہیں وہی حقوق خواتین کو بھی حاصل ہیں مگر جس طریقے سے اظہار رائے کی آزادی مطلق نہیں ہے اسی طرح سے لباس پہننے کی آزادی بھی مطلق نہیں ہے وہ معاشرے کے اخلاقی معیار سے وابستہ ہے۔ مردو زن کے آزادانہ اختلاط کے فتنے مذہبی مقامات گرجا گھر، مندر اور دیگر مذہبی مقامات بھی محفوظ نہیں ہیں۔مذہبی مقامات پر خواتین کے استحصال سے متعلق کوئی سروے رپورٹ ہمارے سامنے نہیں ہے مگر تسلسل کے ساتھ آنے والی خبریں بتاتی ہیں کہ مذہبی مقامات پر بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔گزشتہ برسوں میں بڑے پیمانے پر مندروں، آشرموں اور اناتھ آشرموں میں خواتین کے استحصال کی خبریں آتی رہی ہیں۔ اس وقت ملک کی جیلوں میں کئی سوامی اور پنڈت، خواتین کے ساتھ جنسی استحصال کے معاملات میں بند ہیں۔ یہی صورت حال چرچوں کی بھی۔دو سال قبل فرانس کے کیتھولک چرچوں میں بڑے پیمانے پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات سامنے آئے تھے۔حیرت انگیز بات یہ تھی کہ منصوبے بند طریقے سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی شکایات چھپائی گئی تھیں اور پادریوں کو الزامات کی زد میں آنے سے بچانے کے لیے چرچ کے ذمہ داروں نے مدد کی۔ جب Baylor University نے 2008 میں ایک مطالعہ کیا تو تین فیصد سے زیادہ خواتین نے کہا کہ وہ اپنی بالغ زندگی میں کسی وقت پادریوں کے جنسی استحصال کا نشانہ بنی ہیں، ان میں سے 92 فیصد پیش رفت خفیہ طور پر کی گئی اور 67 فیصد مجرموں نے کسی اور سے شادی کی۔ آٹھ فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ وہ پادریوں کے جنسی بد سلوکی کے بارے میں جانتے ہیں جس میں وہ شریک ہوئے تھے۔ Baylor’s School of Social Work کی ڈین ڈیانا گارلینڈ کہتی ہیں کہ وہ اس مسئلے کی شدت سے حیران رہ گئی تھیں اور انہوں نے اس کی حد تک کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ تمام فرقوں میں رائج ہے۔ 1
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں