یورپی پارلیمان میں ترکی کے خلاف قرارداد!!!

اور مطالبہ کیاکہ عالمی برادری عیسائیوں کے اس دکھ کو سمجھے اور اس قتل عام کی حقیقت کو تسلیم کیاجائے ،پوپ نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کی اسلامی خلافت سلطنت عثمانیہ کو اس قتل عام کا ذمہ دارقراردیاتھا۔سیکولریورپی یونین نے عیسائیوں کی ترجمان کا کرداراداکرتے ہوئے پوپ کے اس مطالبے کو قرارداد کی شکل دے دی۔اس سے پہلے 1987میں بھی یورپی پارلیمان نے اسی نوعیت کی ایک قراردادمنظور کی تھی اور اب کی بار بھی کم و بیش انہیں الفاظ کے ساتھ قرارداد منظور کی گئی ہے۔پوپ کی تقریرکادوسرا مثبت ردعمل آرمینیاکے صدر کی طرف سے بھی آیاجس نے دل کی گہرائیوں پوپ کا شکریہ اداکیااورکہاکہ پوپ نے عیسائی دنیاکی نمائندگی کا حق اداکردیاہے۔پوپ فرانکس پہلے پوپ نہیں ہیں جنہوں نے انسانی خون ڈوبی ہوئی دنیامیں اس طرح کے جانبدارانہ خیالات کا اظہار کیاہے بلکہ اس سے پہلے پوپ جان پال دوئم اورآرمینیاکے عیسائی مذہبی راہنما کیرن کن دوئم بھی انہی خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔پوپ فرانکس نے مشرق وسطی میں بھی عیسائیوں کے قتل پر دکھ کااظہارکیا۔
’’آرمینیا‘‘مغربی ایشیا کے شمال میں واقع جنوبی یوریشیاکاپہاڑی سرزمین پرمشتمل ملک ہے۔اس جغرافیائی خطے کو’’ قفقاز‘‘کی سرزمین بھی کہتے ہیں۔آرمینیاکے مغرب میں ترکی،شمال میں جارجیا،مشرق میں آزربائیجان اور جنوب میں سرزمین فارس ہے۔’’آرمینیا ‘‘پندرہویں اور سولہویں صدی مسیحی میں سلطنت عثمانیہ کی ٹھنڈی چھاؤں میںآیا،اس وقت اس صوبے کو ’’ترک آرمینیا‘‘یا’’مغربی آرمینیا‘‘بھی کہتے تھے۔یہاں زیادہ تر مسیحی برادری سکونت پزیرتھی اور عثمانی ترک سلاطین نے انہیں مکمل طورپر مذہبی آزادی دے رکھی تھی اور یہ ملت اپنے مقامی و مذہبی قوانین و رسوم و رواج کے تحت زندگی گزارتی تھی۔مرکزی حکومت صرف اسلام کے وہ قوانین نافذ کرتی جنہیں ’’ذمیوں‘‘کے حقوق سے یادکیاجاتاہے اور مقامی زبان میں انہیں ’’گور‘‘کہاجاتاتھایعنی غیرمسلم شہری۔آرمینیا کے عیسائیوں نے کئی صدیوں تک سلطنت عثمانیہ کے شہریوں کی حیثیت سے شہدجیسی شیریں زندگی بسر کی لیکن پہلی جنگ عظیم میں انہوں نے کھل کر اپنے مادروطن سے غداری کی اور سلطنت عثمانیہ کے دشمنوں کے ساتھ ملے رہے۔آرمینیا کے یہی باغی اورغدار باشندے ریاست کے خلاف اس حد تک آگے جا چکے تھے کہ انہوں نے ترکوں کے سابق وزیرداخلہ طلعت پاشا،سابق وزیرجنگ انورپاشا،سابق وزیردفاع جمال پاشااورسابق وزیراعظم سیدحلیم پاشا سمیت کئی اعلی حکومتی عہدیداروں کوبھی شہیدکیا۔سلطنت نے باغیوں کی سرزنش کے لیے 24اپریل1915ء کو پکڑ دھکڑ شروع کی اور محض دوسوپچاس افراد کو پس دیوار زنداں بندکردیااور جن لوگوں نے مزاحمت کی ان کے خلاف ریاستی اختیارات استعمال کیے گئے۔چونکہ یہ کاروائی اہل مغرب کے حامیوں کے خلاف واقع ہو رہی تھی اس لیے انہوں نے بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیااور دس سے پندرہ لاکھ افراد کا قتل اور بے شمار لوگوں کی ملک بدری اور خواتین کے زیادتیاں اور نہ جانے کیاکیا کچھ ساتھ ملاکر تاریخی بددیانتی کا بین ثبوت پیش کیاگیا۔سیکولرذرائع ابلاغ نے اپنے روایتی ہتھکنڈوں کے ذریعے تاریخی شواہدکو شدت سے تبدیل کیااورغداران مملکت کے خلاف اس اقدام کو مذہبی رنگ دے کر آرمینیائی عیسائیوں کے خلاف مذہبی کاروائی قراردیتے رہے اورآج تک اسی کذب بیانی پر بضدہیں۔
تصویرکادوسرارخ یہ ہے 1915ء کے اس واقعے سے قبل آرمینیامیں 1905کے بعد سے کئی سالوں تک لاکھوں آذربائیجانی مسلمانوں کا قتل عام کیاگیاتھا،ہزارہامسلمان خاندان اجاڑ دیے گئے اور ان کے قبائل کے قبائل کو جبری ملک بدری پر مجبورکیاگیا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ’’ترک آذری‘‘کہتے تھے اور عقیدۃََمسلمان تھے۔عیسائیوں کا یہ تشددموجودہ باکو،دارالحکومت آذربائیجان،سے آرمینیاتک پھیل گیا،مارچ 1908ء میں صرف باکومیں تین دنوں میں تیس ہزارآذری مسلمانوں کو قتل کردیاگیا۔روسیوں نے بھی مسلمانوں کے اس قتل عام سے بھرپور فائدہ اٹھایااور آذربائیجان کے کئی علاقے زبردستی ہتھیالیے جب کہ مسلمانوں کے قتل میں بھی عیسائیوں کے ساتھ برابر کے شریک رہے۔’’آرمینیا‘‘جو ایک زمانے میں آذربائیجان کا حصہ سمجھاجاتاتھااور اس خطے میں آذری مسلمان کثرت سے آباد تھے ،مسلمانوں کے قتل عام کے باعث آج کے آرمینیامیں ایک آذری بھی موجود نہیں۔تاریخ کا یہ جبر تھا جسے اس وقت کی مسلمان حکومت ’’سلطنت عثمانیہ‘‘نے برداشت کیالیکن اس سب کے باوجود جب آرمینیائی باشندوں نے جنگ میں کھل کر دشمن کا ساتھ دیا تو دنیابھر کی اور تاریخ انسانی کی کسی بھی حکومت کی طرح سلطنت عثمانیہ نے بھی ریاستی قوانین کے تحت باغیوں اور غداروں خلاف آہنی ہاتھ استعمال کیالیکن افسوس کہ سیکولرذرائع ابلاغ نے مسلمانوں کے قتل عام کو تو اپنے دامن میں کوئی جگہ نہ دی البتہ ریاستی مجرموں،باغیوں اورغداروں کے خلاف خلافت اسلامیہ کی کاروائی کو مذہبی رنگ دے کر فسادکاپہاڑ کھڑاکر دیا۔
آج کا متعصب یورپ ترکی کی اسلامی ریاست کو اسی لیے ترکی یونین کا رکن نہیں مانتا کہ اس کی دیگرشرائط کے ساتھ ایک شرط یہ بھی ہے کہ آرمینیاکے باغیوں کے خلاف کاروائی کو عیسائیوں کا قتل عام مانا جائے،لیکن ترکی اس تاریخی بددیانتی کو تسلیم کرنے کے لیے قطعاََتیار نہیں ہے۔ترکی ہر لحاظ سے یورپی یونین کا رکن بننے کی اہلیت رکھتاہے لیکن جب بھی اس مقصدکے لیے درخواست دی جاتی ہے تو جواب ملتاہے کہ نہیں ابھی کچھ غیرت ایمانی باقی ہے اس لیے رکنیت نہیں دی جا سکتی۔یورپی یونین کاعیسائی کرداراس کے سیکولر تشخص کا بھانڈاپھوڑ رہاہے کہ سیکولرازم کے تمام ادارے صرف یہودونصاری کو ہی تحفظ دینے کے پابندہیں کیونکہ قرآن مجید نے کہ دیاہے کہ اے ایمان والو،یہودونصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ترکی کے راہنما طیب ارزغان نے پوپ اور یورپی یونین کے ان اقدامات کا سختی سے جواب دیا ہے،ان کے مطابق یورپی یونین جانبداری سے کام لے رہی ہے۔انہوں نے پوپ کے بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا پوپ نے نومبر2014میں ترکی کے دورے کے دوران جو بیان دیاتھا اب اس کی نفی کردی ہے،انہوں نے کہا کہ پوپ کے سینے میں عیسائیوں کے قتل کا تو غم ہے لیکن مسلمانوں کے قتل کا انہیں کوئی احساس نہیں۔طیب ارزغان نے پوپ کے بیان کی سخت مذمت کی اور ان سے کہا وہ اپنے منصب کو پہچانیں اورآئندہ ایسا بیان دینے کی غلطی نہ کریں۔ترک وزیراعظم نے یورپی یونین کی قراردادپرتبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ وہ ایک کان سے سن کردوسرے کان سے نکال باہر کردینے کے قابل ہے،انہوں نے کہا آرمینیاکے عیسائی مقتولین کی جو تعداد بتائی جاتی ہے وہ پہلی جنگ عظیم کے جملہ مقتولین میں سے ہے اور سلطنت عثمانیہ کا اس امرمیں کوئی مذہبی عمل دخل نہ تھا۔ہفتہ 18اپریل کو پاکستان آذربائجان میڈیافورم اور بیداری فکرفورم اسلام آبادکے مشترکہ اجلاس میں فورم کے سیکریٹری جنرل راجہ جاویدعلی بھٹی نے یورپی یونین کے اس جانبدارانہ رویے کے خلاف قراردادپیش کی جسے اتفاق رائے سے منظورکرلیاگیا۔
سیکولرازم نے یہودیت اور عیسائیت کے جڑواں بطن سے جنم لیاہے اور اس نظریہ کا مقصدوجود صریحاََاسلام ومسلمان دشمنی ہے،یہ محض غلط فہمی ہے کہ سیکولرازم مذہب کے خلاف ایک تحریک ہے بلکہ یہ دین اسلام کے خلاف مکروہ عزائم کا پلندہ کذب و نفاق ہے۔کیا سیکولرازم کے کارپردازوں کو فرانسیسی انقلاب،روسی انقلاب،پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے مقتولین کے ذمہ داران نظر نہیں آتے ؟؟اور کیا تقسیم ہندکے ظالمانہ فارمولے کے نتیجے میں ہونے والے قتل عام کے کسی ذمہ دار کا تعین کیاگیا؟؟گیارہ ستمبرکے خودساختہ وقوعے کے بعدسے دریاؤں میں پانی کی جگہ جو مسلمان خون بہہ رہاہے توکیااس کا بھی کوئی ذمہ دار بنتاہے؟؟دوعیسائیوں کے قتل پر مشرقی تیمورکو مسلم ملک انڈونیشیا سے الگ کر دینا،سوڈان کے عیسائیوں کو تھالی میں رکھ کرالگ ریاست پیش کردینا لیکن لاکھوں کشمیریوں اورفلسطینیوں کے قتل کے بعد اندھی،گونگی،بہری عالمی برادری کسی کو ذمہ دار ٹہرائے گی؟؟بوسنیا،گروزنی،اریٹیریا،برمااور بھارتی مسلمانوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹنے والے کیاانسانیت کے ٹھیکیداروں کو نظر نہیں آتے؟؟حیرانی کی بات تو یہ ہے یورپی یونین کی اس قرادادمیں جرمنی نے بھی حمایت میں رائے دی ہے،کیا آج تک جرمنی سے کسی نے یہودیوں کے قتل عام ،ہولوکاسٹ،کا حساب مانگاہے؟؟سچ یہی ہے کہ ترکی کا ابھرتاہوا اسلامی تشخص ان کو گوارانہیں،یہودونصاری کے پروردہ سیکولراور لبرل ذہن کسی اسلامی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے تیارنہیں ہوسکتے ،لیکن کب تک؟؟؟یہ زمین اﷲتعالی کی ہے اور اس کے نبی آخرالزماں کالایا ہوا دین اس زمین کا اور اس زمین کے باسیوں کا مقدراولیں و آخریں ہے جوہرحال میں نافذوجاری ہوکررہے گاخواہ ان سیکولرافرادکو کتنا ہی ناگوارگزرے۔

«
»

ارکان پارلیمنٹ کیلئے مشاہرات اور غیر معمولی سہولتیں کیوں

یمن ، عراق اور شام کے حالات مزید خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے